سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کا اخبارات میں بیان شائع ہوا ہے کہ میں نے اپنے پردادا سید صدرالدین گیلانی کی کتاب مرتب کر لی ہے اور اسے اردو، عربی، فارسی میں شائع کرا رہا ہوں ، خبر پڑھ کر میں نے گیلانی صاحب کو ایس ایم ایس کیا کہ آپ اردو ،عربی اور فارسی میں کتاب شائع کرا رہے ہیں ، کیا ہی اچھا ہو کہ اردو عربی فارسی کے ساتھ سرائیکی میں بھی اس کی اشاعت ہوکہ سرائیکی آپ کی مادری زبان ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کے وسیع خطے کی زبان ہے اور چاروں صوبوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ میں نے یہ بھی لکھا کہ سیاسی ضرورت کے تحت کہا جاتا ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی کو سرائیکی ہونے کی سزا ملی جبکہ عملی طور پر وسیب کی زبان سے انس والا رشتہ نہیں ہے، بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ نہ صرف یہ کہ سید یوسف رضا گیلانی بلکہ وسیب کے جاگیرداروں ، تمنداروں اور گدی نشینوں کا وسیب سے دور دور تک کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بھرپور اقتدار کے باوجود یہ صاحبان وسیب کی زبان وثقافت کی ترقی کیلئے کچھ نہ کر سکے۔ ان کے مقابلے میں سابق وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی نے لاہور میں پنجابی زبان کی خدمت کیلئے پنجاب انسٹیٹیوٹ آرٹ کلچر اینڈ لینگویج (پلاک ) کا ادارہ بنایا ۔ ہمارے وسیب سے تعلق رکھنے والے با اثر سیاستدان جن کی کوٹھیاں ، بنگلے لاہور میں ہیں ، سرائیکی وسیب کو صرف بیگار کیمپ سمجھتے ہیں اور لوگوں کے پاس صرف ووٹ لینے آتے ہیں ۔ گزشتہ الیکشن کمپین کے دوران ہمارے ایک مخدوم صاحب کے ساتھ ان کے دو بیٹے بھی تھے ، وہ ووٹروں سے سرائیکی میں اور بیٹوں سے اردو میں گفتگو کر رہے تھے ۔وسیب کے ایک بزرگ کھڑے ہوئے اور دست بستہ عرض کیا کہ کیا آپ کے گھر میں اردو بولی جاتی ہے ؟ تو مخدوم صاحب نے شرمندہ ہوئے بغیر جواب دیا ’’ نہ سئیں نہ گھر اچ میں اپنْے نوکراں نال سرائیکی الینداں ‘‘ ( نہ صاحب نہ میں گھر میں اپنے ملازموں سے سرائیکی میں بات کرتا ہوں ) ۔ یہ رویہ ہے ان کا اپنی ماں بولی کے ساتھ۔ ووٹروں کی بہتری کا خاک سوچیں گے؟ سید یوسف رضا گیلانی کی کتاب کے ذکر سے مجھے یاد آیا کہ ان کی کتاب ’’ چاہ یوسف سے صدا‘‘ 2006ء میں شائع ہوئی ۔ بعد ازاں اس کی مزید ایڈیشن بھی شائع ہوئے۔ سید یوسف رضا گیلانی نے کتاب کا انتساب کچھ خاموش اکثریت کے نام کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب تک یہ نہ بولیں گے ، حیات جرم اور زندگی وبال رہے گی ، یہ ٹھیک ہے کہ انہوں نے بہت اچھی بات لکھی مگر عملی زندگی میں ایسا کیوں نہیں، کتاب میں ان کے خاندانی پس منظر اور سیاسی کامیابیوں کا تذکرہ انگریز دور سے لیکر آج تک موجود ہے ۔ مگر کسی ایک جگہ بھی نہیں لکھا ہوا کہ ان کے خاندان کے کسی فرد نے صوبہ ملتان یا وسیب کے تہذیبی آثار ، زبان و ثقافت اور وسیب کے حقوق کی بات کی ہو ۔ کتاب میں کچھ تاریخی باتیں غلط لکھی گئی ہیں جیسا کہ صفحہ 16 پر لکھا ہوا ہے کہ سردار ہری سنگھ نے ہیرا سنگھ کے ساتھ ملکر 1763 ء میں حملہ کیا ، مسلمانوں کے گھر جلا دیئے ، مسجدوں کو مسمار کر دیا اور 1764ء میں ملتان کے حکمران مظفر خان سے لاکھوں تاوان وصول کیا ۔ جبکہ حقیقت یہ کہ اس وقت نواب مظفر خان نہیں ان کے والد نواب شجاع خان کی حکومت تھی ، نواب شجاع خان 1778ء میں فوت ہوئے تو ان کی وفات کے بعد نواب مظفر خان ملتان کے فرمانروا مقرر ہوئے ۔ اسی صفحے پر سید یوسف رضا گیلانی نے لکھا کہ 1947ء میں تقسیم ہندو پاک کے بعد صوبہ ملتان پنجاب میں شامل ہوا ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 2 جون 1818ء کو رنجیت سنگھ نے صوبہ ملتان پر قبضہ کیا مگر ملتان کی صوبائی حیثیت برقرار رکھتے ہوئے دیوان ساون مل کو ملتان کا صوبیدار بنایا ، ساون مل کے بعد اس کا بیٹا مولراج صوبیدار بنا ، 1849ء میں انگریزوں نے ملتان پر جب حملہ کیا تو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ، زبردست حملے کے بعد انگریزوں نے 1849ء میں صوبہ ملتان پر قبضہ کرکے اسے پنجاب میں ضم کر دیا ۔ سید یوسف رضا گیلانی نے صفحہ 17 پر لکھا ہے کہ یہاں کی علاقائی زبان سرائیکی ہے ، جس پر سندھی زبان کا گہرا اثر ہے ۔ یہ بات خلاف واقعہ ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف وسیب بلکہ سندھ کی بھی اصل سرائیکی ہے اور سندھ کی اکثریت نہ صرف سرائیکی زبان بولتی ہے بلکہ حضرت سچل سرمست ؒ سمیت سندھ کے اکثر شعراء نے سرائیکی میں شاعری کی ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ سندھی کا سرائیکی پر اثر نہیں بلکہ سندھی زبان پر سرائیکی کے انمٹ نقوش اب تک موجود ہیں ۔ سید یوسف رضا گیلانی کی جو اچھائی ہے ، اسے ہر شخص تسلیم کرتا ہے ، سید یوسف رضا گیلانی 1983ء میں سب سے پہلے چیئر مین ضلع کونسل بنے تو انہوں نے غریبوں کو ملازمتیں دیں ، دوسرے مواقع پر ایسا کرنے کے ساتھ ساتھ 1993ء میں سپیکر قومی اسمبلی بنے تو انہوں نے تھوک کے حساب سے ملازمتیں دیں اور ان کے خلاف احتساب عدالت میں ملازمتیں دینے کا مقدمہ بنا تو انہوں نے کہا کہ ملازمتیں دینا جرم ہے تو میں اس جرم کا اعتراف کرتا ہوں اور آئندہ بھی جب مجھے موقع ملے گا ، میں یہ جرم کرتا رہوں گا ۔ وزیر اعظم بنے تو دوسرے جاگیرداروں کی نسبت اپنے وسیب میں بھرپور ترقیاتی کام کرائے۔ البتہ وسیب کی زبان و ثقافت کی ترقی کیلئے انہوں نے کوئی ادارہ نہ بنایا اور نہ ہی قابل ذکر تعلیمی ادارے قائم کرا سکے۔ ہمارے مطالبات اور درخواستوں کے باوجود خواجہ فرید کے نام پر کسی روڈ کا نام نہ رکھا جا سکا، ہم نے یہ بھی کہا تھا کہ جس طرح اسلام آباد میں بھٹائی آڈیٹوریم موجود ہے ، اسی طرح خواجہ فرید آڈیٹوریم بھی بنایاجائے مگر ہماری ان درخواستوں پر کوئی توجہ نہ دی گئی۔