شریف برادران کی گرفتاری کے بعد آصف زرداری کی اسیری متوقع تھی مگر نامعلوم وجوہات کے باعث ہماری سیاست جمود کا شکار ہوگئی ہے۔ سیاسی جمود کے باعث میڈیا ویران اور سیاسی مبصر پریشان ہیں۔ ہماری ملکی سیاست کا موجودہ منظر ایسا ہے جیسا یورپ اور کینیڈا میں پانی کے تالابوں اور جھیلوں کا جن کی سطح برف آب بن جاتی ہے مگر ان کے نیچے آبی زندگی رواں دواں رہتی ہے۔ جب کہ ہم اپنے ملک کے سیاسی جمود کے بارے میں یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ سیاست کے اس جم جانے والے پانی کے نیچے وہ فکری اور جذباتی بہاؤ موجود ہے یا نہیں؟ جو سیاست کا اصل حسن ہوتا ہے۔سیاست صرف نعروں کا کھیل تو نہیں ہے۔سیاست صرف پرچموں کی بہار تو نہیں ہے۔ سیاست صرف طاقت کا مظاہرہ تو نہیں ہے۔ سیاست کی اصل حقیقت تو یہ ہے کہ اس کے باعث اکثریت سکون کا سانس لیتی ہے۔ اشک بہاتی آنکھیں مسکرانے لگتی ہے۔بیماروں کو دوا اور بچوں کو کتاب ملتی ہے۔ معاشرے میں قانون کی حکمرانی قائم ہوتی ہے۔ عدم تحفظ کا احساس ختم ہوجاتا ہے۔ قوم کا سر فخر سے بلند کرنے کی قوت صرف اور صرف سیاست میں ہوتی ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ یہ اعتراف کرنے کو دل کرتا ہے کہ ہماری سیاست مجموعی طور پر اپنا وقار کھوچکی ہے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اب ہماری سیاست ایک عرصے سے کرپشن کے مقدمات کے گرد گردش کر رہی ہے۔ ہمارے سابق وزیر اعظم اور پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے سابق وزیر اعلی جیل میں ہیں مگر دنیا میں کوئی بھی انسانی حقوق والا ادارہ ان کو سیاسی قیدی نہیں مان سکتا۔ وہ اپنے منہ کچھ بھی کہیں مگران کے بارے میں خلق خدا کیا کہتی ہے؟ وہ بھی غائبانہ نہیں کہتی۔ سوشل میڈیا میں ہمارے سیاستدانوں کے بارے میں عوامی جذبات کا جو اظہار ہوتا ہے اس کی تفصیل ہم پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر پیش نہیں کرسکتے۔یہ ایک المیہ ہے کہ ہمارے ہاں جیلوں میں سیاسی جماعتوں سے وابستہ افراد اسیر ہیں مگر وہ سیاسی قیدی نہیں۔ ان پر بننے والے سارے مقدمات کرپشن اور بے ایمانی پر مبنی ہیں۔ جب قوم کے رہنما اس درجہ اخلاقی پستی میں گر جائیں تو پھر وہ قوم اقوام عالم میں کس طرح فخر سے سر اٹھائے؟ ایک وقت ایسا بھی تھا جب ہماری سیاست اقتدار کا کرپٹ کھیل نہیں تھی۔ وہ سب سے خوبصورت وقت تھا۔ اس وقت نہ صرف بائیں بازو کے بلکہ دائیں بازو کے لوگ بھی وہ سیاست کرتے تھے جس کا تعلق کتاب سے تھا۔ اس سیاست میں ایک عزم تھا۔ اس سیاست کا ایک آدرش تھا۔ اس سیاست میں علم بھی تھا۔ عمل بھی تھا۔ جذبہ بھی تھا۔اس سیاست میں عوام اور ملک سے محبت تھی۔ اس سیاست کا سر اپنی بے لوث محنت کے سبب اونچا تھا۔ مگر سیاست میں کرپشن کا دیمک کس طرح داخل ہوا؟ کس طرح کرپشن نے ملکی سیاست کو اندر سے کھوکھلا کردیا؟ یہ سازش کس کی تھی؟ یہ سانحہ کیوں ہوا؟ اس بارے میں بھی اب کسی کو سوچنے کی فرصت نہیں ہے۔وقت ہے کہ واقعات کا ہاتھ پکڑ کر مسلسل بہہ رہا ہے۔ تاریخ ہے کہ تعمیر ہونے کا نام نہیں لیتی۔ ہمارے سیاست صرف اقتدار حاصل کرنے کی کوشش بن گئی ہے۔ اس سیاست کے سینے میں کوئی احساس نہیںکہ ملک کا کیا ہوگا؟ عوام کی زندگی میں کس طرح انصاف کے ستارے چمکیں گے؟ کس طرح غربت کے باعث غریب گھروں کی بیٹیاں بغیر جہیز کے بوڑھی ہوجاتی ہیں۔ ان کے ہاتھوں پر مہندی نہیں سجتی۔ ان کی مانگ میں جھومر نہیں جھومتا۔ ان کی کانوں میں سونے کی بالیاں نہیں لہراتی اور ان کے بال چاندی بن جاتے ہیں۔ ہمارے لاکھوں بچے سکولوں سے دور ہیں۔ والدین اپنے معصوموں کو محنت کروانے پر مجبور ہیں۔ چھوٹی چھوٹی بچیاں چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے بڑے بڑے بنگلوں میں کام کرتی ہیں اور کبھی کسی بیگم صاحبہ کا موڈ آف ہوجاتا ہے تو میڈیا میں کسی بچی پر بہیمانہ تشدد کی خبر ہمارے قومی وقار کا مذاق اڑاتی ہے۔ شیکسپیئر نے کہا تھا کہ یہ دنیا ایک اسٹیج ہے اور ہم سب اداکار ہیں۔ انگریزی ادب کے عظیم ڈرامہ نگار اور شاعر کی اس بات سے کسی کو اختلاف بھی ہوسکتا ہے مگر اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہمارے ملک کی سیاست اس اسٹیج کے مانند ہے جس کے بارے میں شیکسپیئر نے لکھا تھا : Out, out, brief candle! Life's but a walking shadow, a poor player ہماری سیاست ایک موہوم روشنی والی موم بتی ہے۔ ہمارے سیاستدان اسٹیج پر بور کرنے والے کمزور اداکار ہیں! جب کوئی اجتماعی مقصد نہیں ہوتا۔ جب کوئی آدرش نہیں ہوتا۔ جب سیاست کے سینے میں کوئی اجتماعی تمنا نہیں تڑپتی تب سیاست جم جاتی ہے۔ ہم پر کسی غیر ملکی قوت نے سیاسی جمود مسلط نہیں کیا۔ ہم اپنا بویا کاٹ رہے ہیں۔ اس وقت ملکی کی ساری بڑی اور متوسط درجے کی جماعتیں گرگ آشتی کی طرح عمران خان کی حکومت کی کمزوری کا انتظار کر رہی ہیں۔ان کے پاس اور کوئی ایجنڈہ نہیں۔ ان کی سیاست اول اور آخر اقتدار ہے۔ اس لیے وہ منتظر ہیں کہ انہیں کب بلاوا آتا ہے۔ ان کے لیے اقتدار امور ریاست چلانے والی میز نہیں بلکہ وہ ٹیبل ہے جس پر طرح طرح کے لذیذ پکوان موجود ہیں۔ اگر اس ملک میں اچھی اور صحت مند سیاست ہوتی تو انتخابات کے بعد وہ اس طرح جمود کا شکار نہ ہوجاتی۔ انتخابات کے دوران تو ہماری سیاست اس ’’ککڑ‘‘ کی طرح ہوتی ہے جو بانگ دینے میں دن اور رات کا تفاوت نہیں رکھتا مگر انتخابات گزرنے کے بعد اس مرغ پر پانی پڑ جاتا ہے۔ پھر وہ دن میں تو کیا رات میں بھی آواز نہیں نکالتا۔ ہمارے سیاست میں خاموشی کا سبب کوئی خوف اور خطرہ نہیں ہے۔ ہماری سیاست میں خاموشی کا سبب صرف اور صرف سچائی کی غیر موجودگی کے باعث پیدا ہونے والا وہ جمود ہے جس نے پوری سیاسی ہلچل کو ختم کردیا ہے۔اگر اس سیاست میں نظریہ اور آدرش کی امنگ ہوتی تو وہ اقتدار کا کھیل کھیلنے کے بجائے ملک میں موجود عوامی فاصلے کم کرنے کی کوشش کرتی۔ وہ کوشش کرتی نئے خون کو سیاست میں لانے کی۔ مگر ہماری سیاست صرف خون بہانے کے بہانے تلاش کرتی ہے۔ یہ سیاست ایک ایسی چڑیل ہے جو پڑوس کا خیال بھی نہیں رکھتی۔ اس سیاست کے باعث ہمارے صوبوںکے درمیاں کشمکش کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہے۔ اس سیاست کی وجہ سے ہمارے ملک کی ہر حکومت کے ہاتھ میں قرض اور امداد کا کشکول نظر آتا ہے۔ یہ سیاست صرف اقتدار کا پتہ پوچھتی ہے۔ جب اقتدار کی طرف پیش قدمی رک جاتی تب اس سیاست کا سارا تحرک ختم ہوجاتا ہے۔ جب سیاسی تحرک ختم ہوجاتا ہے تب ایک بہت بڑا سیاسی جمود پیدا ہوجاتا ہے۔ اس سیاسی جمود کے دوران صرف جذباتی واقعات جنم لیتے ہیں۔ یہ منجمد سیاست کا منظر ہے کہ سیاسی تحرک کا نام و نشاںتک نہیں اور ساہیوال کی طرف جانے والی سڑک پر ایک دلخراش واقعے کے باعث تیزی سے بہتا ہوا وہ خون نظر آ رہا ہے؛ جس خون کی کوئی منزل نہیں!!