میں نے موبائل پر اپنی حیرت کا اظہار کیا جس پر بانو نے کہا ۔ ’’ میں نے تمھیں بتایا تھا کہ میں نے تمہاری خفیہ سیکیورٹی کا بندوبست کیا ہے ۔ تمھارے لیے جس ہوٹل کا نام میں نے تجویز کیا تھا ، سیکیورٹی کے لوگ تم سے پہلے اس ہوٹل میں پہنچ گئے تھے ۔ وہ حساس ایجنسی کے ان دونوں آدمیوں کو پہچانتے تھے ۔ انھیں نے ان دونوں کو لارسن کی طرف متوجہ محسوس کیا تھا ۔ تم وہاں پہنچی بھی نہیں تھیں ، جب انہوں نے کسی طرح معلوم کرلیاتھا کہ لارسن اسی ہوٹل کی پہلی منزل پر آج دوپہر سے مقیم ہے ۔ اس نے صرف ایک دن کے لیے کمرا کرائے پر لیا ہے ۔‘‘ میں سمجھ گئی کہ لارسن اسی غیر ملکی کا نام ہوگا ۔ بانو کہتی رہیں ۔ ’’ ہوٹل کی انتظامیہ کے مطابق وہ کل ہوٹل سے چیک آئوٹ کر جائے گا ۔ تمہاری سیکیورٹی پر مامور آدمیوں ہی نے مجھے اس بارے میں اطلاع دی تھی اور ابھی یہ بھی بتایا تھا کہ تم اور عدنان ریسٹورنٹ میں آئے ہو۔‘‘ ’’ اس ایجنسی کے معاملات میں دخل دینے کی ہمیں کیا ضرورت ہے بانو ؟‘‘ ’’ اس لیے کہ لارسن اسلام آباد سے رحیم یار خان پہنچا ہے ۔ دوپہر سے اب تک کا وقت اس نے رحیم یارخان میں ہی گزارا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ رحیم یارخان کا شہر گھومنے وہاں نہیں گیا لہٰذا اس کا اگلا قدم چولستان کی طرف اٹھ سکتا ہے ۔ اسی باعث مجھے شبہ ہوا ہے کہ اس کا تعلق فری میسن سے ہوسکتا ہے اور اس کی منزل فری میسن لاج ہوسکتی ہے ۔‘‘ ’’ تو اس حساس ایجنسی کے لوگ اسی لیے لارنس کے پیچھے لگے ہیں ؟ ‘‘ ’’ یہ مجھے ابھی نہیں معلوم لیکن معلوم کرلوں گی ۔ ہوسکتاہے ، بگ پرسن کو معلوم ہوچکا ہو۔ اچھا بس! اب میں فون بند کر رہی ہوں ۔ تم ان لوگوں پر گہری نظررکھو۔‘‘ رابطہ منقطع ہوگیا ۔ عدنان نے مجھ سے اس کال کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا ۔ اسے اس بات کی اجازت نہیں ہوگی کہ وہ مجھ سے کسی قسم کا استفسار کرے ۔ اسے میں نے خود ہی بتایا کہ فون پر کیا بات ہوئی ہے ! اس وقت ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہوئے زیادہ تر لوگ کھانا کھا رہے تھے ۔ انھی میں لارسن بھی تھا ۔ حساس ادارے کے دونوں آدمیوں کی میز پر صرف چائے تھی ۔ ’’ ہوسکتا ہے ‘ کھا کر وہ فوراً اٹھے ۔‘‘ میں نے عدنان سے کہا ۔ ’’ اس لیے ہمیں بھی جلد کھانا کھا لینا چاہئے ۔‘‘ ’’ جی ۔‘‘ عدنان نے صرف اتنا ہی کہا ۔ پھر وہی ہوا جو خیال میرے دماغ میں آیا تھا ۔ کھانے کے بعد لارسن نے بل منگایا ، اس پر دستخط کیے اور کرسی سے اٹھ کر اس طرح بڑھا جہاں لفٹ اور زینے تھے ۔ میں نے دیکھا کہ حساس ادارے کے دونوں آدمی بھی اپنی کرسیوں سے اٹھ کر اسی طرف بڑھے تھے ۔ انہوں نے بل پہلی ہی ادا کردیا ہوگا ۔ وہ ہنس ہنس کر ایک دوسرے سے اس طرح باتیں کررہے تھے جیسے بے تکلف دوست ہوں ۔ کچھ توقف سے میں بھی عدنان کو اشارہ کرتی ہوئی اٹھی ۔ حساس ادارے کے دونوں ایجنٹ اسی لفٹ میں سوار ہو گئے جس میں لارسن نے قدم رکھا تھا ۔ میں نے کچھ تیزی سے قدم بڑھائے ۔ عدنان نے میری تقلید کی لیکن میری یہ خواہش پوری نہیں ہوسکی کہ میں اور عدنان بھی اسی لفٹ میں سوار ہوجاتے ۔ ہمارے قریب پہنچنے سے پہلے لفٹ روانہ ہوچکی تھی ۔ ’’ دوسری لفٹ میں چلو ۔‘‘ میں نے عدنان سے کہا ۔ اس وقت دوسری لفٹ اوپر سے آکر رکی تھی اور اس میں سے ایک ادھیڑ عمر جوڑا اترا تھا ۔ میں اور عدنان اسی لفٹ میں سوار ہوگئے ۔ میں نے پہلی منزل کا بٹن دبا دیا ۔ لفٹ اوپر جانے لگی ۔ کہیں لفٹ میں ہی کوئی کارروائی نہ ہوگئی ہو ، میرے دماغ میں خیال چکرایا ۔ لیکن ایسا نہیں ہوا تھا ۔ پہلی منزل پر لفٹ رکی میں اور عدنان باہر نکلے تو راہ داری میں لارسن ایک کمرے کے دروازے کا لاک کھول رہا تھا ۔ دونوں ایجنٹ اس کے خاصے قریب تھے ۔ جیسے ہی لارسن نے دروازہ کھولا ، دونوں ایجنٹ تیزی سے اس کے قریب گئے اور اسے کمرے میں دھکیلتے ہوئے خود بھی اندر داخل ہوگئے ۔ دروازہ بند بھی ہوگیا جو انھی دونوں میں سے کسی نے کیا ہوگا ۔ ’’ ایکشن ہوگیا۔‘‘ میں زیر لب کہتی ہوئی آہستگی سے اس کمرے کی طرف بڑھی ۔ چند کمروں کے بعد راہ داری دائیں بائیں مڑی تھی ۔ اس طرف سے تین غیر ملکی تیزی سے آتے دکھائی دیئے لیکن ہم دونوں کو دیکھتے ہی انہوں نے اپنی تیز رفتاری ختم کردی لیکن قدرے تیزی سے آگے آنے لگے ۔ عجلت میں کوئی بھی اتنا تیز چلنے لگتا ہے جو کوئی غیر معمولی بات نہیں لیکن ان تینوں نے ہمیں دیکھ کر جس طرح اپنا انداز بدلا تھا ، اس سے میرا ذہن کھٹک گیا ۔ ’’ یہ لارسن کو سیکیور کرنے والے تو نہیں ! ‘‘ میں بڑبڑائی ۔ عدنان نے اثبات میں سر ہلا کر مجھ سے اتفاق کیا ۔ میں نے اپنی رفتار اتنی رکھی کہ تینوں غیر ملکی اور ہم دونوں ساتھ ہی ساتھ لارسن کے کمرے کے دروازے پر پہنچے ۔ کمرے سے دھینگا مشتی کی آوازیں آنے لگی تھیں ۔ دونوں ایجنٹ لارسن کو اپنے قابو میں کرنے کی کوشش کررہے ہوں گے ۔ ’’ ہیلو جینٹل مین! ‘‘ میں تینوں غیر ملکیوں کو دیکھتے ہوئے مسکرائی ۔ ’’کیا تم لوگ بھی مسٹر لارسن سے ملنے آئے ہو ۔‘‘ ’’ ان دونوں کو بھی سنبھالنا پڑے گا ۔‘‘ ایک غیر ملکی نے اپنے ساتھی سے کہا ۔ وہ تینوں ہی ہمیں ان دونوں ایجنٹوں کا ساتھی سمجھے ہوں گے جبکہ ہم ان دونوں کے ساتھی نہیں ، تاہم ہماری ہم دردیاں اپنے ملک کی ایجنسی کے ایجنٹوں ہی کی ساتھ تھیں ۔ ان میں سے ایک نے بڑی تیزی سے ریوالور نکالا جس کا مجھے کیونکہ اندیشہ تھا اس لیے میں ریوالور گرادینا چاہتی تھی لیکن ایک سیکنڈ کا فرق پڑ گیا ۔ راہ داری میں ایک فائر کی آواز گونجی ۔ گولی غیر ملکی کے اس بازو پر لگی جس نے ریوالور نکالا تھا ۔ ریوالور اس کے ہاتھ سے گر گیا ۔ ’’ کیا ہورہا ہے یہاں ؟ ‘‘ کئی آوازیں گونجیں اور میں نے نے کئی افراد کو تیزی سے قریب آتے دیکھا ۔ ’’ خبردار! کوئی ہمارے قریب نہ آئے!‘‘ زخمی کے ایک ساتھی نے ریوالور نکالا ۔ اس مرتبہ میری ٹھوکر کام کرگئی ۔ ریوالور اس کے ہاتھ سے گر گیا ۔ اسے بڑی شدید چوٹ پہنچی ہوگی ۔ تیسرے غیر ملکی کے پاس شاید ریوالور نہیں تھا ، یا اسے ریوالور نکالنے کی مہلت نہیں ملی ہوگی کیونکہ آنے والے افراد ان غیر ملکیوں سے لپٹ پڑے تھے ۔ لارسن کے کمرے کا دروازہ کھلا اور دونوں ایجنٹ دکھائی دیے ۔ لارسن پر کیا بیتی تھی ؟ آئندہ کیا ہوا؟ کل کے روزنامہ 92 نیوزمیں ملاحظہ کیجیے !