پاکستان میں ڈرائیونگ لائسنس کو ریاست ا ور لوگوں کی جانب سے کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی۔ اس بات کا اندازہ اس عمل سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی عام شاہراؤں اور موٹروے پر چلنے والی گاڑیاں یا تو لائسنس کے بغیر چل رہی ہوتی ہیں یا انکی رجسٹریشن نہیں کروائی جاتی ھے۔ شعبہ سوشیالوجی، قائداعظم یونیورسٹی اسلام آبادکے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں دو فیصد تک افراد نے ڈرائیونگ سکھانے والے اداروں سے ڈرائیونگ سیکھی ہے جبکہ 98 فیصد افراد نے اپنے قریبی رشتے داروں اور دوست احباب کی مدد سے ڈرائیونگ کرنا سیکھی۔ جبکہ یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ پاکستان میں 48 فیصد افراد ایسے ہیں جو بغیر لائسنس کے ڈرائیونگ کرتے ہیں جبکہ 52 فیصد افراد کے پاس لائسنس یا تو جعلی ہے یا اصلی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ 67 فیصد ڈرائیورز کا ماننا ہے کہ سٹرک پر ہونے والے حادثات انسانی خطا کی بجائے قسمت کی وجہ سے ہوتے ہیں ۔ ڈرائیور حضرات میں ٹریننگ کی قلت اور لائسنس کی عدم موجودگی حادثات کی بڑی وجہ بن رہا ہے۔ ہر روز کے بڑھتے ہوئے حادثات اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ حکومت و ادارے اس سنگین مسئلہ کو یکسر نظر انداز کر رہے ہیں کیونکہ یہ حادثات حکومت کی ظاہری حالت کو بیان کر رہے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریبا سالانہ 35 ہزار لوگ ٹریفک حادثات میں ہلاک ہو جاتے ہیں جبکہ 50 ہزار سے زائد افراد زخمی اور عمر بھر کی معذوری سے دوچار ہوتے ہیں۔ گاڑی چلانے والے ڈرائیوروں کو یہ معلوم ہی نہیں کہ انہیں سڑک پر کس لین پر گاڑی چلانی چاہییے اور لین کے مطابق گاڑی کی رفتار کیا ہوگی۔ سابق وفاقی وزیر ہوا بازی نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران یہ انکشاف کیا کہ پاکستان میں 141 ہوا بازوں نے لائسنس مشکوک طریقے سے حاصل کیا ہے جبکہ ان کے پاس طیارہ اڑانے کی صلاحیت بھی موجود نہیں ہے۔ وزیر صاحب نے مزید کہا کہ ہوا بازی کی تربیت دینے والے اداروں نے تربیت دی اوراس کے بدلے رقم وصول کی جس سے پائلٹ حضرات کو لائسنس مل گیا۔ پاکستان میں اس وقت کل 860 پائلٹس موجود ہیں لیکن اگر ان میں سے 262 کو نکال دیا جائے تو 418 پائلٹ بچتے ہیں جو قانونی طور پر طیارہ اڑانے کا اختیار رکھتے ہیں۔ دریں اثنا، کویت ائیر لائن نیسا ت اور ویتنامی ائیر لائن نے ستائیس پاکستانی ہوابازوں کو پرواز سے روک دیا جسکی وجہ جعلی لائسنس کا ہونا ہے تاکہ انکی وجہ سے قیمتی جانوں کا ضیاع نہ ہوسکے۔ پاکستان میں ہوائی جہازوں سے ہونے والے حادثات ناگریز ہیں لیکن ان میں میں طیارہ بنانے والی صنعتوں کی جانچ پڑتال، ہوا بازوں اور عملے کی تربیت و نگرانی کو سرے سے ہی نظر انداز کر دیا گیاہے جسکا نتیجہ حادثات کی صورت میں نظر آتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہوائی اداروں نے ہونے والی غلطیوں سے کوئی سبق بھی حاصل نہیں کیا۔ پاکستان میں ایک ہوا بازی کے پیشے کو آئیڈیل پیشہ تصور کیا جاتا ہے جس کی وجہ اس میں شمولیت اختیار کرنے والے، معاشرے میں اونچے طبقات کے افراد کے ساتھ سماجی رابطے قائم کرتے ہیں اور اپنے پیشے سے ملنے والے اقتدار و وقار سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ پاکستان میں لائسنس کا حصول ایک غیر قانونی کاروبار بن چکا ہے جو پہلے صرف سڑک پر ڈرائیورنگ تک محدود تھا لیکن وزیر ہوا بازی کے بیان کے بعد یہ گمان ہوتا ہے کہ اب یہ ہوا بازی کے پیشے میں بھی اپنی جڑیں مضبوط کر چکا ہے۔ اداروں میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ لائسنس کے حصول کے خواہشمند افراد ہوا بازی یا ڈرائیونگ کی اہلیت رکھتے بھی ہیں یانہیں۔ انکی نااہلی کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستان کا نہ صرف تاثر خراب ہو رہا ہے بلکہ معصوم جانوں کا ضیاع بھی ہو رہا ہے۔پاکستان میں ٹریفک اور ہوائی حادثات میں جاں بحق ہونے والے اکثر ایسے افراد ہوتے ہیں جو اپنے گھر کی کفالت کر رہے ہوتے ہیں، ان کی اچانک موت سے خاندان کا ہر فرد متاثر ہو کر رہ جاتا ہے۔ پاکستان کے خاندانی نظام میں انحصار کرنے والوں کی شرح 80 فیصد ہے، اسکا مطلب ہے کہ بیس لوگ اسّی افراد کے لیے کماتے ہیں۔ یوں خاندان میں ایک فرد کی موت باقی افراد کو سماجی و مالی طور پر کمزور کر دیتی ہے۔ان خطرناک معاملات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو سمارٹ لائسنس کا نظام متعارف کرانا ہوگا۔ ڈرائیورز اور پائلٹس کے رویوں کو درست سمت میں لانے کے لیے زیادہ سے زیادہ سیمینارز اور ٹریننگ کا انعقاد کرنا ہو گا ان سیمینارز اور ٹریننگ کے لیے بنائے جانے والے تربیتی سینٹر سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ مزید برآں تربیتی اسکول جو لائسنس جاری کرتے ہیں یا دیتے ہیں اسکو مرکزی لائسنس کے نظام کے ذریعہ الحاق کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح جو تربیتی ادارے ڈرائیورا ور ہوا بازوں کو لائسنس جاری کرتے ہیں ان پر بھی جرمانے کا کچھ حصہ مقرر ہونا چاہیے جس سے احساس ذمہ داری کو فروغ ملے گا۔ پاکستان میں یہ اقدامات کسی بھی قانون سازی کے بغیر ناممکن ہیں۔ پاکستان میں مرکزی لائسنس کا نظام اور قانون سازی کے تحت قیمتی جانوں اور اس حادثات سے ضائع ہونے والے وسائل کو بچایا جا سکتا ہے۔ یہ عمل اداروں اور حکومت کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ پاکستان میں جدید لائسنس کے نظام کے متعارف ہونے سے بہت سی قیمتی جانوں سمیت وسائل کو بھی بچایا جا سکے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی ادارے بغیر کسی تاخیر کے اس نظام کے بارے میں سنجیدگی اختیار کریں تاکہ آنے والی نسلوں کو ایسے حادثات سے محفوظ رکھا جا سکے۔ اگر وفاقی حکومت ایسا فیصلہ کرے گی تو صوبائی حکومتیں بھی ایسے فیصلوں پر عمل درآمد کرنے پر مجبور ہوں گی۔