نابغہ ِ روزگار حال مقیم ارض ِ ولایت اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ "عدالتوں نے نواز شریف، مریم نواز شریف اور میرے ساتھ انصاف نہیں کیا۔" حالانکہ ہم نے عدالتوں سے پورا پورا انصاف کیا ہوا ہے۔ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کے مصداق گئے زمانوں میں ہم نے سپریم کورٹ کے ساتھ وہ انصاف کیا تھا کہ اب وہ ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔یہ ساری سعادت کسی مکتب کی ہی کرامت تھی: ایں سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ اس کے علاوہ ہم نے عدلیہ کے احترام کا سبق نسل در نسل منتقل کیا ہے۔ہماری جان سے پیاری بھانجی مریم نواز شریف نے اس سلسلہ میں تو بہت ایکسل کیا ہے۔اس سلسلے میں مبینہ طور پر عزیزہ نے جدید ٹیکنالوجی متعارف کروانے کا انتظام بھی کیا ہے۔ایک ریکارڈ بنایا گیاہے، جس میں کئی جج صاحبان کی ویڈیوز موجود ہیں۔ان کی منقولہ اور غیر منقولہ اور جائز اور ناجائز دولت کا ریکارڈ بھی موجود ہے اور اسے وقتا فوقتا اپ ڈیٹ بھی کیے جانے کا آپشن دستیاب ہے۔علاوہ ازیں قابل صد احترام شہباز بھائی کی وہ آڈیو بھی نئے پرنٹوں میں موجود ہے، جس میں وہ جسٹس قیوم کو پائی یان کی فرمائش بتا رہے ہیں۔میں یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ قائد انقلاب نواز شریف مجھے اپنے جہاز میں سوار کر کے دوشنبے نہ پہنچاتے اور میں لندن نہ آ سکتا تو عین ممکن تھا کہ میں اور دختری مریم نواز کوئی نئی تکنیک متعارف ہی نہ کروا سکتے۔اب یہاں لندن میں انگریزوں کی عدالتیں دیکھ دیکھ کر دل سے بددعائیں نکلتی ہیں کہ کہاں اپنے پیارے پاکستان کا نظام ِ انصاف اور کہاں ان گوروں کی عدالتیں: تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو جہاں تک بڑے بھائی جان کو عدالتوں سے انصاف نہ ملنے کا معاملہ ہے تو اس سلسلے میں بہت ساری شکایتوں کا ازالہ ہوا تو ہے مگر انصاف کا پرنالہ وہیں کا وہیں ہے۔یہ درست ہے کہ بڑے بھائی جان کو سزا ملنے کے بعد جیل سے ضمانت پر گھر بھیجا گیا تھا کہ وہ اپنا علاج کروا سکیں۔اس دوران انہوں نے انصاف کی فراہمی کے لیے عزیزی جج ارشد ملک سے ملاقات کی تھی۔کچھ ویڈیوز پر بھی تبادلہ خیال ہوا تھا۔جج ارشد ملک توبہ تائب بھی ہوا تھا۔مگر انصاف نہیں ملا۔کچھ عرصہ جیل میں دوبارہ رہتے ہوئے پلیٹلیٹس بڑھ گئے توعلاج کے لئے یہاں بھجوا دیا گیا۔ہم ایسے انصاف کو بھی کچھ نہیں سمجھتے۔ہم اس سے زیادہ کی توقع رکھتے ہیں۔ فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ :آصف زرداری اگر عمران خان کو نہ نکالتے تو ملک ڈیفالٹ کر جاتا"۔ شکر ہے ڈیفالٹ کا معاملہ ٹل گیا ہے اور ایک ارب ڈالر سے زیادہ رقم کی امداد مل گئی ہے۔اسے قرض کہنا کفران ِ نعمت ہے۔