بانو کے نا فہم فیصلے کے بعد میں نے بھرائی ہوئی سی آواز میں کہا ۔ ’’ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آپ یہ خطرہ کیوں مول لے رہی ہیں ؟‘‘ ’’ اس کا جواب دے دوں گی ‘ پہلے تم اپنے محکمے سے رابطہ کرو ۔ جلد از جلد پگارا صاحب کے گھر کے چاروں طرف تمھارے آدمیوں کی آہنی دیوار قائم ہوجانی چاہیے ۔ ‘‘ میں نے موبائل پر مسٹر داراب سے رابطہ کیا ۔ ‘‘ مسٹر داراب ! کل صبح تک کا وقت بہت اہم ہے ۔ پگارا صاحب کے لیے تھریٹ ہے ۔‘‘ ’’ کیا !‘‘ مسٹر داراب چونکے ۔‘‘ یہ کیسے ممکن ہے ؟ تم سے پہلے تو اس کا علم بگ پرسن کو ہوجانا چاہیے تھا ۔ انھوں نے مجھے فون نہیں کیا !‘‘ ’’ کیسے کرسکتی تھیں ۔‘‘ میں نے اپنے دل میں کہا ۔’’ وہ میرے ساتھ جو ہیں !‘‘ پھر کہا ۔ ’’ مسٹر داراب !.... اس بار انھوں نے آپ کی بہ جائے مجھے اطلاع دی ہے اور ہدایت کی ہے کہ اس سلسلے میں فوری اقدامات کرو ۔ ‘‘ ’’ کیا اقدامات کئے جائیں ؟‘‘ مسٹر داراب کی آواز کچھ مضمحل تھی ۔ غالباً وہ یہ بات اپنے دل پر لے گئے تھے کہ اب بگ پرسن کے لیے ان کی بہ جائے ‘ میں اہم ہوگئی تھی لیکن یہ حالات کا جبر تھا کہ مجھے ان سے جھوٹ بولنا پڑا تھا ۔ بانو نے پگارا صاحب کی حفاظت کے لیے جو فوری اقدام ضروری سمجھا تھا‘ وہ میں نے مسٹر داراب سے کہہ دیا ۔ پھر بولی ۔ ’’ ہمارے آدمیوں کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانا چاہیے ۔ امکان یہی ہے کہ ان پر خود کش حملہ کیا جائے گا ۔ اگر براہ راست نہیں تو ان کے گھر پر ۔ ‘‘ ’’ یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ آج ان کی مصروفیات کیا ہیں !‘‘ ’’ یہ معلوم کرنے کے بعد مجھے بھی اطلاع دیجئے گا ۔‘‘ ’’ ٹھیک ہے ۔ کوئی اور خاص بات؟‘‘ ’’ نہیں ۔‘‘ مسٹر داراب نے رابطہ منقطع کردیا ۔ میں نے بانو کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا ۔ ’’ مجھے مسٹر داراب سے مجبوراً کہنا پڑے پڑا کہ یہ اطلاع مجھے بگ پرسن سے ملی ہے ۔‘‘ ’’ ٹھیک ہے۔‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ ضروری نہیں کہ ہر بات کا علم سب سے پہلے بگ پرسن کو ہو ۔‘‘ میں ان کا منہ دیکھتی رہ گئی ۔ بار بار ان سے کہنا کہ وہی بگ پرسن ہیں ‘مناسب نہیں تھا ۔ بانو نے اپنے موبائل پر کسی سے رابطہ کیا اور نہ جانے کیا بات کرنے لگیں ۔ وہ میرے لیے ایک اجنبی زبان تھی ۔ یہ میں نہیں کہہ سکتی کہ وہ مجھ سے کچھ چھپانا چاہتی تھیں۔