میں اور عدنان اس مارپیٹ سے الگ کھڑے دیکھ رہے تھے کہ نووارد حملہ آور تینوں غیرملکیوں پر غالب آنے ہی والے تھے ۔ دروازہ کھلنے پر میں نے اور عدنان نے کمرے کے دروازے کی طرف دیکھا تھا۔ دونوں ایجنٹوں کے بال بکھرے ہوئے اور دونوں ہی کے سوٹ شکن آلود تھے جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ لارسن نے ڈٹ کر ان کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن آخر کار مغلوب ہوا تھا ۔ دونوں ایجنٹوں کے دروازے پر آنے سے یہی بات ظاہر ہوتی تھی ۔ لارسن کو ان دونوں نے بے ہوش کر دیا تھا یا باند ھ کر ڈال دیا تھا ۔ ان دونوں ایجنٹوں نے بھی ہماری طرف دیکھا تھا ۔ اس کے بعد لڑنے والوں کی طرف دیکھا ۔ ان کے چہروں سے الجھن اور سوچ بچار کا اظہار ہورہا تھا ۔ فائرکی آواز شاید سارے ہوٹل ہی میں سنی گئی ہوگی ۔ دو آدمی دوڑتے ہوئے وہاں آئے ۔ ان کے سینے پر لگے ہوئے بیجز سے ظاہر تھا کہ وہ ہوٹل کی انتظامیہ کے لوگ تھے ۔ ’’ کیا ہورہاہے یہاں ؟ ‘‘ ان میں سے ایک نے تیزی سے پوچھا ۔ ’’ فائر کس نے کیا تھا ؟ ‘‘ دوسرے نے سوال داغا ۔ اس نے غیر ملکی کا زخمی بازو اور فرش پر خون کے دھبے دیکھے تھے ۔ ’’ یہ تو ہمیں نہیں معلوم کہ گولی کس نے چلائی تھی ۔‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ ہم نے بس یہ دیکھا تھا کہ یہ تینوں غیر ملکی اس کمرے کے دروازے پر رکے تھے اور انہوں نے ایسی پوزیشن لی تھی جیسے بہ یک وقت اس کے دروازے سے ٹکرا کر اسے توڑ ڈالنا چاہتے ہوں ۔ ہمیں دیکھ کر وہ ٹھٹک گئے ۔ ان میں سے ایک نے ریوالور نکال کر ہمیں نشانہ بنانا چاہا یا شاید صرف دھمکاتے کہ ہم یہاں سے چلے جائیں ۔ اسی وقت نہ جانے کس طرف سے گولی چلائی گئی ۔ ریوالور والے کا بازو زخمی ہوگیا اور ریوالور اس کے ہاتھ سے گر گیا ۔ یہ چار افراد اس طرف آرہے تھے ۔ وہ ان غیر ملکیوں پر ٹوٹ پڑے ۔‘‘ میں بہت تیزی سے یہ سب کہتی چلی گئی تھی ۔ ’’ جی ہاں ۔‘‘ عدنان بھی بول پڑا ۔ ’’ ان چاروں شریف آدمیوں نے غالباً محسوس کرلیا تھا کہ یہ تینوں غیر ملکی ہم میاں بیوی کے خلاف جارحانہ عزائم رکھتے ہیں ، اسی لیے انہوں نے ہماری مدد کے لیے ان تینوں کو …‘‘ وہ جملہ ادھورا چھوڑ کر ان تینوں غیر ملکیوں کی طرف دیکھا جو بے سدھ ہو چکے تھے ۔ ان کی بہت بری طرح پٹائی ہوئی تھی ۔ ٹائیوں سے ان کے ہاتھ باندھے جارہے تھے ۔ ٹائیاں انھی تینوں کے گلوں سے کھینچ کر نکالی گئی تھیں ۔ چاروں نووارد بھی ہانپ رہے تھے ۔ ان میں سے ایک نے ہوٹل کی اکونتظامیہ کے لوگوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ ’’ پولیس فون کریں نا آپ لوگ ! ‘‘ ’’ ہم نے پولیس کو فون کردیا ہے ۔‘‘ دروازے میں کھڑے دونوں ایجنٹوں میں سے ایک بولا ۔ اب آس پاس کے کمروں میں قیام کرنے والے کچھ لوگ بھی باہر آگئے تھے اور جو کچھ وہاں ہوا تھا ، اسے دیکھ کر آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے تھے ۔ ’’ آپ لوگ کون ہیں ؟ ‘‘ انتظامیہ کے ایک آدمی نے دونوں ایجنٹوں کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ۔ ’’ یہ کمرا تو مسٹر لارسن کا ہے ۔ وہ کہاں ہیں ؟‘‘ ’’ انھیں گرفتار سمجھیے !