مکرمی! ایک تازہ ترین تحقیقاتی رپورٹ میں یہ انتہائی تشویشناک بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں یومیہ تقریباً اڑھائی کروڑ افراد سگریٹ نوشی میں مبتلااور ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ نسوار استعمال کرتے ہیں۔گویا کل آبادی کا چھٹا حصہ خود کو گلے،پھیپھڑوں اور گردے کے امراض میں جھونک رہا ہے جو ماہرین صحت کے مطابق آگے چل کر انہی اعضا کے سرطان کا موجب بن سکتے ہیں جبکہ مجموعی طور پر ملک میں ہر سال تین لاکھ کے قریب افراد براہ راست یا بالواسطہ طور پر تمباکو نوشی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔نوجوانوں کا تناسب زیادہ ہونے سے آبادی کا یہ طبقہ اسی قدر سگریٹ نوشی اور منشیات کی طرف تیزی سے راغب ہوا ہے اور تعلیمی اداروں سمیت تمام عوامی مقامات جہاں سگریٹ نوشی قانوناً ممنوع ہے ، قانون نافذ کرنے والے متعلقہ اداروں کی وہاں عملداری کا فقدان دیکھنے میں آتا ہے جبکہ قانون یہ بھی کہتا ہے کہ تعلیمی اداروں کے اندر یا 50میٹر کی حدود تک سگریٹ نہیں بیچی جاسکتی۔ سخت گیرحکومتی پالیسیوں کی بدولت گو کہ مقامی سطح پر سگریٹ سازی میں کمی واقع ہوئی ہیلیکن موقع پرستوں نے درآمدی سگریٹ مارکیٹ میں لاکر ساری کوششوں پر پانی پھیر دیا ہے جو ہر جگہ کھلے عام یا چھپ چھپاکر فروخت ہورہے ہیں۔اقتصادی ماہرین اس غیرقانونی اور متوازی معیشت کا سالانہ حجم تین سو ارب روپے بتاتے ہیں۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے سخت نگرانی میں تمباکو نوشی اور دیگر منشیات کی روک تھام کیلئے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی چاہئے اور قوانین کو موثر اور قابل عمل بنانے میں کسی قسم کی تاخیر سے اجتناب کرنا چاہئے جس کے واضح اور حوصلہ افزانتائج سامنے آ سکیں۔ ضرورت اس امر کی ہے حکومت سیگریٹوں کے کاروبار سے محض ٹیکسوں کے حصول کا ذریعہ نہ بنائے بلکہ اس امر پر بھی توجہ دے نوجوں سیگریٹ نوشی کا شکار ہو کر نہ صرف اپنی صحت کو تباہ کر رہے ہیں بلکہ زندگی میں آگے بڑھنے کے امکانات بھی کم کر رہے ہیں ۔نوجوان نسل کو اس روگ سے بنا جہاں حکومت کی ذمہ داری ہے وہاں والدین کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سیگریٹ نوشی سے بچائیں اور اس کے مضر اثرات سے انہیں آگاہ کریں۔ ( منورصدیقی، لاہور)