Mother's day یعنی مائوں کا دن آیا اور گزر گیا۔ اکثر لوگوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق یہ دن منایا۔ میں تو اپنی ماں کو روز یاد کرتا ہوں۔ میرا معمول ہے کہ میں مغرب کی نماز کے بعد ان کے لیے سورۃ الملک تلاوت کرتا ہوں۔ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ جانے کے بعد بھی میری رہنمائی کرتی ہیں۔ غالباً بائیس یا تئیس رمضان کو آج سے چھ سال قبل ان کی وفات ہوئی مگر وہ اپنے ہونے کا احساس قدم قدم پر دلاتی ہیں۔ غلط کام پر وہ بے دھڑک روک دیتیں اور اچھے کام کی ترغیب دیتیں۔ ان کی کسی بات پر میں مسکرا بھی دیتا ہوں۔ وہ یونیورسٹی آئیں تو ایک لڑکی کو روک کر کہنے لگیں ’’بیٹا دوپٹہ سر پر لے لو۔‘‘ اس لڑکی نے شرماتے ہوئے حکم کی تعمیل کرلی۔ میں نے جھنجھلا کر کہا ’’امی آپ کیا کرتی ہیں، یہ لڑکیاں بے لحاظ ہوتی ہیں۔‘‘ کہنے لگیں ’’اس نے تو بات مان لی، تم ہی بکواس کر رہے ہو۔‘‘ میں مسکرا کر خاموش ہو گیا۔ ہائے مائیں کتنی کھری، سچی اور معصوم ہوتی ہیں۔ ہمارے دور میں تو یہ مدر ڈے نہیں تھا۔ آج ہی دیکھتا ہوں کہ میرے بچے اس دن سے آشنا ہیں۔ کل جب میں گھر آیا تو دیکھا میرے بچے میری بیگم کی سیوا کر رہے ہیں۔ بڑا بیٹا اس کے لیے کیک لے کر آیا، میری بیٹی خدیجہ ایک سوٹ لائی، منجھلا بیٹا اپنی پاکٹ منی سے چاکلیٹ پیکٹ لایا اور سب سے چھوٹا بیٹا جو حافظ بن رہا ہے پورے اہتمام کے ساتھ کیک کھانے کے لیے بے تاب تھا۔ مجھے یہ سب اچھا لگا۔ نئی نسل میں محبت کا یہ احساس کتنا بھلا لگتا ہے۔ آج بیگم صاحبہ فرحت و انبساط سے سرشار نظر آ رہی تھی۔ یعنی اپنے بچوں کے درمیان وہ ایک گونہ مسرت محسوس کر رہی تھی۔ خاص بات یہ کہ بچوں کی یہ تربیت بھی اسی کے باعث ممکن ہو سکی۔ وہی نپولین بونا پارٹ نے کہا تھا کہ ’’تم مجھے اچھی مائیں دو، میں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔‘‘ گویا بچے کا ہر دن ماں ہی سنوار رہی ہوتی ہے۔ کبھی میں اس چیز کا مشاہدہ کرتا ہوں تو مجھے بیگم پر ترس آتا ہے او رپیار بھی۔ خاتون خانہ صبح تا شام کام کرتی ہے۔ پانچ بچوں کا سارا کام وہ اپنے ہاتھوں انجام دیتی ہے۔ ان کے لیے تین وقت کھانا بنانا، ان کے سکول اور کالج بھیجنے کی ذمہ داری، ہر دوسرے دن واشنگ مشین لگا کر کپڑوں کی پنڈ کی پنڈ دھونا۔ اگر کام والی نہیں آئی تو گھر کی صفائی، نمازی ہونے کے باعث وہم کہ کام والی کپڑے ٹھیک سے پاک نہیں کرے گی۔ ان سے ہٹ کر بچوں کو نماز کے لیے کہنا، یہ سارے مستقل کام ہیں۔ کبھی جب وہ میری ڈومین کی طرف رخ کرتی ہے تو میں بیٹھا مطالعہ کر رہا ہوتا ہوں ۔ وہ بعض اوقات بچوں سے اکتائی ہوئی بولنے لگتی ہے کہ آپ نے بیٹھ بیٹھ کرصوفوں کی گدیاں بٹھا دی ہیں۔ ہر طرف کاغذ اور کتابیں بکھری پڑی ہیں، کوئی آ جائے تو کیا کہے؟ میں کہتا ہوں کونسے صوفے، میں تو صرف ایک صوفے پر بیٹھتا ہوں۔ کاغذ پنکھے کی وجہ سے اڑ گئے وغیرہ وغیرہ۔ آپ خود سوچئے کہ ایک شاعر کے پاس سلیقہ مندی کہاں، اس کے پاس تو پریشاں خاطری ہے۔ ایک دن میں نے اپنی بیگم سے کہا کہ میری شاعری کے تراجم لندن سے کوئی کر رہا ہے۔ انتہائی تعجب سے بولی کیا؟ میں نے کہا کبھی میر کو پڑھو وہ کہتا ہے: پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے لیجئے مجھے اچانک اپنا شعر یاد آیا: شہرت کے ساتھ ساتھ بڑھا ہے یہ اضطراب گمنام سا وہ شخص ہمیں مانتا نہیں خیر بتانا میں یہ چاہتا تھا کہ گھر میں بچوں کی رونق میں ان کی ماں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ میرا بڑا بیٹا عمر بن سعد سوات سے آیا تو اس نے بریف کیس سے دو سوٹ نکالے، ایک میری والدہ اور دوسرا میرے والد کو دیا کہ وہ ان کے لے لایا تھا۔ میری والدہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ کہنے لگیں، اللہ تیرا شکر کہ میرے بیٹے نے اپنے بچوں کی تربیت اتنی اچھی کی کہ وہ اپنے دادا اور دادی کا خیال رکھتے ہیں۔ مفت میں ہی میری تعریف ہو گئی۔ میری والدہ کہتیں، انہیں مجھ سے کچھ نہیں چاہیے، وہ میرے منہ پر داڑھی دیکھنا چاہتی ہیں۔ ایک دن میں نے انہیں داڑھی رکھ کر خوش کردیا۔ ایک تقدس اور پاکیزگی سی مجھے اس وقت گھیر لیتی ہے جب ان کا کہا ہوا جملہ میرے کانوں میں گونجتا ہے۔ بیٹا! میں نے تجھے وضو کر کے دودھ پلایا ہے، اس کا خیال رکھنا۔ تب میں نے ایک مرتبہ بے اختیار کہا: میں جہاں کہیں بھی بھٹک گیا وہیں گرتے گرتے سنبھل گیا مجھے ٹھوکروں سے پتہ چلا مرا ہاتھ ہے کسی ہاتھ میں ایسے نہیں کہا گیا کہ ماواں ٹھنڈیاں چھاواں۔ دھرتی سے محبت کا اظہار بھی دھرتی ماں کہہ کر کیا جاتا ہے۔ سب سے بڑے نقصان پر بھی تو یہی کہا جاتا ہے۔ فلاں کی ماں ہی مر گئی۔ اچھا ہو یا برا، پورا معاشرہ ہی ماں سے جنم لیتا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ منبع وہی ہے۔ شراب کو ام الخبائث یعنی برائی کی ماں کہا گیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے تہذیب اور انسانیت کا دارومدار ماں پر ہی ہے۔ ماں ایک مدرسہ ہے، ماں بچوں کے بارے میں متعصب ہوتی ہے تو اس کے خمیر میں ہے: اپنے بچوں کا ہر اک جرم چھپا لیتی ہے اک عدالت بھی نہیں ماں کی عدالت جیسی ماں کے قدموں کے نیچے تو جنت ہے ہی ہے، اس کی وجہ سے گھر بھی جنت ہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ اس ممتا کو بہت زیادہ سراہنا چاہیے۔ مدر ڈے ایک اچھا عمل ہے۔ ایک یاددہانی ہے اور اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ یہ ایک ہی دن ماں کا ہے۔ ہر دن ماں کا دن ہے۔ جس کو وہ اپنے بچوں پر خرچ کرتی ہے، وہ اس پیڑ کی طرح ہے جس کے بارے میں کسی نے کہا تھا: دوجوں کو سایہ بخش کے خود دھوپ میں جلے کبھی کبھی مجھے ان مائوں کا خیال بھی آتا ہے جو کارخانوں میں کام کرتی ہیں اور مزدوری کرتی ہیں۔ بعض نے تو اپنی پشت پر جھلوگنا بنا کر اس میں بچے کو ڈالا ہوتا ہے۔ میں نے ایک مرتبہ ملتان کی ڈاکومنٹری بنواتے ہوئے ایک خاتون کو مشین چلاتے دیکھا، جس کے ساتھ اس نے کپڑے کے جھولے میں اپنے بچے کو ڈالا ہوا تھا۔ ایک ہاتھ سے وہ مشین چلا رہی تھی، دوسرے ہاتھ سے جھولے کو ہلا رہی تھی۔ شاید ان مائوں کی زندگی میں مدر ڈے نہیں آتا۔ معاشرہ اس جانب توجہ دے تو کیا بات ہے۔ مدر ڈے پر بھی کام کرنے والی ماسیاں اسی طرح تپڑی پھیر رہی ہوتی ہیں، کسی نے بجا کہا: دنیا میں مجھے جو بھی ملا اس سے ملا ہے سب کچھ یہ میری ماں کی دعائوں کا صلہ ہے میرا دل چاہتا ہے کہ میں اپنے کالم کا اختتام اعجاز کنور راجہ کے خوبصورت شعر سے کروں: تمام رات میری ماں کے ساتھ ساتھ کنور کھلے کواڑ میرا انتظار کرتے ہیں