شب تاریکی اور ظلم شب بیداری! دفعتاً دھواں سا اٹھا‘ کسی دل جلے کی گور کی مانند وجود بے حس پر عجب کیفیت طاری ہوگئی۔ تاریکی میں ہاتھ موبائل پر پڑا‘کچھ اشعار نظروں سے گزرے اور پھر کیا تھا کہ آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔ پردہ سکرین پر کئی واقعات دہر چل نکلے اور کہیں کا کہیں پہنچا دیا۔سوچ کے زاویوں پر قابو نہ ہونے کی کیفیت ایسی مماثلت کا نمونہ ہوتی ہے‘کتنے شاعر گزرے‘بڑا نام کمایا‘آج تک شہرت کی بلندیوں پر ستاروں کی مانند چمک دمک رہے ہیں۔ سوال اٹھا:صدیوں کی محرومیوں و مظالم کو کیسے چند سطروں میں قید کر گئے؟ اتنی جسارت کیسے قلم جوشی میں کر گئے؟خود حالت بدمست اور ذوق دولت کدہ!کیا حقیقت صفحہ قرطاس سے جداگانہ ہے؟ سوچیں تو اخذ ہوتا ہے کہ معاشرے کے حقیقی عکاس ایسے ہی ہوا کرتے ہیں‘ اک دور گزرا قوم کو روح کا وصل نہیں کرنے دیا گیا‘ اک طرف پیاس‘بے تحاشہ پیاس ہے تودوسری طرف ہوس اور لتھی پڑی تجوریاں‘کیا ان دو تصاویر کے الگ الگ حاشیے سپرد قلم کرنا بہت مشکل نہیں ہوگیا؟یقین نہ آئے تو دامن کو جھنجھوڑیے‘چند لمحوں کیلئے محو گمان ہوں:زندگی ختم ہوچکی اور عکس حقیقی کا تجزیہ مطلوب ہو تو کیا دو الگ الگ مناظر کو ایک کہنے کا گناہ سرزرد کرنے کا سوچا جاسکتا ہے؟ یقین مانیے‘انتہائی دشوار ہوگا‘ ملک میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں‘اموات بڑھ رہی ہیں‘ ستم گر مسیحا بننے کی دوڑ میں شامل ہیں لیکن خلق کا کیا؟ پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی بات کے مصداق صلاح الدین ایوبی کی یاد آئی‘ وقت کی دولت مند ریاستوں کے بادشاہ کو حج کی چاہ اور بے پناہ چاہ مگر رقم نہ ہونے پر اس کو پورا نہ کر پائے یہاں تک کے موت نے آن گھیرا‘وہ مسلم بادشاہ جب اپنے آخری اور ابدی سفر پر روانہ ہورہا تھا تو اثاثہ جات محض ایک گھوڑا‘فقط ایک تلوار‘47درہم اور ایک دینار!آج کے بادشاہ اور بادشاہ گرکی حالت زار ایسی نہیں مگر عوام کی حالت پر ترس آنا بھی جرم ضعیفی بنادیا گیا۔مادر وطن میں ہر سو طوفان ہی کی تو کیفیت ہے۔سیاسی بھونچال عمران خان برپا کئے ہوئے ہیں‘ ملک کی تمام ’’جمہوری‘‘ سیاسی جماعتیں اقتدار میں ایسی زبردست اتحاد و اتفاق کی فضاء پر کاربند ہیں کہ وہ بھی پناہ مانگیں جس کے شر سے ابن آدم طلب کرتا ہے۔ کونسا ایسا دن ہے جو مہنگائی کے بم گرائے بغیر بیت جائے؟ یہ جرم کرنے کی پی ڈی ایم حکومت میں جسارت نہیں‘ عوام کا بھرکس نکال دیا گیا۔ بجلی‘گیس‘پٹرولیم مصنوعات عوام کیلئے دیوانے کا خواب بنانے کے بعد بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اتنا اضافہ کہ غریب جائے تو کہاں جائے؟ سیلاب‘ مہنگائی اور دھونس دھاندلی سے بیزار خلق عمران خان کے جلسوں میں امڈ رہی ہے اور جناب آپ کا فرمان شاہی:ایسا نہیں ہونے دینگے‘اتنی رعونیت اور زعم اقتدار تاریخ کے دریچوں میں جس کو بھی رہا‘وہ کن ناموں سے یاد کئے جاتے ہیں۔ اس کا بتانا مقصود نہیں‘البتہ اس کیفیت کا وجود پر طاری ہونا ضروری ہے لیکن کیا کریں‘انسان دیوتا بنے بیٹھے ہیں‘کاش چند فقروں میں کیفیت رواں کو بیان کر پائیں‘اس پیرائے میں بیان ہو کہ صدیوں یاد رکھا جائے‘ الفاظ کے ذخائر ہوں‘ لفظوں کی کاٹ تلوار سے تیز ہو اور اقتدار کے پوجاریوں کے وجود کو چھلنی کر دیں۔کاش یہ بصیرت‘قوت اور حکمت اللہ عطا کرتا اور دنیا میں نئی تاریخ رقم کرتے‘عرصہ ہوا:یہ قوم مظلومیت کی بھٹی میں جھونک دی گئی‘آگے بڑھنے کی طلب کو کچل دیا گیا۔ نوجوان کو اتنا اور اس قدر روندا گیا کہ خواہش ترقی سے اس کا وجود لرز جاتا ہے‘پھر وہ چند شخصیات کی پرستش نہ کرے تو کیا کرے؟ کیا ہم ساری زندگی صرف اس لئے تعلیم حاصل کرتے اور اپنی آل اولاد کو کرواتے ہیں کہ وہ مٹھی بھر اشرافیہ کیلئے کل پرزوں کے کردار بن سکیں؟ معاشرے ایسے پروان نہیں چڑھا کرتے‘تاریخ کی کاٹ بہت ظالم ہے‘تاریخ دان کے قلم کی غیر جانبداری صدیوں پر محیط تہذیب و تمدن اور حکمرانوں کو شمشیر برہنہ کی طرح بے نقاب کردیتی ہے۔آج ہم پر جیسے حالات ہیں‘وہ تاریخ کے ایسے سیاہ اوراق سے زیادہ مختلف نہیں‘شمس الدین التمش کا نالائق فرزند فیروز بزور شمشیر مسند اقتدار سے چمٹ گیا‘دن رات مہ نوشی میں بیتنے لگے‘ رضیہ سلطانہ کے ساتھ نا انصافی برتارہا‘وہی روائتی فطین سوچ کا مالک‘ رقص و سرور میں بدمست نا اہل کو اقتدار کے نشے نے جابر کردیا۔خلق خدا فریاد کناں ہوگئی‘ پھر زمین و آسمان گواہ ہیں کہ کیسے اس روئے زمین پر ایک منصف خاتون جسے تاریخ رضیہ سلطانہ کے نام سے یاد کرتی‘ اس نے انصاف کیا لیکن کمین گاہوں میں موجود وزیروں نے وہی کیا جو ہر عروج پر حسد میں کرنا ہم نے اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔پردہ سکرین پر قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے الفاظ گونج کے ساتھ کانوں میں پڑے کہ مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا‘پاکستان حاصل کرنے کیلئے ہم نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ پاکستان کو قائم رکھنے کیلئے ابھی اور قربانیاں دینا ہونگی۔ عوام در حقیقت تاحال قربان گاہ میں ہے۔ سیلاب عوام کی قربانی نہیں تو کیا ہے؟ ڈیمز بنائے نہیں گئے‘بنانے نہیں دئیے جاتے‘بلاتفریق اس کھیل میں اپنے پرائے سب شامل ہیں‘ اس سے زیادہ ظلم کا رقص کیا ہوسکتا ہے کہ سندھ میں وڈیرے متاثرین کے روبرو منرل واٹر سے اپنے پاؤں دھوئیں‘کیا جہالت کے دور سے ہم باہر نکل چکے؟ بھارت نے اپنے تینوں حصے میں آنے والے دریاؤں پر ڈیمز کی بھرمار کردی اور ہم نے بے حسی اور ظلم کی انتہائ‘کوئی حکمرانوں کے گریبان کو پکڑ سکے‘ پوچھے:ڈیمز بنانے میں کیا قباحت ہے؟ انہیں کوئی دیوانہ سرکش ان کی صفوں میں ٹوکے کہ جناب حکومت کے معاملات کاروبار کا مقصد عوام کو زر کی متعین طریقوں سے منتقلی فریضہ ہیَنالائق‘تباہ حال‘بے مقصد محکموں اور ان میں بیٹھے نا خداؤں کے بڑے بڑے پیٹ بھڑنا نہیں۔ سیلاب کے اب تک 1400 کے قریب جاں بحق ہونیوالوں کا کوئی نہ کوئی قاتل ضرور ہے؟ سیلاب قدرتی آفت ضرور سہی لیکن یہ آفت ہمارے اعمال کا نتیجہ؟