مجھے یقین تھا کہ کال اُسی کی ہوگی ۔ ’’ ہلو!‘‘ بانو نے کال ریسیو کرتے ہوئے اسپیکر کھول دیا تاکہ دوسری طرف سے بولنے کی آواز میں بھی سن سکوں ۔‘‘ ’’ ڈائری ۔‘‘ دوسری طرف سے کہا گیا ۔ ’’ میں تم سے شکست کھا چکا ہوں ۔ تمھاری یہی شرط تھی ۔ ‘‘ ’’ بہت بے خبر ہو ۔ میں نے تم سے کہا تھا کہ ایک گھنٹے بعد فون کرنا اور ابھی آدھا گھنٹہ بھی نہیں گزرا ۔ ‘‘ ’’ میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے ۔ ‘‘ ’’ کہاں لو گے ڈائری ؟‘‘بانو نے پوچھا۔ ’’ اسلام آباد کلب کے سامنے آجائو۔ایک آدمی تمھارے قریب آئے گا ۔ آسمانی رنگ کے بُش کوٹ میں ہوگا ۔ وہ تم سے کہے گا کہ اسے این نے بھیجا ہے ۔ڈائری اسے دے دینا ۔ ‘‘ میں نے اس دوران میں کار پھاٹک سے گزار کر پورچ میں روک دی تھی ۔ انجن بھی بند کردیا ۔ بانو نے فون پر کہا ۔ ’’ اتنی بے وقوف تو نہیں ہوں کہ خود پہنچ جائوں ۔‘‘ اور ڈائری ملنے کے بعد تمھارا کوئی آدمی مجھے گولی کا نشانہ بنادے ۔‘‘ ’’ تو کسی اور کو بھیج دو ۔‘‘ سردلہجے میں کہا گیا ۔ ’’ لیکن اگر اس مرتبہ کوئی عیاری کی گئی اور ہمیں اصلی کی بہ جائے نقلی ڈائری ملی تو اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوگا ۔ ‘‘ ’’ اب بہت رات ہوچکی ہے ۔ صبح نو بجے کسی کے ہاتھ ڈائری بھجوادی جائے گی ۔ ‘‘ دوسری طرف سے بولنے والے نے کچھ سوچا ‘ پھر کہا ۔ ’’ ٹھیک ہے ۔ صبح تک انتظار کیا جاسکتا ہے ۔‘‘ بانو نے رابطہ منقطع کردیا ۔ یہ ساری باتیں کار میں بیٹھے بیٹھے ہوئی تھیں ۔ اس کے بعد میں اور بانو نے کار سے اتر کر برآمدے کا رخ کیا ۔ ’’ اس ڈائری کا ہاتھ سے نکل جانا بڑا نقصان ہے ۔ ‘‘ میں نے سنجیدگی اور تشویش سے کہا ۔ ’’ اور بہت بڑا فائدہ بھی !‘‘ ’’ کیسے؟‘‘ ’’ ڈائری میں نے تیار کرلی ہے ۔ مجھے اندازہ تھا کہ اس کی نوبت آسکتی ہے ۔ ‘‘ ’’ ڈائری تیار کرلی ہے ؟‘‘ میں نے الجھ کر کہا اور گھر میں قدم رکھا ۔ ’’ ہاں ۔‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ ڈائری کی جلد کے پیج میں ایک ’’چپ‘‘ لگا دی ہے جو ان لوگوں کی باتیں میرے پاس ریکارڈ ہوتی رہیں گی ۔‘‘ ’’ ویسی ہی چپ جیسے طالبان مرکز میں آپ نے اپنے گھوڑے کے جسم میں لگائی تھی ؟‘‘ ’’ ہاں ۔‘‘ بانو نے ٹھنڈی سانس لی ۔ ’’ مارا گیا بم باری میں !.....وہ میرے چند اچھے گھوڑوںمیں سے ایک تھا ۔ ‘‘ ’’ اور گھوڑے بھی ہیں آپ کے پاس؟‘‘ مجھے تعجب ہوا تھا ۔ ’’ یہ تم ڈرائنگ روم میں کیوں بیٹھنے لگیں ؟‘‘ میں چونکی ۔ ’’ بس بے خیالی میں بیٹھ گئی !‘‘ میں نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا اور اٹھ کر اندرونی دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے پھر گھوڑوں کے بارے میں سوال کیا ۔ بانو نے جواب دیا ۔ ’’ تمھیں کبھی اپنے فارم ہائوس لے چلوں گی..... دیکھنا!‘‘ ’’اکیس گھوڑے ہیں اب !..... اگر طالبان مرکز میں ایک مر نہ جاتا تو بائیس ہوتے ۔‘‘ ’’ فارم ہائوس؟‘‘ میرے منہ سے نکلا ۔’’ کبھی پہلے ذکر نہیں کیا آپ نے اپنے فارم ہائوس کا ۔‘‘ ’’ میں نے اپنے بارے میں بہت سی باتوں کا ذکر نہیں کیا ۔ ‘‘ بانو ہنس کر بولیں ۔ میں نے خواب گاہ میں پہنچ کر کہا ۔ ’’ پگارا صاحب زندگی بھر اس سے بے خبر رہیں گے کہ آج رات وہ کتنے بڑے خطرے سے بچے ہیں ۔‘‘ بانو کپڑے تبدیل کرتے ہوئی بولیں ۔’’ اب باقی رات یہیں گزارو! اپنے گھر والوں سے تم کہہ ہی چکی ہو کہ صبح تک بہت مصروف ہو۔‘‘ میں بانو کا مطلب سمجھ گئی ۔ عموماً یہی ہوتا تھا کہ جب میں ان کے گھر پر ان ک ساتھ ہوتی تھی تو خواب گاہ میں ہی ہوتی تھی! اور خاصا وقت محبت میں سر شاری کے ساتھ گزرتا تھا ۔ ’’ کاف مین کی ڈائری پڑھ لی ؟‘‘ بانو نے بستر پر لیٹتے ہوئے پوچھا ۔ میں نے کاف مین کی ڈائری جہاں تک پڑھی تھی ‘ وہ سب کچھ بانو کو بتادیا ۔ میرے خاموش ہونے پر بانو نے کہا ۔ ’’ آگے بس ایک خاص بات یہ ہے کہ ڈیوڈ ڈورون انتخابات کے دنوں میں ایک بہت ہول ناک صورت حال پیدا کرے گا جس کی تفصیل اس نے ابھی ظاہر نہیں کی اور کہا کہ حکومت اپنے منصوبوں پر زیادہ سے زیادہ خرچ دکھائے ۔ لفظ ’’ دکھانے‘‘ پر خاصا زور دیا گیا ہے ’’ کرنے‘‘ پر نہیں ‘ اور وہ ہورہا ہے ۔ انتخابات آنے تک خزانہ اتنا خالی ہوجائے گا کہ آئی ایم ایف کے آگے کشکول پھیلانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہے گا ۔ ‘‘ ’’ میں نے کہیں غلام اسحاق خاں کی یہ پیش گوئی پڑھی تھی کہ نواز شریف پاکستان کے وجود کے لیے حد درجہ خطرناک ثابت ہوگا ۔‘‘ ’’ اب چھوڑو یہ باتیں ! یہ ذکر تو ہوتا ہی رہتا ہے اور جب تک اس شخص سے جان نہیں چھوٹنی ‘ ہوتا ہی رہے گا ۔ اب تم فری میسن لاج کے بارے میں سوچو ۔ کل تمھیں اس مہم پر روانہ ہوجانا چاہیے ۔ ‘‘ ’’ یعنی چولستان کی طرف روانگی !‘‘ ’’ ہوں ۔ ‘‘ اور پھر بانو نے بات ’’ چولی‘‘ تک پہنچادی ۔ دوسری صبح ساڑھے آٹھ بجے ہم دونوں ناشتے کی میز پر تھے ۔ ’’ ڈائری .....!‘‘ میرے منہ سے اتنا ہی نکل سکا ۔ بانو نے میری بات کاٹ دی تھی ۔ ’’ ایک آدمی وہ لے کر روانہ ہوچکا ہے ۔ نو بجے ڈائری فری میسن والوں کو مل جائے گی ۔ ‘‘ پھر انہوں نے پوچھا ۔ ’’ تم چولستان کس وقت تک روانہ ہوگی ؟‘‘ ’’ یہاں سے گھر جائوں گی ۔ دو پہر تک ان لوگوں کے ساتھ وقت گزاروں گی ۔بس اس کے بعد روانہ ہوجائوں گی لیکن یہ بات ان لوگوں سے چھپی تو نہیں رہ سکے گی ۔ جانا تو مجھے اپنی الٹرا فائٹر ہی میں ہوگا ۔ وہ چوکنا ہوجائیں گے ۔‘‘ ’’ سوئپ ٹیل رولزرائس شہر میں اور لوگوں کے پاس بھی ہیں ۔ دوسرے شہروں سے بھی آسکتی ہیں۔ اس کی نمبر پلیٹ اور اس کا رنگ میں ابھی تبدیل کردیتی ہوں ۔‘‘ بانو کی اس بات نے مجھے حیران کردیا ۔ پھر اس وقت میری ذہنی حالت کیا ہوئی ہوگی جب ناشتے کے بعد بانو نے مجھے اپنی لیبارٹری میں لے گئیں اور کنٹرول بورڈ کے اسکرین پر میں نے اپنی کار کو حرکت میں آتے دیکھا ۔ وہ بانو کے گھر کے عقبی احاطے میں پہنچ کررکھی اور پھر میں نے اس کا رنگ ’’ ڈزالو‘‘ ہوتے ہوئے دیکھا ۔ ایک منٹ بھی نہیں گزرا تھا کہ میری کار آتشی گلابی رنگ میں تبدیل ہوچکی تھی ۔ بانو بولیں ۔’’ اسے عقبی احاطے میں اس لیے لانا پڑا کہ اس وقت دھوپ ادھر ہی ہے ۔ یہ عمل دھوپ کے بغیر نہیں کیا جاسکتا ۔ ‘‘ میں نے بے اختیار کہا ۔ ’’ آپ سائنٹسٹ نہیں ‘ جادو گر ہیں ۔‘‘ بانو دھیرے سے ہنس دیں ۔ صدف کی چولستان کی طرف روانگی ‘ نئے ہنگامے ! روزنامہ 92نیوزکی آئندہ اقساط میں پڑھیے!