سوڈان کے دوردراز اور انتہائی پسماندہ قصبے ’ ابیے ‘ میں ہمارا چند ماہ قیام رہا۔ ہمارا کیمپ ( یونائیٹڈ نیشنز امن مشن کیمپ ) قصبے سے دو کلومیٹر دور واقع تھا۔ یہ سوڈان کا انتہائی بد حال اور بے حد پسماندگی زدہ علاقہ تھا جو کئی دہائیوں سے سخت خانہ جنگی کا شکار چلا آ رہا تھا۔ سوڈان کے اس قدیم علاقے کے باشندوں کی غربت اور بد حالی پہلے ہی ’مثالی ‘ تھی اس پر برس ہا برس کی خانہ جنگی مستزاد ۔ جس نے اسے مذید ’چار چاند ‘لگا دئیے تھے۔ ہمیں یہاں اقوام ِ متحدہ کی جانب سے قیامِ امن کی کوششوں کے لئے بھیجا گیا تھا۔ ہم لوگ یو ۔این کیمپ کے اندر رہائش پذیر تھے ۔اس کیمپ میں قریب آٹھ سو باشند ے آباد تھے جو دنیا کے پچاس کے قریب مختلف ممالک سے یہاں آئے تھے۔ دنیا کے تقریباً ہر برآعظم اور ہر خطّے کی یہاں نمائندگی تھی۔ہمارے لیے اس کیمپ میں رہنا زندگی کے انوکھے تجربوں میں سے تھا۔اس وقت ابیے سوڈان کا سب سے زیادہ متنازع علاقہ تھا۔ یہ شمالی اور جنوبی سوڈان کے بارڈر پر واقع ہے۔ابیے تیل کی دولت سے مالا مال ہے۔ پورے سوڈان کا ایک چوتھائی تیل صرف ’ ابیے ‘ سے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہاں پر دو قدیم افریقی قبیلے ،’’ مسیریا‘‘ اور ڈِ نکا ‘‘ آباد ہیں۔ مسیریا ایک افریقی عرب مسلم قبیلہ ہے اور یہ زیادہ گلہ بانی سے روزی کماتے ہیں۔ جنوبی سوڈان میں اس قبیلے کے لوگ موسمی لحاظ سے سفر کرتے رہتے ہیں اور جہاں ان کے مویشیوں کے چارے کا مناسب انتظام ہو وہاں کچھ عرصہ قیام کرتے ہیں۔ ۔ دوسری طرف ’’ ڈنکا‘‘ ایک افریقی عیسائی قبیلہ ہے۔اس قبیلے کے لوگ دراز قامت ہوتے ہیں اور ان کی جلد کا رنگ بے حد کالا ہوتا ہے۔ان کی بے حد سیاہ رنگت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان لوگوں کو افریقی بھی ’’ کالا ‘‘ کہتے ہیں۔ان کی دوسری واضح علامت ان کی سُرخ آنکھیں ہیں۔اُن دنوں ہمہ وقت ان قبائل میں لڑائی کے خطرات منڈلاتے رہتے تھے۔یو۔این کیمپ میں ہمیں اکثر اوقات ایسی کسی متوقع جنگ کے متعلق سیکیورٹی بریفنگ دی جاتی تھی اور ہمارے کان گولہ بارود اور فائرنگ کی آواز سننے پر لگے رہتے تھے۔یہاں ہم نے چند ماہ گزارے اور پھر ہمیں سوڈان کے دارالحکومت خرطوم بھیج دیا گیا۔ خرطوم سوڈان کا سب سے پُر رونق اور آباد شہر ہے۔اُس وقت سوڈان کی تقریباً چار کروڑ کُل آبادی میں سے قریب سات ملین لوگ اسی شہر میں آباد تھے۔ 2005؁ ء میں جب سوڈان میں اقوامِ متحدہ کا امن مشن شروع ہوا تو اس مشن کا مین ہیڈ کوارٹر خرطوم میں بنا لیا گیا۔ میری پوسٹنگ یہاں ہوئی تو میں نے دیکھا کہ دنیا بھر سے ہزاروں کی تعداد میں سول ، فوجی اہلکار اور پولیس افسران یہاں موجود تھے اور سوڈان میں قیامِ امن کی کوششوں میں اپنا حصہ ڈال رہے تھے۔امن مشن کے سلسلے میں اگلے کئی مہینے میرا قیام خرطوم میں رہا اور اس دوران مجھے سوڈان اور اس کے باشندوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔سوڈانیوں کے طرز ِ زندگی کے مشاہدے کے دوران مجھے کئی چیزوں نے بے حد متاثر کیا۔مثلاً ایک چیز جس نے مجھے کافی حیران کیا وہ یہ تھی کہ سوڈان ، اور خصوصاً خرطوم میں ، جرائم کی شرع نہ ہونے کے برابر تھی۔ قتل ،ڈکیتی ، راہ زنی وغیرہ تو یہاں نام کو بھی نہیں تھی ۔