19 اپریل 2023بدھ سے ہنوز سوڈان کے دارالحکومت خرطوم اور ملک کے بہت سے دوسرے علاقے سماعت شکن دھماکوں ،جنگی طیاروں کی دل دہلا دینے والی آوازوں سے دہل رہے ہیں، انسانی آبادی پرگرائے جانے والے بموں سے آسمان سیاہ دھوؤں کے بادلوں سے ڈھک چکاہے ، دارالحکومت خرطوم میںگولیاں چلنے کی تڑ تڑاہٹ اور راکٹ چلنے کی دھمک سے فضا خوفناک بنی ہوئی ہے۔جنگی طیاروں سے کی جانے والی بمباری اورگولیاں اورراکٹ چلانے والی کسی دوسرے ملک کی جارح اورقابض فوج نہیں بلکہ المیہ یہ ہے کہ سوڈان کے دومتصادم اورمتحارب فوجی جرنیلوں کے زیر کمان فوج ہے جو اپنے ہی ملک اور اپنے ہی ابنائے وطن کاقتل عام کرنے پرتلی ہوئی ہے ۔خرطوم کو آگ کے شعلوں کی نذرکرنے والے دو جرنیلوں کے زیر کمان فوجی دستے پیچھے ہٹنے کے لئے مطلق تیار نظر نہیں آرہے ۔ملک کے دو جرنیل،جنرل عبدالفتاح البرہان اورجنرل محمد حمدان حمیدتی ملک پر اپنا اپناقبضہ جمانے کے لئے سوڈان کو اپنے ہاتھوں سے برباداورتہہ وبالاکررہے ہیں۔حالانکہ دونوں جرنیلوں نے اکھٹے فوج میں کام کیا ہے اور اب ایک دوسرے کی کمان میں فوجیوں کومارنے اورنیست ونابود کرنے کے در پے ہیں۔ ریگولر فوج اور نیم فوجی دستے آر ایس ایف کے درمیان ہورہی سوڈان پرقبضے کی اس لڑائی میں تادم تحریر سینکڑوں افراد ہلاک جبکہ ہزاروں زخمی ہوئے ہیں۔اقوام متحدہ کے مطابق فوج کی باہم لڑائی کے باعث 20 ہزار کے قریب افراد، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، اپنی حفاظت کے لیے سوڈان کی سرحد عبور کر کے چاڈ پہنچ گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ فوج کے باہم دست وگریبان ہونے کی وجوہات اورمحرکات کیا ہیں؟سوڈان میںفوج کی باہم لڑائی اس وقت شروع ہوئی کہ جب ملک کی ریگولرفوج کے کمانڈرجنرل عبد الفتاح برہان کی طرف سے ملک میں ایک بار پھر سویلین حکومتی سٹ اپ کی تشکیل کے اشارے ملنے شروع ہوئے کہ ملک کی باگ وڈور ایک بار پھر عمرالبشیر کے حوالے کی جارہی ہے ۔نئے سٹ اپ کے قیام اورسویلین حکومت کی تشکیل میں جنرل عبد الفتاح برہان کایہ بھی ایجنڈاتھا کہ ملک کی نیم فوج آر ایس ایف کو باقاعدہ سوڈان کی مسلح افواج میں دوبارہ ضم کرکے ایک ہی کمانڈمیں لایاجائے گا۔اس طرح حمیدتی کی کمانڈ یاتوبالکل ختم ہوجاتی یاپھر انہیں جنرل برہان کے مکمل تابع فرمان ہوکر رہناتھا۔تویہ صورتحال ہونے سے قبل ہی آرایس ایف کے کمانڈرحمیدتی نے جنرل برہان کی بغاوت کردی۔ خیال رہے کہ سوڈان کی تاریخ میں واضح طورپر فوج کا کرداررہاہے۔1956 میں برطانوی سامراج سے سوڈان کی آزادی کے بعد سے ہی ملک کی سیاست میں مسلح افواج نے اہم کردار ادا کیا ہے۔آزادی کے صرف دو سال بعد ہی 1958 میں چیف آف سٹاف میجر جنرل ابراہیم آبود نے ایک خونی بغاوت کے بعد اقتدار پر قبضہ کر لیا۔1964 کی ایک مقبول بغاوت نے فوج کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کردیا۔تاہم 1969 میں کرنل جعفر نمیری کی سربراہی میں ایک اور بغاوت کے بعد اقتدار واپس فوج کے پاس آگیا۔ جعفر نمیری کو خود کئی بغاوتوں کا سامنا رہا۔1985 میں لیفٹیننٹ جنرل عبد الرحمان سوار الدحاب کی سربراہی میں فوجی سربراہان کے ایک گروہ نمیری کو اقتدار سے نکال باہر کیا۔ایک سال بعد الدحاب نے تمام اختیارات منتخب حکومت کے وزیراعظم الصادق الماہدی کے حوالے کر دیے۔تین سال بعد جون 1989 میں بریگیڈیئر عمر البشیر کی سربراہی میں اسلامی فوجی سربراہان نے الماہدی کے غیر مستحکم اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔30 سال سے عمر البشیر اقتدار میںرہے لیکن ان کی حکومت کو کئی چیلنجز کا سامنا رہا ہے۔اس دوران سب سے بڑاچلینج سوڈان میں فوج اور عمرالبشیرکے درمیان طویل عرصے سے مخاصمت تھی جوبالآخر 11 اپریل سال 2019 کوعمرالبشیر کے 30اقتدارکے خاتمے پر منتج ہوا۔ عمر البشیر کا تختہ الٹنے کے لیے یہ دونوں مسلح قوتیں یعنی سوڈان کی ریگولرفوج اور نیم فوجی دستوں کی قیادت کرنے والے جنرل برہان تھے، اور حمیدتی متحد ہو گئے۔ عمر البشیر کے اقتدار کے خاتمے کے بعدعمر البشیر کی حکومت کے خلاف مظاہرین کے ساتھ سویلین کی قیادت میں حکومت بنانے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کی نگرانی خودمختار کونسل، ایک مشترکہ سویلین ملٹری باڈی تشکیل دی گئی، جس کے سربراہ جنرل برہان تھے، اور حمیدتی اس کے نائب تھے۔سویلین اور ملٹری اشتراک دو سال تک جاری رہا - ملک کی باگ وڈورعبوری وزیر اعظم عبداللہ ہمدوک کے سپرد کی گئی۔لیکن چند ہی ماہ بعدیعنی25 اکتوبر 2021کو فوج نے سویلین حکومت کو تحلیل کر کے عبوری وزیر اعظم عبداللہ ہمدوک سمیت متعدد سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کر لیا ہے۔فوج نے ملک میں ایمرجنسی کا نافذ کرکے حکومت کو چلانے کے لئے ایک مشترکہ کونسل کے قیام کا اعلان کیا ہے جس کی سربراہی جنرل عبدالفتح برہان کر رہے ہیں۔جنرل عبدالفتح برہان نے سویلین حکومت کو تحلیل کرنے کی وجہ میں ملک میں جاری سیاسی چپقلش تھی۔ بنیادی طور پرسوڈان شمالی افریقہ کا ایک وسیع زرعی مسلمان ملک ہے اوراس کے بیچ میں دریائے نیل بہتا ہے۔سوڈان میں کئی مختلف صنعتیں موجود ہیں اور زراعت بھی اس کی معیشت میں بڑی کردار ادا کرتی ہے۔سوڈان کی اہم صنعت تیل، کپاس، ٹیکسٹائل، سیمنٹ، خوردنی تیل، چینی، صابن کھپت، جوتے، پیٹرولیم ، دواسازی، ہتھیاروں اور آٹوموبائل ہیں۔اس کی بنیادی زرعی مصنوعات میں کپاس، مونگ، سورج، باجرا، گندم، گم عربی، چینی، ٹپیوکا، مانگوس، پپیہ، کیلے، میٹھی آلو، ساسی اور مالدار شامل ہیں۔سوڈان رقبے کے لحاظ سے یہ سب سے بڑازرعی ملک ہے جسے متعلق کہاجاتاتھاکہ اکیلا سوڈان تمام عرب دنیا کی غذائی ضروریات پوری کر سکتا ہے۔ لیکن یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ سوڈان میں بیسویں صدی کے آغاز میں مہدی تحریک چلی جبکہ وسط میں حسن الترابی شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرتے رہے لیکن المیہ یہ ہے کہ اس ملک میں نفاذ شریعت نہ ہوسکا اوراسکی معیشت خانہ جنگی کے باعث عدم استحکام کی شکاربھی بنی رہی ۔