یا ان کا مخاطب اسی زبان میں بات کرسکتا تھا ۔ یہ دوسری بات قرین از قیاس تھی ۔ یہ سوچنا شاید میری حماقت ہوتی کہ بانو مجھ سے کچھ چھپاتیں ۔ ان کی باتوں کے دوران میں ‘ میں نے اپنے گھر یہ اطلاع دے دی کہ میں کل صبح تک بے حد مصروف ہوں اس لیے میرا انتظارنہ کیا جائے ، امکان یہی تھا کہ اب میں کل صبح تک بانو ہی کے ساتھ رہتی ۔ ایک گھنٹے بعد مسٹر داراب سے اطلاع ملی کہ ایس آئی ایس کے ایجنٹ پگارا صاحب کے گھر کو اپنے حصار میں لے چکے ہیں ۔ انھوں نے یہ بھی معلوم کرلیا تھا کہ آج باہر کہیں جانا پگارا صاحب کے پروگرام میں نہیں ہے البتہ ایک سیاسی جماعت کا پانچ رکنی وفد شام سات ساڑھے سات بجے ان سے ملنے کنگری ہائوس پہنچے گا ۔ مسٹر داراب نے سیاسی جماعت کا نام اور وفد میں شامل پانچ ارکان کے نام بھی بتائے ۔ میں نے ان سے بات کرتے وقت اسپیکر کھول دیا تھا اس لیے بانو نے بھی وہ سب باتیں سن لیں ۔ ’’ تیزی سے کام کیا ہے مسٹر داراب نے ۔ ‘‘ بانو نے تبصرہ کیا ‘پھر کھڑی ہوتی ہوئی بولیں ۔ ’’ چلو!‘‘ ’’ کہاں بانو!‘‘ میں نے کھڑے ہوتے ہوئے پوچھا ۔ ’’ پگارا صاحب کے گھر کے ارد گرد چکر لگا کر ردیکھا جائے کہ حصار کتنا مضبوط ہے ۔ تم اپنے محکمے کے سب ایجنٹوں کو پہچانتی تو ہوگی ۔ ‘‘ ’’ جی ہاں ۔ پہچانتی تو ہوں لیکن سب کے نام یاد نہیں ۔ ان سب کی تصاویر میرے موبائل میں موجود ہیں ۔ مسٹر داراب نے ہی بھیجی تھیں ۔ ‘‘ ’’پگارا صاحب سے ملنے والے جو پانچ ارکان ہیں، وہ سب تو جانے پہچانے لوگ ہیں جن کی طرف سے پگارا صاحب کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہوسکتا لیکن وفد پر نظر رکھنا اس لیے ضروری ہوگا کہ ان کے ساتھ دو چار افراد اور بھی ہوں گے جو اس ملاقات میں شامل نہیں ہوں گے۔ انھیں کسی دوسرے کمرے میں بٹھایا جائے گا۔‘‘ یہ باتیں کرتے ہوئے میں اور بانو کار کے قریب پہنچ گئے۔ خود بانو ہی کے قدم میری کار کی طرف بڑھے تھے جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ میری ہی کار میں چلنا چاہتی تھیں۔ ’’ڈرائیونگ تم ہی سنبھالو۔‘‘ بانو نے کہا۔ میں ڈرائیونگ سیٹ پر اور وہ میرے برابر میں بیٹھ گئیں۔ میں نے کار اسٹارٹ کرتے ہوئے کہا۔ ’’وہ لوگ اس کار کے قریب آنے سے تو ڈریں گے لیکن اس کی نگرانی ضرور کی جارہی ہوگی!۔‘‘ ’’یقینا۔‘‘ بانو نے کہا۔’’ اور میں چاہتی بھی یہی ہوں۔ وہ سمجھ لیں کہ پگارا صاحب کے گھر کے چاروں طرف جو بندوبست کیا گیا ہے، ہم اس کا معائنہ کررہے ہیں۔