ترقی یافتہ دور میں بھی غریب جس طرح زندگیاں بسر کر رہے ہیں، وہ واقعی کربناک ہے۔سوا 7 ارب کی آبادی میں سے تین ارب افراد کسمپرسی کا شکار ہیں۔ ان 3 ارب میں سے ڈیڑھ ارب ایسے ہیں جنہیں بنیادی ضروریات زندگی بھی میسر نہیں اور وہ سطح غربت سے بھی نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ 60 لاکھ سے زائد بچے ہر سال غیر معیاری خوراک اور علاج کی عدم دستیابی کی بدولت زندگی جیسی خوبصورت نعمت سے لطف انداوز ہوئے بغیر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ روزانہ 1500 خواتین مناسب علاج نہ ہونے کے باعث دوران زچگی لقمہ اجل بن جاتی ہیں۔ غذائی قلت کے باعث پیدا ہونیوالی بیماریوں سے ہر روز ہزاروں بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ افریقہ میں مرنے والا ہر تیسرہ بچہ بھوک کے باعث مرتا ہے۔دوسری جانب دنیا کی 86% آسائیشیں اور ضروریات زندگی 20% افراد کے تصرف میں ہیں۔ سوا ارب سے زائد آبادی کے حامل ملک بھارت میں 80 کروڑ سے زائد افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ آبادی کے طرز زندگی سہولیات اور بنیادی ضروریات کے حوالے سے بھارت کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے۔اسی ملک کے تین شہریوں مکیش امبانی،گوتم اڈانی اور اعظم پریم جی کا شمار دنیا کے امیر ترین افراد میں ہوتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے 48 غریب ترین ممالک کی جی ڈی پی (سالانہ آمدنی) دنیا کے تین امیر ترین افراد کی دولت سے کم ہے۔ غریب یا ترقی پذیر ممالک کی عوام بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں اسکی بنیادی و جوہات میں بیرونی قرضے اور کرپشن کی رقم کی بیرون ملک ترسیل ہے۔پاکستان کا شمار بھی ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے۔ ہماری حکومت اور معاشی ماہرین ملکی معیشت کے پہیے کو رواں دواں رکھنے کیلئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے درپر حاضری دینے والوں میں شامل ہیں۔ موجودہ دور میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ غربت ہے ،جس کی وجہ مہنگائی میں روز بروز اضافہ، دولت کی غیر مساوی تقسیم، وسائل کی کمی، بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ تحقیقی اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے جبکہ پاکستان کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ غربت کی اس بڑھتی ہوئی شرح کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 24کروڑ آبادی والے ملک کی 33 فیصد آبادی ایسی ہے۔ جس کے 8 کروڑ 87 لاکھ افراد خط غربت سے بھی نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں۔ صوبائی لحاظ سے غربت کی یہ شرح صوبہ بلوچستان میں سب سے زیادہ 52 فیصد صوبہ سندھ میں 33 فیصد خیبر پختونخواہ میں 32 اور پنجاب میں سب سے کم 19 فیصد ہے۔یوں2 ڈالر یومیہ آمدنی والے غریب خاندان اپنے مصارف زندگی پورے نہیں کر پاتے اور غربت کے سمندر میں غوطے لے لے کر بالآخر ڈوب جاتے ہیں۔ دوسے تین سو یومیہ آمدنی والا شخص ، بیوی اور کم از کم چار بچوں پر مشتمل خاندان کا نان نفقہ آخر کیسے پورا کر سکتا ہے؟ لیکن صد افسوس ایسے کروڑوں افراد ہمارے درمیان موجود ہیں اور ان میں سے بیشتر ایسے بھی ہیں جن کی یومیہ آمدن اس سے بھی کم ہے ۔ایسے لوگوں کے پاس خودکشی کرنے، خیراتی اداروں سے مدد لینے یا مختلف چھوٹے بڑے جرائم میں ملوث ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔ غربت کی دلدل میں پھنسے ایسے خاندانوں کے بے شمار بچے یا تو سڑکوں کے کنارے بھیک مانگتے ہیں۔ گزشتہ تقریباً 20 برسوں سے چند مفاد پرستی گروہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک سے منسلک ہو گئے ہیں ۔دہشت گردی کے اسباب پر تحقیق کرنے والے ماہرین غربت کو اس کی ایک اہم وجہ قرار دیتے ہیں۔ فاقوں مرتا انسان بقائے زندگی کے لئے چند سکوں کے عوض ضمیر فروشی پر تیار ہو جاتا ہے لیکن اس میں قصور صرف ان ضمیر فروش انسان یا اسے درپیش حالات کا نہیں بلکہ قصور ہر اس شخص کا ہے جو اپنے خاندان کی شکم سیری تو کر لیتا ہے لیکن اپنے ارد گرد نفس غربت میں مقید لوگوں کی مدد نہیں کرتا۔ قصور حکومت کا ہے جو عوام کو بنیادی سہولیات زندگی فراہم کرنے کی بھی اہل نہیں۔ قصور ان گیارہ سے بارہ ارب امیر اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا ہے جو متحد ہو کر غربت کے خاتمے کا تہیہ کرنے کی بجائے دولت کی گردش کو روکے صرف اپنے مفادات کی فکر کرتے ہیں۔ دراصل ہمارے معاشرے میں غربت کی جڑیں انتہائی گہری اور مضبوط ہیں اسی لئے ہزار ہا کوششوں کے باوجود اس کے تناسب میں بجائے کمی کے اضافہ ہو رہا ہے۔ امراشجر افلاس کی چند شاخوں کو کاٹ کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا فرض پورا ہو گیا لیکن یہ بے سود ہے، ایک شاخ کی جگہ دو شاخیں اور نکل آئیں گی اگر ہم حقیقتاً غربت کا خاتمہ چاہتے ہیں تو حکومت اور عوام کو مل کر غربت کے سدباب کے لئے بنائی گئی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی ہو گی اور چند شاخیں کاٹنے کی بجائے اس لعنت کو جڑ سے اکھاڑ، پھینکنا ہو گا۔ غریب عوام تک بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کو یقینی بنانا ہو گا تاکہ معاشرے سے غربت کی بدولت جنم لینے والے جرائم کا خاتمہ کیا جائے اور خوشحال معاشرے کی بنیاد رکھی جائے۔ 8فروی کو الیکشن ہوئے لیکن ابھی تک کوئی ایک جماعت حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ،جس کے باعث سٹاک مارکیٹ کریش ہو چکی ہے ۔مہنگائی بڑھ رہی ہے ،غریب غربت کی دلدل میں دھنسا جا رہا ہے ۔ سیاستدانوں سے گزارش ہے کہ خدا کے لیے اپنی ادائوں پر غور کریں اور ان غریب عوام کو مزید غربت میں مت دھکیلیں۔