‘‘ ایک ایجنٹ نے کہا اور جیب سے اپنا کارڈ نکال کر ان کے سامنے کردیا ۔ اس وقت ہوٹل کا منیجر بھی دو ایک آدمیوں کے ساتھ وہاں آگیا تھا۔ پہلے آنے والے انتظامیہ کے دونوں آدمیوں میں سے ایک ، منیجر کو ان دونوں ایجنٹوں کے بارے میں بتانے لگا ۔ اس نے اپنی آواز بہت دھیمی رکھی تھی ۔ دونوں ایجنٹ اب کمرے کے دروازے کے باہر آگئے تھے ۔ دروازہ بھی بند کردیا تھا ۔ غالباً دروازے کی چابی انہوں نے لارسن سے چھین لی تھی ۔ ایک ایجنٹ نے مجھے اور عدنان کو بھی اپنا کارڈ دکھایا ۔ ’’ خوب !‘‘ میں نے مسرت کا اظہار کیا ۔ ’’ تو ہم نے اس طرح قانون کی مدد کی ہے ! ‘‘ ’’ ہر اچھے شہری کا فرض ہوتا ہے کہ وہ قانون کی مدد کرے۔‘‘ ایجنٹ نے کہا ، پھر پوچھا ۔ ’’ آپ لوگ بھی کیا اسی فلور کے کسی کمرے میں قیام پذیر ہیں ؟ ‘‘ ’’ جی ہاں۔‘‘ عدنا ن نے جواب دیا اور کمرے کا نمبر بھی بتایا ۔ چاروں نووارد بھی ہمارے قریب آگئے تھے ۔ انہوں نے انتظامیہ کے آدمی کی وہ باتیں سن لی تھیں جو وہ منیجر بتا رہا تھا ۔ ان میں سے ایک نے ایجنٹوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ ’’ کیا ہم اس کے سزا وار ہوں گے کہ ہم نے ان تینوں کو بری طرح مارا ہے ؟ ‘‘ ’’ جی نہیں۔‘‘ ایجنٹ نے مسکراتے ہوئے کہا ۔ ’’ آپ لوگوں نے بھی قانون کی مدد کی ہے ۔ کیا آپ لوگ بھی اسی فلور پر مقیم ہیں ؟‘‘ ’’ جی نہیں ۔ یہ ہمارے دوست ہیں ۔‘‘ نووارد نے نئے آنے والے لوگوں میں سے ایک کی طرف اشارہ کیا ۔ ’’ یہ دوسری منزل پر ہیں ۔ ہم ان سے ملنے آئے تھے ۔ کوئی لفٹ اس وقت موجود نہیں تھی اس لیے ہم زینوں سے اوپر آئے تھے ۔ یہاں یہ سب کچھ دیکھا تو ہم نے ان دونوں کی مدد کرنا اپنا فرض سمجھا ۔‘‘ اس کا اشارہ میری اور عدنان کی طرف تھا ۔ ’’ آپ لوگوں کو ہمارے ساتھ چل کر اپنا ریکارڈ کرانا ہوگا ۔‘‘ ایجنٹ نے کہا ۔ ’’ اور آپ کو بھی !‘‘ اس نے ہماری طرف دیکھا ۔ ان چاروں نے اور میں نے آمادگی کا اظہار کیا ۔ اس وقت پولیس بھی وہاں پہنچ گئی ۔ ’’ آپ لوگ یہاں جمع نہ ہوں ۔ یہ قانون کا معاملہ ہے ۔‘‘ ایجنٹ نے ان لوگوں سے کہا جو آس پاس کے کمروں کے علاوہ دوسری منزلوں پر مقیم تھے اور وہاں جمع ہوگئے تھے ۔ وہ لوگ آہستہ آہستہ کھسکنے لگے ۔ پولیس کے علاوہ کچھ سادہ لباس والے بھی آگئے تھے جنہوں نے ایجنٹوں کو سلیوٹ کیا تھا ۔ ایک ایجنٹ نے ان سے کہا ۔ ’’ کمرے میں ایک شخص بندھا پڑا ہے ، اسے ہتھکڑیاں لگایے ، اور ان تینوں کے بھی ۔‘‘ اس کا اشارہ تینوں غیر ملکیوں کی طرف تھا جن کو اس بری طرح مارا گیا تھا کہ وہ اب بھی فرش پر بالکل نڈھال پڑے تھے ۔ ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے ۔ ’’ آپ اپنی کارروائی کریں ۔‘‘ ایجنٹ نے پولیس آفیسر سے کہا اور چابی سے کمرے کا دروازہ کھولنے لگا ۔ ’’ آپ کچھ دیر اپنے کمرے میں آرام کریں ۔‘‘ دوسرے ایجنٹ نے مجھ سے کہا ۔ ’’ جب کارروائی کے بعد ہم ان قیدیوں کو لے کر یہاں سے روانہ ہوں گے تو آپ ہمارے پیچھے آئیے گا ۔ گاڑی تو ہوگی آپ کے پاس ؟‘‘ ’’ جی ہاں ۔‘‘ عدنان نے جواب دیا ، پھر مجھ سے بولا ۔ ’’ آئو خجستہ !‘‘ ہم دونوں اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے ۔ اس ہنگامے کا پس منظر کیا تھا ؟ کل کے روزنامہ 92 نیوزمیں پڑھیے !