یہ بات اس لیے بھی حیران کُن تھی کہ سوڈان میں لوگ پرلے درجے کی غربت، افلاس اور بھوک کا شکار تھے۔لوگ بھوک اور افلاس کے ہاتھوں اگر مر نہیں رہے تھے تو زندہ بھی نہیں تھے۔ہم نے دیکھا کہ یہاں جنگ سے متاثرہ لوگ غربت کی لکیر سے اتنا ہی نیچے ہیں جتنا کے ۔ ٹو سے سطح سمندر۔دوپہر اور شام کو ہم دیکھتے کہ لوگ اور خصوصاً چھوٹے بچے ، کوڑا دانوں اور غلاظت کے ڈھیروں سے اپنا رزق تلاش کر رہے ہیں اور انہوں نے کپڑوں کی بجائے چیتھڑے پہنے ہوئے ہیں۔ ایسے حالات کے باوجود جرم کی طرف رغبت نہ ہونا سوڈانی قوم کا کمال ہے ۔ سوڈانی کافی خوش اخلاق اور محبتی لوگ ہیں۔پاکستانیوں سے ان کی اُنسیت اور اپنائیت اور بھی زیادہ ہے۔ اکثر لوگ قوی الجثہ اور دراز قد ہیں۔ دوسروں سے ملنے کا انداز قدرے نرالا ہے۔ملاقات پر ایک دوسرے کے دائیں کندھے پر زور کا ہاتھ ماریں گے ، یہ ایک طرح سے ان کے مصافحے یا معانقے کا انداز ہے۔ اگلا بندہ اگر کمزور اور نحیف ا لجسم ہو تو بعض اوقات ان کا یہ ’’ محبت بھرا ‘‘ جوشیلا انداز اسے کافی بھاری پڑتا ہے۔ سوڈانیوں کا طرز ِ زندگی کافی سادہ اور تصنع سے پاک ہے۔سوڈان میں نوّے فی صد سے زیادہ لوگ مسلمان ہیں ۔ ملک کی زبان عربی ہے جو ہر جگہ بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔ ان کی عربی زبان کا لہجہ مصری لہجے سے مماثل ہے۔خرطوم میں کافی تعداد میں عربی النسل لوگ آباد ہیں۔یہاں کے لوگ نمازی ہیں اور نماز ، ترجیحاً ، مساجد میں باجماعت ادا کی جاتی ہے۔ اوقاتِ نماز میں لوگ دکانیں ، بازار اور دیگر کاروبارِ زندگی چھوڑ کرمساجد کا رُخ کرتے ہیں۔ اکثر سوڈانی خوش الحان ہیں اور قرات بہت خو بصورت آواز میں کرتے ہیں ۔سوڈانی لوگ قدیم اور روایات سے جُڑے ہوئے ہیں۔ان کے لباس، طرزِ زندگی اور بودوباش سے اپنی روایات سے تعلق صاف جھلکتا ہے۔اگرچہ آخری چند سالوں میں غیر ملکیوں کی یہاں آمد سے ان کے کلچر میں واضح تبدیلی بھی نظر آئی ہے۔لیکن ابھی بھی یہ لوگ اپنی روایات سے بھر پور تعلق نبھا رہے ہیں ۔ شہر خرطوم کا تذکرہ دریائے نیل کے ذکر کے بغیر اُدھورا رہے گا۔دنیا کا یہ طویل ترین اور تاریخی دریا خرطوم کے بیچوں بیچ بہتا ہے۔دریائے نیل کی سیر خرطوم کی ’’ سوغاتوں ‘‘ میں سے ہے۔ اس کا نیلگوں پانی اور سر سبز کنارہ کیا بھلا منظر پیش کرتا ہے۔سر شام یہاں غیر ملکیوں اور مقامی لوگوں کا ایک جمّ ِ غفیر اُمڈ آتا ہے ۔اگرچہ دریا کے ارد گرد علاقے کو سیاحوں کے لیے کوئی بہت زیادہ Develop نہیں کیا گیا ۔جیسے کہ ہمیں قاہرہ ( مصر ) میں نظر آتا ہے جہاں سیاحتی اعتبار سے دریائے نیل کو بہت زیادہ سجایا بنایا گیا ہے اور اس سے وہ لوگ بھر پور معاشی فائدہ بھی اُٹھا رہے ہیں لیکن پھر بھی دریا کا قدرتی نظارہ ہی بے پناہ کشش کا حامل ہے۔مقامی انتظامیہ نے یہاں دریا کی سیر کے لیے Nile Cruise کا بھی انتظام کر رکھا ہے۔ہزاروں سالوں سے بہنے والے اس خاموش دریا کی سیر آپ کے تخیل کو عجیب انداز سے جِلا بخشتی ہے۔میں جب بھی وہاں جاتا تو اس کے کنارے مبہوت کھڑا دیر تک سوچوں میں گُم رہتا۔مجھے لگتا کہ انسانی تاریخ کا یہ قدیم ترین گواہ اپنے کنارے بیٹھے باتیں کرتے اور قہقہے لگاتے لوگوں پر ہنس رہا ہے اور کہہ رہا ہے : ’’یہاں بڑے بڑے ہو گزرے میاں ! تم کس باغ کی مولی ہو۔۔ بس ! ! رہے رب کا نام !! ‘‘