ڈرائنگ روم میں پہنچ کر بانو نے گھڑی میں وقت دیکھا، پھر مجھ سے مخاطب ہوئیں۔ ’’فری میسن لاج کیونکہ اب موساد کا مرکز ہے اور موساد کے ایجنٹ طالبان سے زیادہ چوکنا رہتے ہیں۔ میں نے تمھاری کار کا رنگ اور نمبر پلیٹ تو بدل دی تھی لیکن مجھے اطمنیان نہیں ہوا تھا۔ شہر میں سوئپ ٹیل رولز رائس اور بھی ہیں۔ پھر یہ کہ دوسرے شہروں سے بھی لوگ اس کار میں راولپنڈی یا اسلام آباد آتے ہوں گے لیکن تم اپنا چہرہ چھپائے رکھنے کے لیے کار کے شیشے چڑھائے رکھتیں اس لیے موساد کے ایجنٹوں کی نظر میں تمھاری کار ان کی نظر میں اس لیے مشتبہ ہوجاتی کہ تم رحیم یار خان سے چولستان کا رخ کرتیں۔ اب میں نے ایسا بندوبست کردیا ہے کہ تم کار کے شیشے کھلے رکھ سکتی ہو۔ ان کے فرشتے بھی تمھیں نہیں پہچان سکتے۔ اس طرح وہ تمھاری طرف سے مطمئن ہوجائیں گے۔ دوسرے یہ کہ میرا ایک آدمی بھی تمھارے ساتھ جائے گا۔ رحیم یار خان تک تو تم دونوں فلائٹ سے ہی جائو گے لیکن وہاں سے جب کار میں چولستان کا رخ کروگی تو وہ آدمی تم سے اور تم اس سے ہنسی مذاق کرتی رہوگی۔ دیکھنے والے تمھیں شادی شدہ جوڑا سمجھیں گے۔ لوگ تفریحاً بھی چولستان جاتے رہتے ہیں۔ تمھارے اس ساتھی کا نام عدنان ہے۔ اس کے ہاتھ پر ایک عقاب بھی بیٹھا ہوگا جو نہایت تربیت یافتہ ہے۔ اس کی وجہ سے یہ بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ تم دونوں خاصے با رسوخ ہو اس لیے تلور کے شکار کی اجازت مل گئی ہے۔ اتنی وضاحت سے بتانے کے بعد جب بانو خاموش ہوئیں تو میں نے فوراً ’’کہا۔‘‘ عدنان مجھ سے سچ مچ تو بے تکلف نہیں ہوجائے گا؟‘‘ ’’نہیں۔‘‘ بانو نے جواب دیا۔ ’’تنہائی میں وہ تمھارے سامنے نہایت مودب رہے گا۔ یہ بھی تمھیں بتادوں کہ یہ پون گھنٹے کی فلائٹ ہے۔ شام ہورہی ہوگی اس لیے تم وہاں کسی ہوٹل میںر ات بسر کرلینا اور کل صبح چولستان کے لیے روانہ ہونا۔ ایک ہوٹل تو ایئرپورٹ کے بالکل قریب ہے لیکن وہاں کا کمرہ تمھیں پسند نہیں آئے گا۔ تم گلیکسی اسٹار ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ میں قیام کرنا جو ایئرپورٹ سے دس بارہ میل دور ہے۔ صبح ناشتے وغیرہ سے فارغ ہوکر چولستان روانہ ہونا۔ پیلس روڈ پر سفر کرکے تم صحرائے چولستان کے اس مقام پر پہنچوگی جہاں ایک محل ہے۔ مقامی لوگ اسے شاہی ڈیرہ کہتے ہیں کیونکہ وہاں عربی شہزادے وغیرہ قیام کرتے ہیں۔ تمھیں اس سے آگے نکلنا ہوگا۔ چند کلومیٹر کے بعد اللہ ڈینو کا ڈیرہ آجائے گا۔ تم دونوں وہیں رکنا۔ اللہ ڈینو پر تم مکمل اعتماد کرسکتی ہو۔ وہ پرو اسٹیبلشمنٹ ہے۔ میں اسے تم دونوں کے بارے میں اطلاع بھی دے چکی ہوں۔ کل وہ تمھارا منتظر ہوگا۔‘‘ ’’کیا اب مجھے روانہ ہوجانا چاہیے‘‘؟ میں نے پوچھا۔ ’’ابھی وقت ہے فلائٹ کی روانگی میں۔ دس منٹ میں عدنان یہاں آجائے گا۔ یہ تم دونوں کے ٹکٹ ہیں۔‘‘بانو نے دو ٹکٹ میری طرف بڑھائے۔ ’’مسٹر داراب مجھے میرا ٹکٹ تو بھیج چکے ہیں۔ ’’اس پر لعنت بھیجو۔ تم یہ ٹکٹ استعمال کروگی جو تمھارے فرضی نام سے بنوائے گئے ہیں۔‘‘ ’’فرضی نام کیا ہیں؟‘‘ میں نے فوراً پوچھا۔ ’’مسز خجستہ عدنان۔‘‘ بانو نے جواب دیا۔ ’’اور یہ اسی نام کا شناختی کارڈ ہے۔‘‘ انہوں نے ایک کارڈ بھی میری طرف بڑھادیا۔ ’’یہ تو جعلی ہوگا۔‘‘ میں نے کارڈ لیتے ہوئے کہا۔ ’’ظاہر ہے۔‘‘ بانو نے کہا۔ ’’لیکن اس کا جعلی ہونا تمھارے لیے کسی پریشانی کا سبب نہیں بنے گا۔‘‘ ’’مسٹر داراب نے کار تو میرے اصل نام سے بک کرائی ہوگی!‘‘ ’’نہیں۔‘‘ بانو نے کہا۔ ’’بگ پرسن نے انھیں بروقت ہدایت کردی تھی۔‘‘ ’’مسٹر داراب نے بتایا ہے آپ کو !‘‘ مجھے تعجب ہوا تھا۔ ’’ نہیں بگ پرسن نے بتایا تھا۔ ‘‘ ’’ آپ سے رابطے میں ہے بگ پرسن؟‘‘ ’’ اس مرتبہ کیا ہے اس نے مجھ سے براہ راست رابطہ اور میں نے یہ جو تمھاری وضع قطع بدلی ہے ، اس میں بگ پرسن کا مشورہ بھی شامل ہے ۔ اسے میرے بارے میں خاصی معلومات ہیں ۔ علم ہے اسے کہ میں اس طرح تمھاری وضع قطع بدل سکتی ہوں ۔‘‘ ’’ اس نے کیا ہے آپ سے رابطہ ؟‘‘ میں نے انھیں خاص نظروں سے دیکھا ۔ ’’ ہاں ۔ لو وہ عدنان آگیا ۔‘‘ بانو کے منہ سے نکلا ۔ باہر ایک کار کے رکنے کی آواز مجھے بھی سنائی دی تھی ۔ ’’ اب یہاں سے تو اسی کی کار میں روانہ ہوجائو۔‘‘ بانو کھڑی ہوتی ہوئی بولیں ۔ ’’ اس وضع قطع میں تمھارے لیے کوئی خطر ہ نہیں ہے لیکن تمھاری خفیہ سیکیورٹی کا بندوبست کردیا ہے ۔‘‘ ’’ نہ جانے کیا چیز ہیں آپ!‘‘ ’’ چیز ہوں میں ؟‘‘ بانو ہنسیں ۔ ’’ تو اور کیا!‘‘ بانو نے دروازے کی طرف قدم بڑھا دیے تھے اور میں بھی ان کے ساتھ چل رہی تھی ۔ برآمدے میں ایک جوان العمر شخص سے سامنا ہوا ۔ وہ عدنان تھا ۔ عمر تیس سال سے کچھ زیادہ ہوگی ۔ قبول صورت شخص تھا ۔ اس سے میرا تعارف بانو نے خجستہ کے نام سے کروایا ۔ ’’ آئیے !‘‘ عدنان نے سامنے کھڑی ہوئی کار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے کہا ۔ میں نے بانو کو خدا حافظ کہا اور عدنان کے ساتھ اس کی کار میں جابیٹھی ۔ میں نے دیکھا کہ کار کے عقبی حصے میں شیشے کے پاس ایک عقاب بیٹھا آنکھیں چمکا رہا تھا ۔ ایئرپورٹ پر جب ہم کار سے اترے تو میں نے کہا ’’ کار واپس کیسے جائے گی ؟‘‘ بانو نے کچھ بندوبست کیا ہوگا ۔ مختصر یہ کہ پون گھنٹے کی فلائٹ نے ہمیں رحیم یارخان پہنچا دیا ۔ وہاں بانو کی ہدایت کے مطابق گلیکسی اسٹار ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ میں ایک کمرا لے لیا گیا ۔ یہ میرے لیے بہت عجیب تھا کہ مجھے ایک اجنبی شخص کے ساتھ ایک کمرے میں رات گزارنی تھی ۔ میں نے غسل کر کے کپڑے تبدیل کیے ۔ اس وقت تک اندھیرا پھیل چکا تھا ۔ ’’ ریسٹورنٹ میں چلتے ہیں ۔‘‘میں نے عدنان سے کہا ۔ ’’ چلیے!‘‘ عدنان کا انداز اور لہجہ مودبانہ تھا ۔ ہم ریسٹورنٹ میں جا بیٹھے ۔ میں نے چاروں طرف نظر دوڑائی ۔دو عرب بھی ایک میز پر بیٹھے دکھائی دیے ۔ تین غیر ملکی بھی تھے جو میری دانست میں سیاح ہی ہوسکتے تھے ۔ کھانے کے دوران میں بھی میں نے ماحول پر نظر رکھی اور پھر مجھے شک ہوا کہ سوٹ بوٹ میں ملبوس دو مقامی آدمی ہماری میز کے قریب ہی بیٹھے تھے ۔ میں نے محسوس کیاکہ وہ ایک غیر ملکی کو کبھی کبھی چورنظروں سے دیکھتے تھے ۔ وہ غیر ملکی چمڑے کی جیکٹ پہنے ہوئے تھا ۔ میرے موبائل پر کال آئی جو بانو کی تھی ۔ انہوں نے کہا ۔ ’’ جیکٹ والے غیر ملکی پر ہماری ایک حساس ایجنسی سے تعلق رکھنے والے دو آدمی نظر رکھے ہوئے ہیں ۔ چیک کرنا کیا معاملہ ہے ‘ ‘۔ میں حیران رہ گئی ۔ بانو ہم سے بہت دور تھیں لیکن انہیں علم ہوچکا تھا کہ اس ریسٹورنٹ میں کون کون ہے اور کیا ہے ! حساس ایجنسی کے آدمی غیر ملکی پر کیوں نظر رکھے ہوئے تھے ؟ کل کے روزنامہ 92 نیوزمیں ملاحظہ فرمائیے !