ابھی عزیزی بلاول حساب کر رہے ہیں کہ یہ ڈیڑھ ارب ڈالر پاکستانی روپوں میں کتنی رقم بنتا ہے اور صوبہ سندھ کا اس میں کتنا حصہ بنتا ہے۔ہم پیپلز پارٹی والوں کو اب صرف صوبہ سندھ کے حصے کی فکر ہے۔پختون خواہ کو اس سے کچھ بھی دینے کی ضرورت نہیں ہے۔تین چار ماہ سے ڈیفالٹ کا بھی خطرہ تھا اور امداد ملنے میں دیر تھی جس کی وجہ سے آقا زرداری کی بھی طبیعت ملول ہی رہتی تھی۔اب بہت افاقہ ہے وہ اب ہشاش بشاش ہیں۔ڈیڑھ ارب ڈالر کا سن کر ہی وہ خوش ہو گئے تھے، اب تو برادر مفتاح اسماعیل نے مطلع کیا ہے کہ مذکورہ رقم اکاونٹ میں ٹرانسفر ہو گئی ہے۔شومئی قسمت سے یہ رقم کسی پاپڑ والے یا اومنی والے کے اکاونٹ میں نہیں سٹیٹ بینک کے اکاونٹ میں جمع ہے۔ لیکن پریشانی کی بات نہیں ہے اس کا بھی حل نکال لیا جائے گا۔اصل میں ہمیں عمران خان کی ساڑھے تین سال کی حکومت کے عرصے میں اپنے ڈیفالٹ کا زیادہ خطرہ تھا۔مقام شکر ہے کہ عزیزی رضا ربانی نے اٹھاوریں ترمیم کے ذریعے پہلے سے بندوبست کر دیا تھا ،ورنہ آنتیں تو قل ہواللہ پڑھنے والی تھیں۔اب سیلاب کی امداد بھی آ گئی ہے اب صرف اس کی تقسیم کے فارمولے پر غور ہو رہا ہے اور امید ہے کہ جیجا جی منور تالپور کا پچاس پچاس روپیہ تقسیم کرنے کا ہی نسخہ تیر بہدف رہے گا: کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں ہمارے تمہارے دلوں کے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے"سیلاب کے متاثرین صبر سے کام لیں۔ہم ایک ایک پائی حقداروں کے قدموں پر نچھاور کر دیں گے"۔ہمارا تقریباً چالیس سالہ حکومت کا عرصہ اس بات کا گواہ ہے کہ ہم نے ہمیشہ رقم اصل حقداروں پر نچھاور کی ہے۔اس سلسلے میں زیادہ تردد کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی کیونکہ اصل حقدار کو ہم سے زیادہ کون جانتا ہے۔عزیزی سلمان، عزیزی حمزہ کے بعد اول خویش بعد درویش کی ایک لمبی فہرست ہے جو اصل حقداروں پر مشتمل ہے۔ہمارا ماضی اس بات کا بھی گواہ ہے کہ رقم نچھاور کرتے وقت اس بات کا بھی دھیان رکھا جاتا ہے کہ عزیزان کی سات نسلیں آرام سکون سے اسے کھا سکیں۔جہاں تک عام لوگوں کا معاملہ ہے ان کو صبر کی تلقین کی جاتی رہی ہے اور اب بھی صبر کی تلقین کر ریے ہیں۔صبر کا پھل بہت میٹھا ہوتا ہے۔اگر کہیں یہ پھل موجود ہوتا تو حقداروں کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت ضرور حاصل کرتا۔آپ نے شاید آغا حسن بلوچ کا نام نہ سنا ہو وہ وفاقی وزیر سائنس اور ٹیکنالوجی ہیں ان کو ہدایت جاری کر دی ہے کہ سائنسی تجربہ کر کے صبر کا پھل ایجاد کریں۔جب تک یہ پھل ایجاد نہیں ہوتا محض صبر پر اکتفا کریں۔میں اس شعر پر اپنی نصیحت ختم کرتا ہوں: چڑھتے دریا سے دشمنی لے کر شہر آباد بھی نہیں رہتے سندھ کے ایک وزیر نے کہا ہے کہ :پانی زیادہ آ جائے تو اسے لاٹھیاں مارو"۔۔۔۔انہیں کہنا چاہیے تھا کہ پانی کو کمرے میں بند کر دیں۔