سپریم کورٹ نے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر پاکستان تحریک انصاف سے بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے متفقہ فیصلے میں کہا کہ پاکستان جمہوریت سے وجود میں آیا ،یہاں آمریت نہیں چل سکتی،سپریم کورٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے الیکشن درست نہ کرانے پر پی ٹی آئی سے انتخابی نشان واپس لیا۔عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کے خلاف بد نیتی اور امتیازی سلوک کے الزامات بھی مسترد کر دیئے۔قبل ازیں پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ قانون کے مطابق الیکشن کمیشن کو پارٹی انتخابات میں مداخلت یا اس کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں۔ انتخابات کے حتمی مراحل میں داخل ہونے سے قبل پارٹی سے انتخابی نشان واپس لینا پی ٹی آئی کے لئے ایک دھچکا ثابت ہوا ہے۔پورے ملک میں پی ٹی آئی امیدواروں کو اب مختلف نوع کے انتخابی نشانات کے ساتھ انتخابات میں حصہ لینا پڑ رہا ہے۔اس سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اپنا داخلی ڈھانچہ جمہوری بنانے پر توجہ دینا چاہیئے۔سیاسی جماعتوں کو خاندانی اور وراثتی بنیادوں پر استوار نہیں ہونا چاہئے ۔جناب چیف جسٹس نے جس اصول کی بنیاد پر پی ٹی آئی کے پارٹی الیکشن کالعدم قرار دئیے ہیں وہ جمہوریت اور شفافیت ہے۔اس لحاظ سے دیکھا جانا چاہئے کہ ملک کی اکثر جماعتیں جمہوری اقدار و روایات سے انحراف کر کے خاندانی آمریت کا شکار ہو چکی ہیں۔باپ کے بعد بیٹا یا بیٹی پارٹی سربراہ بن جاتا ہے۔اس نظام نے ملک کو جمہوری طور پر پسماندہ بنایا ہے۔شخصیت پرستی قانون و آئین سے بالا ہو چکی ہے۔قانون کی بات ہوتی ہے تو پارٹی اپنی لیڈر شپ کے خلاف کسی کارروائی کو تسلیم نہیں کرتی۔پی ٹی آئی کی طرح بہت سی جماعتیں ماضی میں اسی وجہ سے انتقامی سیاست کا شور مچا کر جرائم میں ملوث اپنی قیادت کا دفاع کرتی رہی ہیں۔پارٹی تنظیم میں لوگوں کو سیاسی شعور اور ملکی مسائل حل کرنے کی صلاحیت کی بنیاد پر عہدے نہیں ملتے بلکہ ذاتی وفاداروں کواہم عہدوں پر نامزد کیا جاتا ہے۔سیاسی جماعتوں کے داخلی ڈھانچے میں موجود اس خرابی کو دور کرنے کا مطالبہ عوامی سطح پر تسلسل سے دہرایا جاتا رہا ہے لیکن یہ المیہ ہے کہ کوئی سیاسی جماعت خود کو جمہوری بنانے پر سنجیدہ نہیں، وہ جماعتیں بھی جو آئندہ انتخابات میں اپنے انتخابی نشان کے ساتھ میدان میں اتر رہی ہیں۔ چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ قانون پسند حلقوں کے لئے طمانیت کا باعث ہے۔اس سے امید پیدا ہوئی ہے کہ آئندہ سیاسی جماعتیں اپنے داخلی انتخابات کو شفاف بنانے پر توجہ دیں گی ورنہ یہی اصول کسی بھی جماعت کو انتخابات سے باہر کر سکتا ہے۔الیکشن کمیشن ، عدالت عظمیٰ اور دیگر ذمہ دار ادارے بار بار کہہ رہے ہیں کہ انتخابات شفاف ہوں گے۔جن لوگوں کے خلاف کوئی قانونی شکایات نہیں وہ انتخابات میں حصہ لے سکیں گے اس کے باوجود حالیہ انتخابی عمل مشکلات کا شکار دکھائی دے رہا ہے۔مسلم لیگ نون کی طرف سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ اسے اگلی حکومت سونپی جا رہی ہے۔ یہ تاثر لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے۔گویا خود مسلم لیگ یہ اعلان کر رہی ہے کہ آئندہ انتخابات شفاف نہیں ہوں گے اور اسے حکومت دینے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ جب سے انتخابات کا اعلان ہوا ہے مسلم لیگ نون کے سوا تمام جماعتیں لیول پلئینگ فیلڈ کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ درمیان میں درپیش صورتحال میں اہم کردار سمجھے جانے والے مولانا فضل الرحمان خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں شدید سردی کو جواز بنا کر انتخابات کچھ مدت کے لئے ملتوی کرنے کی تجویز دے رہے ہیں۔ان امور کو پیش نظر رکھیں تو غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے جسے بہرحال رفع ہونا چاہئے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے پی ٹی آئی کے انتخابی نشان پر فیصلہ آنے کے بعد باقی جماعتوں سے یہ تقاضا زور پکڑ رہا ہے کہ وہ ریاست پاکستان کو درپیش مشکلات کو مدنظر رکھ کر انتخابی منشور متعارف کرائیں۔ کیا ستم ہے کہ انتخابی عمل حتمی مرحلے تک آپہنچا لیکن بڑی جماعتیں ابھی تک اپنا منشور سامنے نہیں لا سکیں۔زبانی طور پر سبھی کہتے رہے ہیں کہ پاکستان سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے، معاشی بحران ہے، ملک ڈیفالٹ کی حالت تک آ گیا ہے، بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے، موسمیاتی تبدیلیاں وقفے وقفے سے تباہی لارہی ہیں،دنیا آئی ٹی سے اربوں دالر کما رہی ہے پاکستانی قوم آٗی ٹی کی سرمایہ کاری کی بجائے منڈی بن رہی ہے،مستقبل خلائی ٹیکنالوجی پر استوار ہو رہا ہے لیکن پاکستان ابھی تک قابل قدر کام نہیں کر سکا،زراعت تباہ ہو چکی ہے کوئی اس کے مسائل سمجھنے کو تیار نہیں۔قومی یکجہتی داو پر لگ چکی ہے، پاکستان مسلسل دہشت گردی سے لڑ رہا ہے مگر سویلین قیادت اپنی ذمہ داریاں سمجھنے پر تیار نہیں سارا بوجھ مسلح افواج اور عسکری قیادت پر ڈال دیا جاتا ہے۔الیکشن میں حصہ لینے سے پہلے سیاسی جماعتوں کو بتانا چاہئے کہ ملک کی بہتری کے لئے ان کے پاس کیا منصوبہ ہے۔جب تک سیاسی جماعتیں اپنا داخلی ڈھانچہ مضبوط نہیں کرتیں، ملک کو ترقی یافتہ بنانے کے لئے منصوبہ بندی نہیں کرتیں اور وراثتی شکنجوں سے آزاد ہو کر باصلاحیت افراد کو قیادت نہیں سونپتیں بہتری کی امید نہیں کی جاسکتی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کا حالیہ فیصلہ کہنے کو صرف تحریک انصاف کے انتخابی نشان کی بابت ہے لیکن اس کے اثرات عدلیہ، الیکشن کمیشن اور مستقبل کے انتخابی نظام پر دور رس ہو سکتے ہیں۔