کار ڈرائیو کرتے اور بانو کے گھر کی طرف جاتے ہوئے میرے دماغ سے ’’کیا ہوگا؟‘‘ کا دبائو تو ظاہر ہے کہ ختم ہوچکا تھا لیکن ایک سوال میرے ذہن میں اب بھی چکرا رہا تھا ‘ لیکن اس سے پہلے کہ وہ سوال میری زبان پر آتا ‘ بانو نے اپنے موبائل پر کسی سے رابطہ کیا اور اسے ہدایت کی کہ وہ کار لے کر مسٹر داراب کے گھر پہنچے جہاں اس کے دو ساتھی موجود ہوں گے جن کو طبی امداد کی ضرورت ہے لہٰذا وہ ان دونوں کو مسٹر داراب کے گھر سے لے جائے ۔ پھر رابطہ منقطع کرکے مجھ سے بولیں ۔ ’’ مسٹر داراب کو فون کردو ۔ ان سے کہو کہ ہیلی کوپٹر جب ان کی چھت پر اترے گا تو اس میں میرے جو دو آدمی ہیں ، انھیں لینے کے لیے ایک کار وہاں پہنچے گی ۔‘‘ بانو نے مجھے کار نمبر اور ’’ میک ‘‘ بھی بتایا ۔ میں نے مسٹر داراب کو فون کرکے ان سے وہ سب کچھ کہہ دیا کہ جو بانو چاہتی تھیں ۔ بانو بولیں ۔ ’’ اب یہ تمھارے محکمے کا کام ہے کہ وہ ان طالبان سے کسی قسم کی معلومات حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں یا نہیں !‘‘ ’’ وہ تو معلوم ہو ہی جائے گا ، ابھی میری ایک الجھن دور کریں ۔‘‘ میری اس بات پر بانو نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا ۔ میں بولی ۔ ’’ کیونکہ یہ چیلنج کی بات تھی اس لیے دشمن نے سمجھ لیا ہوگا کہ پگارا صاحب کے گھر تک کے تمام راستوں پر ایسے انتظامات کئے جائیں گے کہ ان کے گھر تک کیا ، اس علاقے میں بھی کوئی خودکش حملہ آور داخل نہیں ہوسکے گا ۔ اسی لیے میں نے اندازہ لگالیا تھا کہ اس کام کے لیے وہ لوگ ہیلی کوپٹر کا استعمال کرسکتے ہیں لیکن جب میں نے دیکھا کہ آپ سارا زور راستے بلاک کرنے پر لگارہی ہیں تو میں نے سوچا کہ آپ کو غالباً کسی طرح معلوم ہوگیا ہے کہ دشمن زمینی راستہ ہی اختیار کرے گا ۔ اسی خیال کے باعث میں چپ رہی اور میں نے ہیلی کوپٹر کے امکان کا اظہار نہیں کیا ۔‘‘ ’’ کرنا چاہیے تھا تمھیں ۔‘‘ بانو نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا ۔ ’’ تبھی میں تم کوبتادیتی کہ زمینی راستے بلاک کروانے کا اہتمام میں نے اسی لیے کیا تھا کہ دشمن یہ سمجھتا رہے کہ ہمارا دھیان فضائی حملے کی طرف نہیں گیا ہے ۔ ہم کار میں بھی ان انتظامات کا جائزہ لیتے رہے تھے ۔ ہم پر نظر ضرور رکھی گئی ہوگی ۔ اس سے ان کا یقین پختہ ہوگیا کہ ہم نے فضائی حملے کی طرف قطعی توجہ نہیں دی لہٰذا اس نے اس سلسلے میں کوئی احتیاط ہی نہیں برتی تھی ۔ ‘‘ ’’ لیکن آپ کے لوگ اس ہیلی کوپٹر میں کیسے پہنچ گئے ؟‘‘ ’’ میں نے .....‘ ‘بانو کچھ کہتے کہتے رکیں ‘ پھر بولیں ۔ ’’ تمھیں یاد ہوگا ‘ میں نے ایک بار کسی سے ایسی زبان میں بات کی تھی جو تم نہیں جانتی ہوگی ۔ ‘‘ ’’ مجھے یاد ہے ۔‘‘ ’’ میں نے جس کو ہدایات دی تھیں ‘ اسے وہی زبان آتی ہے ۔ میں نے .....‘‘ بانو کی بات مکمل ہونے سے پہلے میں بول پڑی ۔ ’’ آپ کے آدمیوں میں ایک غیر ملکی کو تو میں دیکھ چکی ہوں ۔ وہ آپ کا پائلٹ نکولس ! وہ اسپینش ہے۔ کیا اور ملکوں کے لوگ بھی ہیں آپ کے اس پر اسرار گروپ میں ؟‘‘ ’’ پر اسرار گروپ!‘‘ بانو مسکرائیں ۔ ’’ یہ اچھا کہا تم نے !‘‘ ’’ میرے لیے تو وہ پر اسرار ہی ہے ۔ ‘‘ ’’ ہاں صدف !‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ اس گروپ میں کئی غیر ملکی ہیں ۔ ہاں تو میں تمھیں یہ بتا رہی تھی کہ میں نے اپنے گروپ کے ایک غیر ملکی ہی کو ہدایات دی تھیں ۔ میں نے کراچی کے تمام فلیٹ کلبز پر بھی نظر رکھوائی تھی اور ان امیر آدمیوں پر بھی جن کے ذاتی ہیلی کوپٹر ہیں ۔ اس کے علاوہ حکومت کے ان وزرا پر بھی نظر رکھی گئی تھی جن کا تعلق دہشت گرد تنظیموں سے ہے ۔ ‘‘ ’’ جیسے رانا .....‘‘ ’’ پوری بات سن لو!‘‘ بانو نے میری بات کاٹی ۔ ’’ اسے شاید قدرت کی مدد کہا جاسکتا ہے کہ میرے کنٹرول روم نے ایک وزیر کی کال بھی ٹریس کرلی ۔ ‘‘ ’’ کوئی کنٹرول روم بھی ہے آپ کا ؟‘‘ میں بول پڑی ۔ بانو نے ایک طویل سانس لی ۔ ’’ پوری بات نہیں سنو گی ؟‘‘ ’’ اچھا کہیے!‘‘ میں فوراً بولی ۔ ’’ اب کوئی سوال نہیں کروں گی ۔‘‘ بانو چند لمحے کچھ سوچتی رہیں ، پھر انہوں نے کہا ۔ ’’ اس وزیر نے فون پر میاں ڈنشا سے رابطہ کیا تھا اور ان سے کہا تھا کہ رات کو تین آدمی آئیں گے جو اس کا ہیلی کوپٹر استعمال کریں گے ۔ یہ تو تم جانتی ہوگی کہ میاں ڈنشا اقتدار اعلیٰ کا نہایت قریبی دوست ہے ۔ نا ممکن تھا کہ وہ اس بات سے انکار کردیتا ۔ کہیں اور سے مجھے ایسی کوئی اطلاع نہیں ملی تھی ۔ بانو نے رک کر کچھ سوچا ‘ پھر کہا ۔ ’’یہاں میں تمھیں یہ بھی بتادوں کہ فری میسن لاج سے ہمارے ملک کے بھی کئی اہم لوگ وابستہ ہیں ۔ان میں سے بعض کو اس کا علم بھی نہیں ہوپاتا کہ فری میسن لاج نے اسے کس طرح استعمال کیا ہے ۔ بہت ممکن ہے کہ میاں ڈنشا کا تعلق بھی فری میسن لاج سے ہو ۔ خیریہ سب کچھ تو برسبیل تذکرہ آگیا میری زبان پر ! میں تمھیں یہ بتانے والی تھی کہ میاں ڈنشا کا ہیلی کوپٹر اس کی اقامت گاہ کے عقبی احاطے میں بنے ہوئے ہیلی پیڈ پر کھڑا کیا جاتا ہے ۔ وہاں اس کی حفاظت کا کوئی انتظام نہیں ہے کیونکہ وہ اس کے گھر کے احاطے میں ہے چنانچہ میرے دو آدمی بہ آسانی احاطے کی دیوار پھلانگ کر اس ہیلی کوپٹر میں پہنچ گئے ۔ ان کے ساتھ ایک کیمرا بھی تھا جو انھیں وہاں اس لیے لگانا تھا کہ میں وہاں کے حالات دیکھ سکوں ۔ جیمرز بھی انہوں نے لگائے تھے تاکہ خود کش بم بار کی جیکٹس ناکارہ ہوجائیں ۔ فری میسن والوں نے اس کام کے لیے تین طالبان سے کام لیا تھا جن میں سے ایک ہیلی کوپٹر بھی اڑا سکتا تھا ۔ وہ لوگ میرے ان دونوں آدمیوں کے بعد اس ہیلی کوپٹر میں پہنچے تھے ۔ میاں ڈنشا ہی کے دو ملازموں نے انھیں ہیلی کوپٹر تک پہنچایا تھا ۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا ، وہ تم دیکھ ہی چکی ہو۔ ‘‘ ’’ لیکن آپ کو یہ اطلاعات کب ملیں ؟.....میاں ڈنشا‘ کال ٹریس ہونا ‘ ہیلی کوپٹر وغیرہ!‘‘ ’’ میں تمھارے ساتھ ہی رہی ہوں۔‘‘ بانو مسکرائیں ۔ ’’ لیکن میرے سامنے ایسی کوئی کال نہیں آئی ۔‘‘ ’’ اس بارے میں تم کئی بار الجھن کا شکار رہ چکی ہو ۔ میرے لیے کام کرنے والی اس طاقت کو تم پراسرار کہہ سکتی ہو ۔ جن سے مجھے معلومات فراہم ہوتی ہیں یا جو میرے لیے کچھ اور کام بھی کرتی ہے ۔ میری ذات سے متعلق اتنے اسرار ہیں صدف کہ وہ سب کچھ تمھیں کہانیاں ہی معلوم ہوں گی ۔ ‘‘ ’’ خود آپ ہی میرے لیے اسرار بنتی ہی چلی جارہی ہیں ۔‘‘ بانو دھیرے سے ہنس دیں ۔ اس وقت کار ان کے گھر کے قریب پہنچ چکی تھی ۔ میرے موبائل کی گھنٹی بج اٹھی ۔ میں نے ایک ہاتھ سے اسٹیرنگ سنبھال کر موبائل کے اسکرین پر نظر ڈالی ۔ ’’ اجنبی نمبر ۔‘‘ میں نے لمبی سانس لی ۔ ’’ وہی ہوگا ۔ ‘‘ بانو نے میرے ہاتھ سے موبائل لے لیا ۔ کاف مین کی ڈائری دینے کا طریقہ کار؟ کل کے روزنامہ 92میں ملاحظہ فرمائیے!