سینٹ کے ٹکٹوں میں آخر وقت تک ردوبدل بتاتا ہے کہ سیاسی جماعتیں سوچ سمجھ کر معاملات کو طے کرنے کی روش ترک کر چکی ہیں۔ جن اپوزیشن جماعتوں کے پاس زیادہ ووٹ نہیں اور وہ بڑی جماعتوں کی اتحادی کے طور پر ان انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں ان کے پاس محدود آپشن ہیں لیکن برسراقتدار تحریک انصاف اور اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ نون ،پیپلز پارٹی نے امیدواروں کے انتخاب کا معاملہ اس طرح طے کیا کہ خود ان جماعتوں کے اندر سے کئی فیصلوں پر ناراضی کا اظہار سامنے آیا۔ سینٹ انتخابات کے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا مرحلہ مکمل ہو گیا ہے۔ 170 امیدواروں نے کاغذات جمع کروا کر ایوان بالا کے لیے دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ کاغذات کی جانچ پڑتال کا مرحلہ شروع ہوچکا ہے۔ امیدواروں کے کوائف کی پڑتال کے لیے نیب‘ ایف آئی اے‘ ایف بی آر اور سٹیٹ بینک کو تفصیلات بھیج دی گئی ہیں۔ جونہی یہ مرحلہ مکمل ہوا امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کردی جائے گی۔ اس دوران سیاسی جماعتیں اپنے امیدواروں کا اعلان کرسکتی ہیں‘ جو لوگ کاغذات نامزدگی واپس لینا چاہیں گے وہ بھی الیکشن کمیشن کو باضابطہ آگاہ کرسکیں گے۔ تمام مراحل بخیرو خوبی انجام تک پہنچنے کے بعد آئندہ ماہ کے آغاز میں قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اراکین چھ سال کے لئے سینٹ کے نصف اراکین کا انتخاب کریں گی۔وطن عزیز کی سیاسی جماعتیں عشروں سے سیاست کر رہی ہیں۔ لگ بھگ تمام چھوٹی بڑی جماعتوں کو اپوزیشن اور حزب اقتدار کے طورپرکام کرنے کا موقع ملتا رہا ہے۔ یہ جماعتیں عشروں کی سیاست کے باوجود اب بھی مکمل جمہوری تنظیمیں نہیں بن سکیں۔ ہر جماعت کا سربراہ ایک مخصوص خاندان سے لیا جاتا ہے۔ سربراہ کے انتقال کے بعد پارٹی کا کوئی لائق اور سینئر رکن سربراہ نہیں بنتا بلکہ انتقال کر جانے والے سربراہ کا بیٹا یا بیٹی پارٹی کا قائد چن لیا جاتا ہے۔وراثتی سربراہی کی اس روش نے سیاسی جماعتوں کے داخلی ڈھانچے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اب وفاداری یا دوستی کو میرٹ سمجھا جاتا ہے ،اسی میرٹ کو سامنے رکھ کر فیصلے ہوتے ہیں۔کئی جماعتوں نے تو ایسے لوگ بھی اہم پارٹی عہدوں پر لا بٹھائے جن کا سیاست سے لینا دینا نہیں‘ وہ پارٹی قائد کے کاروباری شراکت دار سے سیاسی شراکت دار بن جاتے ہیں۔ کہنہ مشق اور تجربہ کار سیاسی جماعتوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ صرف عام انتخابات کے لیے تیاری نہیں کرتیں‘ جمہوریت میں پورا نظام کئی سطح پر جمہوری سرگرمیوں کی انجام دہی میں مصروف رہتا ہے۔ پارٹی کے تنظیمی انتخابات‘ بلدیاتی انتخابات‘ اسمبلیوں کے لیے ووٹنگ‘ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کا انتخاب‘ صدر سپیکر اور چیئرمین سینٹ کا انتخاب‘ پھر سینٹ انتخابات۔ جمہوری معاشروں میں سال دو سال کے بعد کوئی نہ کوئی انتخابی یا رابطہ عوام سرگرمی وقوع پذیر رہتی ہے۔ اچھی سیاسی جماعت وہی ہوتی ہے جو عمدہ تنظیمی صلاحیت کا اظہار کرے۔ تنظیم ناقص ہونے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جماعت لوگوں میں مقبولیت کھونے لگتی ہے۔ مقبولیت میں کمی کے آثار نمودار ہوتے ہی اپوزیشن یا پھر دوسری سیاسی و غیر سیاسی قوتیں پیدا شدہ خلا کو بھرنے کے لیے آ جاتی ہیں۔ ماضی گواہ ہے کہ کئی بڑی جماعتیں خود کو اچھی تنظیم نہ بنا سکیں اور عوام کی حمایت سے محروم ہوتی چلی گئیں۔1973ء کے آئین کے تحت پاکستان میں دو ایوانی مقننہ ہے۔ ایوان زیریں یا قومی اسمبلی کے اراکین براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں۔ ایسے لائق اور مفید افراد جو ریاست کو معاملات کی ادائیگی میں مدد فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر عوامی سیاست میں بوجوہ حصہ لینا پسند نہیں کرتے ان کے لیے سینٹ کی بالواسطہ رکنیت کا راستہ نکالا گیا۔ یہ عمدہ طریقہ ہے۔ بہت سے ماہرین تعلیم‘ صحت‘ مالیات‘ تجارت‘ قانون‘ سائنس و ٹیکنالوجی اور خارجہ تعلقات کے استاد سیاسی جماعتوں کا ٹکٹ پاتے ہیں اور دوبارہ منتخب ہونے یا نہ ہونے کے خوف سے آزاد ہو کر اپنی استعداد کے مطابق قانون سازی میں حصہ لیتے ہیں۔ امریکہ کا سینٹ اور برطانیہ کا ہائوس آف لارڈز اسی اصول پر کام کرتا ہے۔ سینٹ سنجیدہ اور ماہر نمائندوں کا ایوان ہے اس لیے ہر سیاسی جماعت کھیل و تفریح اور ثقافت سے لے کر معاشی شعبے کے ماہرین تک کو اس کا رکن منتخب کروانے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ اراکین تکنیکی امور پر اپنی جماعت کا موقف زیادہ بہتر اور درست انداز میں پیش کرتے ہیں۔پاکستان کے جمہوری نظام کو دو طرفہ دبائو کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فوجی آمروں نے جمہوریت کا بستر گول کیا اور سیاسی قائدین نے خود جماعتی اور قومی سطح پر جمہوری و آئینی اقدار کا مذاق اڑایا۔ ووٹوں کی خریدوفروخت کی داستانیں شرمناک ہیں‘ جو جماعتیں ان سرگرمیوں میں ملوث رہیں اور جو سیاستدان اس عمل کا حصہ رہے انہوں نے آج تک شرمندگی کا اظہار کیا نہ عوام سے معافی مانگی۔ سینٹ انتخابات سر پر ہیں‘ معاملات حتمی مراحل میں داخل ہو چکے ہیں لیکن امیدواروں کا ردوبدل بتا رہا ہے کہ سیاسی جماعتوں نے سینٹ انتخابات کی تیاری نہیں کی تھی۔ شروع میں سفارش‘ اقرباپروری اور مالی تعاون کے حامل افراد کو ٹکٹ دیئے گئے۔ عوام کی تنقید کے بعد کچھ امیدوار بدل دیئے۔ ہر کام بے دلی‘ ذاتی مفادات اور جمہوریت دشمن انداز میں کیا جاتا ہے۔ جمہوری استحکام مستحکم فیصلوں سے پھوٹتا ہے۔ یہ بات حزب اقتدار اور حزب مخالف کو سمجھ کر اپنے فیصلے کرنا چاہئیں۔