سوشل میڈیا جہاں بہت موثر ثابت ہورہا ہے وہاں اس کا غلط استعمال اسے نقصان بھی پہنچارہا ہے۔ سوشل میڈیا پرجعلی اکائونٹس کی بھرمار ہے۔ ماں باپ بیٹے کی پیدائش کیلئے اللہ تعالیٰ سے رو رو کر دعائیں مانگتے نہیں تھکتے اور وہ فیس بک پر ’’پرنسز ‘‘ اور’’باربی ڈول‘‘بنا ہوتا ہے۔ منفی سوچ اور پروپیگنڈا سوشل میڈیاکاباقاعدہ حصہ بن رہے ہیں ، ایسی صورت حال میں عام آدمی بھی اس مہم کا حصہ بن جاتا ہے اور بغیر تصدیق کئے پوسٹ کوشیئرکرلیتاہے۔سوشل میڈیا پر موجود شرپسنداور تخریبی سوچ کے حامل عناصر نے اسے لوگوں کو ذلیل کرنے اور شرفاء کی پگڑیاں اچھالنے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔سیاست ،معاشرت اور دین میں سے کسی کو نہیں بخشا،اپنی انتہا پسندانہ سوچ کی بدولت سب کو خوب لتاڑا۔گھٹیا الزامات اور بہتان بازی میں شرم و حیا کی تمام حدود پار کر دیں۔سوشل میڈیاپر ایسی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں جو معاشرے کے مختلف طبقات اور مکاتب فکر میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کو پروان چڑھانے اور باہمی انتشار اور خلفشار کا سبب بنتی ہیں۔مختلف جماعتوں، فرقوں، گروہوں نے سوشل میڈیا پر اپنی اپنی لابیاں بنائی ہوئی ہیں، جو اپنے حلقے کی ہرصحیح و غلط بات میں تائید کرتے ہیں، جبکہ مخالف حلقے کے ہراچھے برے کام میںکیڑے نکالنافرض سمجھتے ہیں۔ مخالفین کے نظریے، مذہب، رہنمائوں اور محترم شخصیات کی توہین سے باز نہیں آتے، جس سے مسلکی اور سیاسی تعصب میں اضافہ ہورہا ہے۔ باقی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی سوشل میڈیا کے ان دہشت گردوں کو لگام دینے کیلئے قانون سازی کو آگے بڑھایا گیا ہے، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کمیونی کیشن کے سوشل میڈیا رولز 2021 ترمیمی نوٹیفکیشن کے تحت 5 لاکھ سے زائد صارفین والی سوشل میڈیا کمپنیاں / پلیٹ فارمز پی ٹی اے میں رجسٹریشن کے پابند ہوں گے۔کسی بھی شخص سے متعلق منفی پروپیگنڈا،دوسروں کی نجی زندگی سے متعلق ،پاکستان کے ثقافتی اور اخلاقی رجحانات کے مخالف،بچوں کی ذہنی و جسمانی نشونما اور اخلاقیات تباہ کرنے سے متعلق مواد پر پابندی ہوگی۔سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو قابل اعتراض مواد ہٹانے کیلئے 48 گھنٹے دیئے جائیں گے۔دیے گئے وقت میں قابل اعتراض مواد نہ ہٹانے یا ٹھوس جواب نہ دینے کی صورت میں مجاز اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی عارضی/ مستقل بندش یا 50 کروڑ روپے تک جرمانہ عائد کرسکتی ہے۔ ملکی سلامتی کے اداروں کے خلاف مواد پوسٹ ہونے پر قابل اعتراض مواد 48 کے بجائے 12 گھنٹوں میں ہٹانے کے پابند جبکہ انتہا پسندی، دہشت گردی، نفرت انگیز، فحش اور پرتشدد مواد کی لائیو اسٹریمنگ پر پابندی ہو گی۔اسلام، دفاع پاکستان اور پبلک آرڈر سے متعلق غلط معلومات قابل سزا جرم ہوگا۔یو ٹیوب، فیس بک، ٹک ٹاک، ٹوئٹر، انسٹا گرام، گوگل پلس سمیت تمام سوشل میڈیا ادارے رولز کے پابند ہوں گے۔ پہلی دفعہ سائبرکرائم کا نفاذ31 دسمبر 2007 کومشرف کے دور حکومت میںہوا جبکہ سابقہ حکومت نے2016میں ترمیمی بل ’’پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز آرڈیننس ‘‘ پاس کروایا ۔ جس میں تین ماہ سے 14سال قید اور پچاس ہزار سے لیکر پانچ کروڑ تک جرمانے کی سزا کا تعین کیا گیا۔ آرڈیننس میں مختلف جرائم کی نشاندہی کی گئی اور ان کے لیے سخت سزائیں تجویز کی گئیں۔ کسی فرد کے بارے میں غلط معلومات اور پروپیگنڈا کیلئے دس لاکھ جرمانہ اورتین سال قید کی سزا۔ سیکشن 21کے تحت کسی کی تصویر ،آڈیو یا ویڈیو متعلقہ شخص کی اجازت کے بغیر سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر شائع کرنے والے کو ایک سال تک قید اور دس لاکھ تک جرمانہ یا دونوں سزائیں بھی دی جاسکتی ہیں۔ سائبر کرائم ایکٹ کے سیکشن 17 اور 18کے مطابق سیاستدانوں کی کارٹون، بلاگ اور تجزیہ میں تضحیک کرنا بھی قابل گرفت جرم ہے۔اسی طرح مذہبی منافرت اورملکی مفاد کے خلاف کوئی مواد شائع کرنے اورخوف و ہراس پھیلانے والے کو پانچ کروڑتک جرمانہ اور 14سال کیلئے سلاخوں کے پیچھے بھیجا جا سکتا ہے۔ سیکشن 37میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ غیر اخلاقی اور قابل اعتراض مواد رکھنے والی کسی بھی ویب سائٹ یا اکائونٹ کو بلاک کر سکتا ہے۔ مذکورہ ترمیمی سوشل میڈیا رولز2021 پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز آرڈیننس کے سیکشن 37 کی شق 2کا حصہ ہے۔ سائبر کرائم ایکٹ کے تحت کسی بھی خلاف ورزی کے مرتکب شخص کو بغیر وارنٹ فوری گرفتار کیا جاسکتا ہے ۔قانون پر عملدرآمد کا اختیار ’’فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی‘‘(ایف آئی اے)کو دیا گیا ہے جو کسی بھی مشکوک شخص یا ادارے کا کمپیوٹر ،لیپ ٹاپ ،موبائل فون اور کیمرہ وغیرہ تحویل میں لیکر گرفتار کرسکتی ہے۔ ’’پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز آرڈیننس ‘‘ کے نفاذ سے اب تک ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے ہزاروں شرپسند عناصر کے خلاف کارروائی کی ہے جو کہ لائق تحسین اور مثبت پیش رفت ہے۔ان قوانین کے نفاذ اور ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی بروقت اور موثر کارروائیوں سے کافی بہتری آئی ہے ۔سوشل میڈیا رولزترمیمی نوٹیفیکیشن سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے غلط استعمال کو روکنے میں یقینی کامیابی ملے گی۔سوشل میڈیا نیوز چینلز کے نام پر جعل سازی عام ہے۔غیرقانونی پریس کارڈز اور ’’چینل لوگو‘‘ استعمال کرنے والوں کے خلاف کارروائی ناگزیر ہے ۔ایسے نام نہاد صحافی اور جعل ساز ’’فیک ٹی وی چینلز‘‘ کے سی ای او اور چیئرمین بنے ہوئے ہیں جن کو کوئی رجسٹرڈ اخبار یا ٹی وی چینل اپنارپورٹر بھی نہ بنائے۔ بحیثیت محب وطن شہری ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم منفی پروپیگنڈااور اشتعال انگیز مواد پھیلانے والے ایسے تمام شر پسندعناصر کی نشان دہی کریں۔نیشنل رسپانس سینٹر فار سائبر کرائم پر فوری شکایت درج کروائی جائے تا کہ سوشل میڈیا سے ان دہشت گردوں کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔ایسے تمام عناصر جو اپنی ذہنی غلاظت کے ہاتھوں مجبور ہوکر شرفاء کی پگڑیاں اچھال رہے ہیںاورمذہبی و مسلکی منافرت پھیلارہے ہیں۔انکے خلاف موئژ کارروائی عمل میں لاکر سوشل میڈیا سے ان شر پسندوں کا خاتمہ ممکن ہواور وطن عزیز پاکستان میں مثبت اور تعمیری سوچ کو فروغ دیا جا سکے ۔