‘‘ میں اس دوران میں کاربانو کے گھر کے پھاٹک سے گزار کر سڑک پر لاچکی تھی اور رفتا میں اضافہ بھی کردیا تھا۔ ’’کار ساز روڈ کی طرف چلو۔ وہاں کا جائزہ لینے کے بعد خسرو روڈ کی طرف موڑ لینا۔ پھر واپس لوٹ کر پگارا صاحب کے گھر کے سامنے سے گزر کر بحریہ آڈیٹوریم کی طرف! پھر وہاں سے مڑکر …‘‘ ’’پلیز بانو!‘‘میں بول پڑی۔ ’’سارا روٹ آپ مجھے ابھی بتادیں گی تو وہ مجھے یاد بھی نہیں رہے گا۔‘‘ ’’اچھا چلتی رہو۔‘‘ بانو مسکرادیں۔ ان کے چہرے سے صاف ظاہرہورہا تھا کہ حالات کے باعث ان کے دماغ پر کوئی دبائو نہیں تھا۔ بانو کے بتائے ہوئے سارے علاقے کا چکر لگانے کے بعد میں نے بانو سے کہا۔ ’’بہت اطمینان بخش بندوبست کیا گیا ہے۔ کوئی خودکش بم بار پگارا صاحب کے گھر کی طرف نہیں جاسکتا۔‘‘ ’’تو بس!‘‘ بانو نے کہا۔ ’’واپس میرے گھر کی طرف چلو۔ شدت سے بھوک لگ رہی ہے لیکن کھانے کے بعد ہم پھر ان راستوں کا جائزہ لیں گے۔ نگرانی تو ہماری کی جارہی ہے۔ تعاقب کرنے والی کاریں بدلی بھی جارہی ہیں۔‘‘ ’’مجھے بھی اندازہ ہے۔‘‘ بانو کے گھر پہنچ کر ہم نے کھانا کھایا اور پھر ہماری کار رائونڈ پر نکل چلی۔ شام ہوچکی تھی جب ہم امیرخسرو روڈ پر تھے۔ بانو کے موبائل پر کال آئی۔ ’’ہاں! کیا رپورٹ ہے؟‘‘ بانو نے کال کرنے والے سے پوچھا، پھر کچھ توقف سے بولیں۔ ’’گڈ! میں نے یہی قیاس کیا تھا۔ میری ہدایت کے مطابق کام کیا جائے۔‘‘ پھر انھوں نے رابطہ ختم کرکے مجھ سے کہا۔ ’’گھر چلو‘‘ اب کھانا کھاکر پھر آئیں گے۔‘‘ انھوں نے مجھے یہ نہیں بتایا تھا کہ انھوں نے کیا قیاس کیا تھا۔ اس پر میں جھنجلا سی گئی۔ میں نے بھی ان سے کوئی سوال نہیں کیا۔ رات گیارہ بجے بھی ہم کارساز روڈ پر تھے۔ اس وقت پھر بانو کے لیے ایک کال آئی۔ مختصر بات کرکے بانو نے مجھ سے کہا۔ ’’پگارا صاحب کے گھر کی طرف چلو۔ وہاں کسی جگہ بھی کار روک دینا۔‘‘ میں نے خاموشی سے ان کی ہدایت پر عمل کیا۔ کار کھڑی کردی۔ بانو کے پاس دوربین تھی جس سے وہ ایک سمت کا جائزہ لے رہی تھیں۔ پھر میں نے ایک ہیلی کوپٹر کی آواز سنی اور بانو نے جیسے بے اختیار کہا۔ ’’آگئے!‘‘ ’’کون؟‘‘ میں بے اختیار پوچھ بیٹھی۔ ’’اس ہیلی کوپٹر سے بم بار پگارا صاحب کی چھت پر کودنا اور پھر خود کو ایکسپلوڈ کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ کیا دشمن کو اس اقدام سے روکا جاسکا؟ کل کے روزنامہ 92 میں ملاحظہ کیجئے!