اٹھارویں ترمم کے بعد وجود مںمیں آنے والا وفاقی پارلیمانی نظام، حکومت اور اپوزیشن کے درمیا ن اعتماد کے بغیر نہں چل سکتا۔ اس نظام کو وجود میں لانے کے لے پوری ایک دہائی آپس میںدست و گریبان رہنے والی سیاسی پارٹیوںکو میثاقِ جمہوریت پر دستخط کرنا پڑے تھے مگراس پر سختی سے عمل نہ ہو سکا۔ سیاسی بھائی چارے کے ماحول مں پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے پورے دس سال ملک پر حکومت کی۔ اگر یہ پارٹیاں بلدیاتی نظام کو تہہ وبالا نہ کرتیں اور احتساب کا نظام وضح کرلیتیں، تو شاید تحریک انصاف کا سورج ہی پاکستان کے سیاسی افق پر طلوع نہ ہو پاتا۔لیکن جو ہونا تھا ، وہ ہوکر رہا۔ اشرافیائی سیاست کی حامی پارٹیوں نے وہ اقدامات کیے جو ان کے مشترکہ اقتدار کو طول دے سکتے تھے اور ان سے پرہیز کیا جو جمہوریت پر عوام کا اعتماد پختہ کرتے اور قومی یکجہتی کو فروغ دیتے۔ پورے تین سال سابقہ حکمران پارٹیوں کی قیادت جہاں تھی وہاں ہی ہے ۔ اب کہیں عدالتوں کے ذریعے ان کی جان چھوٹی ہے۔اب احتسابی نظام کا جمود لازمی نہیں ہے۔ منتخب حکومتوں کی نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا۔ یہ نظام مشرف دور سے ہی مفلوج تھا۔انہیں کیا پڑی تھی کہ وہ اسے دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑا کرتیں ؟ یہ سچ ہے کہ ان پارٹیوں نے وہ تمام اقدامات اٹھائے جو ان کی ایوانِ اقتدار میںموجودگی کو یقینی بنا سکتے تھے۔ لیکن اس حوالے سے انہیں الزام نہیں دیا جاسکتا کیونکہ یہ فطری عمل تھا۔ پارلیمان کی بالادستی، صوبائی خود مختاری اور عدلیہ کی آزادی نے جہاں جمہوری اقتدار کی پاسداری کو یقینی بنایا وہیںِ عبوری حکومت کے قیا م اور ادارہ جاتی سربراہوںبشمول الیکشن کمیشنر کی باہمی مشورے سے تعیناتی کی روایت نے باہمی رنجشوں پر قابو پانے کا راستہ نکالا تھا۔ تحریک انصاف نے نہایت ہی مضبوط مفروضوں پر اپنی انتخابی مہم کو ترتیب دیا ، سابقہ حکمران پارٹیوں کے احتساب اور بلدیاتی نظام کے حوالے سے کمزوریوں کا فائدہ اٹھایا اور ن لیگ کو ایوان ِ اقتدار سے باہر کردیا۔ میثاق جمہوریت کا شیرازہ بکھر گیا۔احتساب کا نظام زندہ ہوا تو سیاسی ناچاقی دوبارہ لوٹ آئی۔ مفروضے تو بالآخرمفروضے ہی ہوتے ہیں ، ناقابلِ تردید شواہد سے ثابت کرنا پڑتے ہیں۔ احتساب کے عمل سے ملا تو کچھ نہیں ، البتہ سابقہ حکمرانوں کو کلین چٹ ضرور مل گئی۔یوں کرپشن کے پیسے کو قومی خزانے میں واپس لانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ کرپشن اپنی جگہ پر موجود ہے اور شاید شدت کے ساتھ۔ معیشت جمود کا شکار ہے، قومی خزانہ قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہے۔ عوام پر ٹیکسوں کی بھر مار ہے۔ مہنگائی کا جن بے قابو ہو گیا ہے۔ مافیا کی سیاسی نظام میں جڑیں اتنی مضبوط ہیں کہ تبدیلی سرکار بھی اس کے سامنے ڈھیر ہوچکی ہے۔ بات سابقہ حکمران پارٹیوں کی ہی نہیں ، تحریک انصاف کی سیاست بھی ناکام ہوگئی ہے۔ اب وہ والی بات نہیں ہے کہ ایک دوسرے کو ننگا کرکے ووٹ لیں گے کہ اس حمام میں سب بے لباس ہیں۔ پچھلے سال کی احتجاجی تحریک کا کیا نتیجہ نکلا؟ الٹا حکومت دلیر ہوگئی۔ اس وقت ملک کو بیرونی جارحیت کے مقابلے میں اندرونی انتشار کا خدشہ لاحق ہے اور یہ خطرہ کالعدم تنظیموں کو سیاسی دھارے میں لانے سے نہیں ٹلنے والا۔ سمجھنے والی بات یہ ہے کہ ہمیں بھی وہی مسئلہ در پیش ہے جو نیل و فرات والوں کو تھا۔ ہم بھی بس کھائی میں گر ا ہی چاہتے ہیں۔ ہمارے ہاں سیاست داغ داغ ہوچکی ہے، ایندھن خشک ہوچکا ہے اور بس تیلی لگانے کی دیر ہے۔ آپسی منافرتوں میں ہم کب تک اپنی ہی گھر کو آگ لگاتے رہیں گے؟۔ طبقاتی اور نسلی سیاست نے بائیس کروڑ عوام کی ناک میں دم کررکھا ہے۔ سیاسی پارٹیاں اس مفروضے سے نکلیں کہ عوام کو مافیا نے جکڑ لیا ہے اور وہ سمجھوتوں سے اقتدار میں آسکتی ہیں۔ جب مسئلہ پیٹ کا آجائے تو حالات کسی نہج پر بھی جاسکتے ہیں۔ پولیس کے پاس ہجوم کو قابو کرنے کی سکت نہیں اور فوج سے یہ توقع نہ رکھیں کہ وہ سیاسی قیادت کی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے اپنی ساکھ کو دائو پر لگائے گی۔ حالات کا تقاضہ یہی ہے کہ سیاست کو بچایا جائے۔ وہ سیاست جو ہمیں اس وقت کے سب سے بڑے خطرے ، یعنی اندرونی انتشار ،سے نکال کر امن، سلامتی اور خوشحالی کے راستے پر لے آئے۔ ہمیں ناچاقی اور منافرت کے دائرے سے نکل کر عشقِ وطن کی دولت سے مالا مال ہونا ہو گا۔ میثاق ِ جمہوریت ماضی کا قصہ ہوا ، اب میثاق ِ سیاست کی طرف آیا جائے تاکہ غلطیوں کا ازالہ اور ادھورے کام کی تکمیل ہوسکے۔ اس سیاست کا آغاز ہوجو طبقاتی اور نسلی مفادات کی تکمیل کی بجائے ملکی بقا اور سلامتی کے لیے کی جائے۔ بلدیاتی نظام کو آئین کے روح کے مطابق بحال کرکے قومی یکجہتی کو فروغ دیا جائے۔ آئینی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ عدلیہ بنیادی حقوق پر توجہ مبذول کرسکے۔ ادارہ جاتی اصلاحات کرکے ان میں شفافیت اور خود احتسابی لائی جائے۔اگر تحریک انصاف کا مقصد سیاسی نظام کے اندر اپنی جگہ ہی بنانا تھا تو یہ کام ہوچکا۔ حکومت کے لئے تین سال کافی ہوتے ہیں اپنی اہمیت جتلانے کے لیے۔ ضد اور انا پرستی میں نظام حکومت جامد ہوجاتا ہے اور ملک انتشار کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے۔ اسے دوبارہ فعال کرنے کی چابی خود نظام کے ہی پاس موجود ہے۔ پارلیمان کے اندر موجود پارٹیوں کو ان کے گناہوں کی سزا مل چکی ہے۔ ان سے رجوع کرنا آسان بھی ہے اور محفوظ بھی۔ تاکہ میثاقِ سیاست کے بعد مطلوبہ آئین سازی ہوسکے۔ جس سے عالمی مالیاتی اداروں کا بھی بھلا ہوگا اور ملک و عوام کا بھی۔ نئے اتحادیوں کی تلاش میں متنازع جماعتوں کو سیاسی دائرے میں لانے کا کام طویل، صبر آزما اور پر خطر ہے۔ حکمران پارٹی اس جال میں نہ ہی پھنسے تو بہتر ہو گا!