وضعداری نہ تکلف نہ لطافت سمجھا دل کم فہم مروت کو محبت سمجھا قند میں لپٹا ہوا زہر تھا سب راز و نیاز میں کہ محروم وفا اس کو عنایت سمجھا وہ تو فراز نے بھی کہا تھادوست ہو تا نہیں ہاتھ ملانے والا ،پھر یہ تو اور بھی اذیت ناک ہے کہ جب ہاتھ دکھانے والے ملیں ۔بات کرتا ہے تو دامن بھی بچا جاتا ہے۔ کیا کریں ایسے ہی لوگوں کے درمیان میں جینا پڑتا ہے یا وہ جو ہمارے درمیان لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ہماری حماقتوں پر قہقہہ بار ہوتے ہیں۔ سیاست میں تو محبت کی نہیں مفاد کی مہم چلتی ہے۔ صوفیہ بیدار نے محبت اور رفاقت کا فرق واضح کرنے کی کوشش کی تو منیر نیازی نے کہا کہ یہ دونوں قریب ترین ہیں۔ شاید اس میں کچھ صداقت ہے کہ رفاقت کبھی محبت میں بدل جاتی ہے۔ محبت مگر رقابت کو جنم دیتی ہے ویسے تو شرافت بھی اسی لفظ کی ہم وزن ہے اور صداقت بھی: محبتوں میں تعصب تو در ہی آتا ہے ہم آئینہ نہ رہے تم کو روبرو کر کے تمہید تو ہم نے پی ٹی آئی کے طرفداروں کی حمایت کے لئے باندھی ہے کہ آخر لوگ کیوں معترض ہیں کہ این اے 75میں بلا کی دھاندلی ہوئی یا یہ دھاندلی کسی بلا نے کی۔ بات یہ ہے کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ چلتا ہے تو اس الیکشن میں کون سی نئی بات ہوئی ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ پچھلی حکومتوں میں بھی ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ پی ٹی آئی والے دھاندلی میں تجربہ کار نہیں تھے اور وہ انتہائی معصوم لوگ ہیں انہوں نے جال کچھ اس طرح پھینکا کہ خود اسیر ہو گئے۔وگرنہ الیکشن تو وہ جیتے ہوئے تھے۔ فواد چودھری نے اعلان بھی کر دیا تھا۔ بس بخت نے یاوری نہیں کی۔ویسے دھاندلی کا آرڈر عمران خان نے نہیں دیا وہ تو اب بھی 20سٹیشنوں پر دوبارہ پولنگ کرانے کے لئے تیار ہیں۔ لگتا ہے شاہ کے درباری کچھ زیادہ ہی مستعد نکلے کہ بیلٹ بکس کی بجائے عملہ ہی غائب کر دیا۔ ہو سکتا ہے یہ پولنگ آفیسرز اپنے عملے سمیت خود ہی کشاں کشاں ان کے پاس پہنچ گئے ہوں۔ ۔اس سے پہلے عطا تارڑ بھی تو زبردستی پولیس کی وین میں سوار ہو کر تھانے میں پہنچ گئے تھے۔ ایک تصرف کے ساتھ: اک معمہ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا یہ الیکشن بھی تو اک خواب ہے دیوانے کا باقی باتیں ایک طرف یہ ڈسکہ کے الیکشن جو آئندہ تاریخ میں ’’دھند الیکشن‘‘ کے نام سے یاد رکھے جائیں گے‘ اک بات اپنے مطلب کی ہم بھی کریں گے بعض جگہ شاعرانہ نمونے ہمیں ملے۔مثلاً مریم نواز نے بھی قافیہ پیمائی کی کہ دھند میں بیس عملے کے لوگوں کو پتہ ہی نہیں چلا کہ بکسہ کہاں ہے اور ڈسکہ کہاں ہے مریم اورنگزیب نے بھی چوروں کے طرفداروں ‘پیروکاروں اور حصہ داروں کے قافیے باندھے۔ میں یہ سب کچھ اپنے قارئین کی لطف اندوزی کے لئے لکھ رہا ہوں۔ وگرنہ فیصلہ تو الیکشن کمیشن نے کر دیا ہے۔ پورے حلقے میں ری پولنگ کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ یہ بھی سامنے آ گیا کہ پریذائیڈنگ افسران تحقیق و تفتیش کے دوران خاصے پریشان اور خوفزدہ تھے۔ میرا خیال ہے تفتیشی نے ہنس کر غالب کو یاد کیا ہو گا: نہ ہم سمجھے نہ تم آئے کہیں سے پسینہ پونچھئے اپنی جبیں سے سوشل میڈیا بہت تیز ہو گیا ہے۔ آنکھ جھپکتے ہوئے بھی سوچنا چاہیے۔ بہرحال جو غائب تھے ان کے بارے میں معلوم کرنا مشکل ہو گا کہ آپ برمودہ ٹرائی اینگل کا تو پڑھا ہو گا جہاں سے کبھی کوئی جہاز واپس نہیں آیا کہ بتا سکے کہ وہاں ہوتا کیا ہے۔شکر ہے ہمارے پریذائیڈنگ افسران واپس تو آ گئے۔دھند کو بھی اسی روز آنا تھا ۔ چلیے ہمارے پیارے عرفان صدیقی جو کہ تقریباً شاعری چھوڑ چکے تھے بلکہ کالم نگاری بھی کہ نواز شریف کے مشیر بن گئے اور بعدازاں حکومتی عہدیدار‘ ان کے اندر کا شاعر بھی اس دھند نے بیدار کر دیا لکھتے ہیں۔ شام ڈھلتے ہی چھا گئی دھند‘بیس بندوں کو کھا گئی دھند۔ کر دیا بند سب کی آنکھوں کو۔ فون تک میں سما گئی یہ دھند۔ وارداتی ہوائوں سے مل کر کیا کرشمے دکھا گئی یہ دھند۔ کچھ کے ووٹوں کو کر گئی تگنا اور کچھ کے گھٹا گئی یہ دھند۔ صبح ہوتے ہی چھٹ گئی لیکن۔راز سارے بتا گئی یہ دھند جو زبانوں پہ آ نہیں پاتی۔ وہ کہانی سنا گئی یہ دھند۔ میرا خیال ہے اتنے شعر ہی کافی ہیں۔ ویسے بعض مفکرین کا کہنا ہے کہ یہ دھاندلی کوئی نئی بات نہیں یہ یہاں کا الیکشن کلچر ہے۔ ایسے ہی جیسے مشاعروں میں ہوٹنگ ہوتی ہے اور سمجھدار شاعر اپنے طرفدار یا دادیے ساتھ لے کر جاتے ہیں: یہ ہے میکدہ یہاں رند ہیں یہاں پارسائی حرام ہے یہاں کم نظر کا گزر نہیں یہاں اہل ظرف کا کام ہے سیاسی جماعتوں نے ڈسکہ کے الیکشن کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا گیا۔ رانا ثناء اللہ اپنے لائو لشکر کے ساتھ وہاں موجود تھے اور عثمان ڈار کا تو خیر یہ علاقہ تھا مگر وہاں فردوس عاشق اعوان بھی پہنچ گئیں۔ پریذائیڈنگ افسروں کے لئے بھی ناقابل فراموش واقعہ بن جائیں گے کہ اتنا انتظار ان کا ان کی محبوبہ نے بھی نہیں کیا ہو گا جتنا ہزاروں لوگوں نے کیا کہ آ کر رزلٹ دیں تاکہ فیصلہ ہو سکے۔ کتنے لوگوں کی رات آنکھوں میں کٹی ۔اس بات کا اظہار ایک عسکری ذمہ دار نے بھی کیا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ بڑی گھاگ جماعتیں ہیں ان کے پاس سو طریقے ہیں ووٹ لینے کے۔ پی ٹی آئی ان کا مقابلہ نہیں کر سکی۔ کسی منچلے نے یہ سوال سلیم چشتی سے پوچھ لیا تو انہوں نے کہا یہ بات ہے تو پی ٹی آئی نے 2018ء کا الیکشن کیسے جیتا تھا؟ ہم جیتیں گے‘ ہم جیتیں گے۔ ان کے بارے میں تو لوگ جانتے ہیں کہ وہی جیتیں گے۔ محترم عارف نظامی نے بجا لکھا ہے کہ عوام حکومت سے خوش نہیں ہیں۔ اگر حکومت نے کچھ کیا ہوتا تو پھر ڈسکہ میں کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ باقی تین سیٹیں بھی اپوزیشن اڑا چکی اور خاص طور پر نوشہرہ جہاں بقول مریم نواز کے کہ انہوں گھس کر مارا ہے۔ سوشل میڈیا پر لوگوں کی زبان ہر کس و ناکس نے سن رکھی ہے یہ تو کوئی بات نہیں کہ اب بھی حفیظ شیخ کہہ رہے ہیں کہ قوم کے مفاد میں نامقبول فیصلے کئے۔عوام قربانی دے گی۔کیوں جی؟یہ قربانی بے چارے غریب عوام ہی کیوں دیں: وہ ساری خوشیاں جو اس نے چاہیں اٹھا کے جھولی میں اپنی رکھ لیں ہمارے حصے میں عذر آئے‘ جواز آئے‘اصول آئے