گائوں کے گائوں تباہ ہو گئے اور کسی کو نقصان کا احساس تک نہیں۔حفاظتی پشتوں کی تعمیر کے نام پر نہ جانے کس کس نے ووٹ لیے ،کتنے کتنے فنڈز جاری کرائے،کاغذوں میں پشتے مضبوط کیے گئے لیکن پانی کے ایک ہی جھٹکے میں پہلے یہ کچے حفاظتی بند اور پھر پورے پورے گائوں سیلاب میں بہہ گئے ۔ نہ جانے اربوں روپے کی کرپشن کرنے والوں کو مظلوموں کی آہ کیوں نہیں لگتی۔ یارو اور چھابری کے علاقے ڈیرہ غازی خان شہر سے محض آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔گزشتہ روز ہم وہاں پہنچے تو سیلاب آئے چھ روز ہو چکے تھے۔ اترنے کے بعد بھی پانی چار فٹ کی بلندی برقرار رکھے ہوئے تھا۔جگہ جگہ گائے بھینسیں پانی میں مری پڑی تھیں ،کچھ سڑک کنارے بھوک سے مر گئی تھیں ،اب ان کی لاشوں سے تعفن اٹھ رہا تھا۔جو جانور زندہ بچ گئے تھے وہ کچے راستوں پربے بسی کی تصویر بنے کھڑے تھے۔ قدرے بلند یہ گزر گاہیں ہی پورے گائوں میںوہ جگہ تھیں جو پانی سے سر باہر نکالنے میں کامیاب ہو پائی تھیں ۔زندہ بچ جانے والے جانوروں کو پانی سے نکال کر راستے پر کھڑا تو کر دیا گیا تھا مگر ان کے کھانے کو کچھ نہ بچا تھا۔ ان کے مالکوں کو لگتا تھا کہ ایک دو دن میں یہ سب بھوک سے بلک بلک کر مر جائیں گے۔ کیسی بے بسی کا عالم ہے۔ بھوک پانی میں ڈوبی منڈیروں پر چڑھ کر ناچ رہی ہے۔ گھروں میں قیمتی سامان سیلاب کی نذر ہو چکا ہے۔ ڈوبنے والے سامان میں سال بھر کے دانے بھی ہیں جو ابھی تین مہینے پہلے گندم کی کٹائی کے بعد محفوظ کئے گئے تھے۔جیسے مرگ والے گھر تین دن تک تنہائی ستاتی ہے نہ بھوک ۔ رشتہ داروں کے طرف سے خوراک کا انتظام بھی ہوتا رہتا ہے اور قریبی رشتہ داروں کی موجودگی سے حوصلہ بھی ملتا ہے ۔ ایسے ہی سیلاب زدہ افراد کی فی الحال کچھ نہ کچھ مدد شاید ہو بھی جائے لیکن اصل مسئلہ تب ہو گاجب سیلاب کا پانی اتر جائے گا، جب میڈیا والے گھروں کو چلے جائیں گے، ڈپٹی کمشنر کے سر سے چیف منسٹر کا عارضی دبائو ختم ہو جائیگا ،جب امداد کرنے والی تنظیمیں دیگر مسائل میں الجھ جائیں گی۔پھر ان لوگوں کو بے سروسامانی ستائے گی۔جب گھر کی ٹوٹی دیواریں اور دراڑ زدہ چھتیں خوف پیدا کریں گی۔جب سیلاب سے خراب ہو چکی گندم بھوک مٹانے کے قابل نہ رہے گی۔ جب ان متاثرین کے پاس جلدی بیماری میں مبتلا ہو چکے اپنے بچوں کے علاج کے لیے پیسے نہ ہوں گے۔ٹی وی ٹاک شوز میں اگلے انتخابات کا شور مچا ہو گا۔ کسی کی توجہ ان تباہ حالوں کی طرف نہ رہے گی۔ تب یہ تنہا بیٹھ کر ان حاکموں کو کوسیں گے جنہوں نے ان سے حفاظتی پشتے مضبوط کرانے کے وعدے پر ووٹ لیے تھے، فنڈز بھی جاری کرائے تھے لیکن پھر اپنی اولادوں کے لیے بڑے بڑے محل تعمیر کرا لیے۔تونسہ سے گزرتے ہوئے ہمارے رپورٹر نے ہمیں عثمان بزدار کا بڑا فارم ہائوس دکھایا جو حال ہی میںتعمیر کیا گیا ہے ۔ باہر جلی حروف میں لکھا ہے ’’بزدار ہائوس‘‘۔ آہ عثمان بزدار آہ، آپ بھی روایتی سیاستدان ہی نکلے ۔ بھر گڑی تونسہ کا ایک پسماندہ سا گائوں ہے،یہ عثمان بزدار کے آبائی گھر سے زیادہ دور نہیں ہے ۔ اس گائو ں کے مغربی جانب ایک بند موجود ہے جو کوہ سلیمان پر ہونے والی بارشوں اور سیلاب سے محفوظ بنانے کے لیے تعمیر کیا گیا ہے ۔ گائوں کے بزرگوں سے بچپن میں وعدہ ہوا تھا کہ اس بند کو مضبوط کیا جائے گا۔ جیسے ہی کوہ سلیمان پر ہونے والی بارشوں نے سیلاب کی صورت اختیار کی، یہ کچا بند گائوں کے قریب دو جگہ سے ٹوٹ گیا۔آن کی آن میں چھتیں زمین پر آ رہیں۔طاقتور سیلابی ریلا گھروں کا سامان تک بہا کر لے گیا ۔ میں اسی بھرگڑی گائوں میں موجود تھاکہ ایک بار پھر آسمان کو بادلوں نے آن گھیرااور زورزور سے گرجنے لگے ۔جب بارش نے اپنی آمد کے تمام امکانات ظاہر کردیے تو گائوں کے لوگ خوفزدہ ہو کر بند پر آ بیٹھے کہ پورے گاوں میں یہی ایک اونچی جگہ تھی۔ لوگوں کی آنکھوں میں خوف واضح تھا۔ انہیں ڈر تھا کہ زور دار بارش ہوئی تو پانی بند کے ٹوٹے راستوں سے دوبارہ گائوں میں داخل ہو گا اور بچی کھچی چیزیں بھی بہا لے جائے گا۔ دوسرا یہ کہ جس اونچی جگہ پر آ کر انہوں نے پناہ لی ہے وہی جگہ اگر سیلاب سے ٹوٹ گئی تو کوئی زندہ نہیں بچے گا۔ پاکستان میں ایک اور چلن بھی عام ہے ۔ سندھ ہو یا پنجاب ، ماضی میں بھی یہی دیکھا گیا ہے کہ وڈیرے اور بڑے زمیندار اپنی زمینیں بچانے کے لیے کٹ لگا کر پانی کا رخ تبدیل کر دیتے ہیں جس سے سیلاب غریب کسانوں کی زمینوں میں داخل ہو جاتا ہے ۔ اس سے ایوانوں میں بیٹھے عوامی نمائندوں اور ان کے خاندانوں کی زمینیں تو محفوظ رہتی ہے لیکن غریب کسان مارا جاتا ہے ۔ یہ تماشا ہم نے ڈیرہ غازی خان کے ایک دیہہ میں بھی دیکھا جہاں ایک مقامی سردار نے اپنی زمینیں بچانے کے لیے چار جگہ پر مشینیں لگا رکھی تھیں اور میڈیا کو بھاشن دیا کہ اس نے اپنی جیب سے عوامی فلاح کا منصوبہ شروع کر رکھا ہے۔ غریب کسان بیچارے یہ کھیل سمجھتے تو ہیں لیکن اپنے سردار کے سامنے زبان نہیں کھول سکتے۔ سیلاب ہو سکتا ہے ایک قدرتی آفت ہو لیکن اگر واٹر مینجمنٹ کے موثر انتظامات ہوں، اضافی پانی کو محفوظ کرنے کے لیے ڈیم بنائے گئے ہوں، نشیبی آبادیوں کے گرد بند باندھے گئے ہوں، بندکو مضبوط بنانے کے لیے مستقل اقدامات اٹھائے جاتے ہوں ، کرپشن کا ناسور ختم ہوجائے اور سیلاب پر سیاست کرنے کے بجائے اسے انسانی المیے کے طور پر دیکھا جائے تو قدرت کی طرف سے زیادہ بارشوں کی شکل میں آنے والے اس امتحان میں کامیاب ہوا جا سکتا ہے۔ لیکن افسوس کہ علاقے کے سیاستدانوں نے اپنے بزرگوں سے یہی سیکھا ہے کہ مال بنائو اور گھر جائو کیونکہ زندگی صرف سردار اور سردار زادے کی قیمتی ہوتی ہے ۔عام آدمی تو پیدا ہی سیلاب میں بہہ جانے کے لیے ہوا ہے ۔