شورش اوربغاوت کو ہوا دے کرکس طرح مغربی سامراج مسلمان ملکوں کو تباہ و برباد کرتا ہے اِس کی ایک بڑی مثال بحیرۂ روم کے مشرق اور عرب کے انتہائی شمال میں واقع ملک شام ہے۔سوا دو کروڑ آبادی کے اس ہنستے بستے ملک کو امریکہ اور یورپ نے جس بے دردی سے ملیا میٹ کیا‘ یہاں کے لوگوں کو خانماں برباد کیا وہ ایک عبرت ناک داستان ہے۔ آٹھ سالہ خانہ جنگی میں پانچ لاکھ سے زیادہ شامی جان کی بازی ہار چکے ‘ شام کی نصف سے زیادہ آبادی بے گھرہوچکی ہے۔ ساٹھ لاکھ سے زیادہ لوگ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوکر پرائے ملکوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں‘ اتنے ہی لوگ بے گھر ہوکر اپنے ہی ملک میں در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ پورا ملک ملبہ کا ایک ڈھیر بن چکا ہے‘ مکانات‘ اسکول‘ ہسپتال اور دیگر لازمی شہری سہولیات مکمل یا جزوی طور پرتباہ ہوچکی ہیں ۔ پچپن فیصد آبادی بے روزگار ہے‘ دو تہائی سے زیادہ آبادی غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ ترکی میں تیس لاکھ سے زیادہ‘ یورپ میں دس لاکھ سے زیادہ شامی پناہ گزین ہیں۔ لبنان کی ایک چوتھائی آبادی شامی مہاجرین پر مشتمل ہے۔جنگ و جدل اب بھی جاری ہے۔ افغانستان اور عراق کو تخت و تاراج کرنے کے بعد امریکہ نے دو ہزار گیارہ میںشام میں خانہ جنگی کو ہوا دی۔ امریکی اور یورپی امداد سے چلنے والی این جی اوزنے شام میں بشار الاسد حکومت کے مخالفین کوبھڑکانے‘ منظم کرنے کا کام بہت عرصہ پہلے شروع کردیا تھا۔دیگر عرب ملکوں کی طرح شام میں بھی جمہوریت نہیں تھی۔ علوی اقلیت سے تعلق رکھنے والے بشار الاسدسنّی اکثریت کے ملک پر آمرانہ طور پر حکومت کررہے تھے۔ تاہم ان کا مختلف سنّی قبائل سے بھی اتحادتھا ۔ دروزاقلیت اور عیسائی آبادی بھی اُن کی حامی تھیں۔ لبرل عناصرنے عوام کو بشار الاسد کی آمریت کو ختم کرکے جمہوریت کے سہانے خواب دکھا ئے ‘کچھ گروہوں نے فرقہ وارانہ عصبیت اُبھارنے کا کام کیا۔ جب اسد حکومت کے خلاف احتجاج شروع ہوا تو انہوں نے لچک اور مفاہمت کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ مخالفین کو بہت سختی‘ بے رحمی سے کچلنے کی کوشش کی۔ جب احتجاج زور پکڑ گیا تو اسد نے مخالفین کو راضی کرنے کیلئے کچھ سیاسی اصلاحات کیں لیکن اب دیر ہوچکی تھی۔مظاہرین کی قیادت ایسے لوگ کررہے تھے جن کی ڈوریں سامراجی ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ہاتھوں میں تھیں۔ امریکہ نے باغیوں کو انسانی ہمدردی کے نام پر مالی امداد فراہم کرنا شروع کردی۔ چند ماہ میں ہی احتجاجی مظاہرے مسلح بغاوت میں بدل گئے۔باغیوں نے آزاد شامی فوج قائم کرنے کا اعلان کردیا۔ فرانس‘ برطانیہ‘ سعودی عرب‘ ترکی اورقطر نے کھل کرباغیوں کی حمایت کی۔ خانہ جنگی شرع ہوگئی۔ امریکہ نے اپنے عرب اتحادیوں کے تعاون سے شامی باغیوں کوجدید ترین اسلحہ اوراسے استعمال کرنے کی تربیت دی۔ مشرقی یورپ کے ممالک جیسے بلغاریہ سے کمرشل فضائی پروازوں کے ذریعے شام کے باغیوں کو اسلحہ پہنچایا گیا۔ اسد حکومت کے مخالفین خصوصاً کردوں کی مدد کے لیے امریکی انٹیلی جنس سی آئی اے نے بہت بڑے پیمانے پر آپریشن کیے۔ بیرونی امداد صرف کردوں تک نہیں پہنچی بلکہ اسد حکومت کے خلاف منظم ہونے والے شدّت پسند گروہوں جیسے داعش اور القاعدہ سے منسلک تنظیموںجیسے النصرہ کو بھی جدید ترین اسلحہ فراہم کیا گیا۔باغیوں کے تین بڑے گروہ تھے ۔داعش‘ کرد اور آزاد شامی فوج، جنہوں نے شام کے بڑے علاقوں پر قبضے تو کرلیے لیکن دمشق فتح نہیں کرسکے۔ دو ہزار سترہ‘ اٹھارہ میں امریکہ‘ فرانس اور برطانیہ نے اسد حکومت کے ٹھکانوں پر فضائی بمباری بھی کی لیکن اُسے ختم نہیں کرسکے۔امریکہ نے آزاد شامی فوج کی مدد کے لیے اپنی فوج بھی شام میں تعینات کی۔ شام میں مغربی سامراج کی مداخلت کا ایک بڑا مقصد یہ تھا کہ شام میں ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کرکے اسرائیل کے اثر و رسوخ کو مشرق وسطیٰ میں وسعت دی جائے ۔ ایرانی حکومت شام کے ذریعے لبنان میں اسرائیل مخالف تنظیم حزب اللہ کو مددفراہم کرتی ہے ‘ اس راستے کو کاٹا جائے۔ لیکن سامراج یہ مقصد حاصل نہیںکرسکا۔ روس اور ایران نے اسد حکومت کو بچانے اور اس کے مخالفین کو شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ روس کی فضائیہ نے شامی باغیوں پر بمباری کی جبکہ ایران کے تربیت یافتہ ملیشیا اورلبنان کی حزب اللہ زمینی فوج کے طور پر اسد حکومت کی مدد کرتے رہے۔آہستہ آہستہ اسد حکومت نے باغیوں سے بیشتر علاقے خالی کروالیے۔ اب ترکی سے ملحق اِدلب صوبہ کے سوا سارے شام پر اسد حکومت کا قبضہ ہے۔گزشتہ برس امریکہ اپنے حامیوںخصوصاً کردوں کو بے یار و مددگار چھوڑ کر شام سے بھاگ گیا۔ سامراج شام کے حصّے بخرے کرکے اس کے شمال مشرق میں اپنے پرانے اتحادی کُردوں کا ایک خود مختارعلاقہ بھی قائم کرنا چاہتا تھا جو امریکی اور اسرائیلی اڈوں کا مرکز بن سکے لیکن ترکی نے یہ پلان ناکام بنادیا۔ترکی کے لیے قابل قبول نہیں کہ اس سے ملحق علاقہ میں کُردوں کی ایک خود مختار حکومت بن جائے کیونکہ شام کے کرد اور ترکی کے علیحدگی پسند کرد آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ ترکی نے ابھی تک کردوں پر بڑا فوجی حملہ نہیں کیا لیکن اس کی فوجیں شام کے اندر تک داخل ہوچکی ہیں۔ کردوں کو اب ترکی سے مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔ امریکی شہہ پر جو شامی حکومت کے خلاف لڑ رہے تھے وہ کرد اب مدد کے لیے اسد حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ خانہ جنگی کا سب سے زیادہ فائدہ داعش اور القاعدہ سے منسلک تنظیموں نے اُٹھایا ۔ انہوں نے شام کے وسیع علاقہ پر اپنی حکومت قائم کرلی تھی لیکن اب داعش شام میں شکست سے دوچار ہوچکی ہے ۔ تاہم القاعدہ سے منسلک ایک شدت پسند تنظیم تحریر الشام اب بھی شمال مغرب میں واقع اِدلب صوبہ پر قبضہ کیے ہوئے ہے۔ روس نے دمشق اور انقرہ کی حکومتوں کواِدلب میں سیز فائر پر راضی تو کیا تھا لیکن وقفہ وقفہ سے فریقین میں لڑائی ہوتی رہتی ہے۔ امن کا قیام دُور دُور تک نظر نہیں آتا۔شام میں سامراج کو صرف ایک مقصد میں کامیابی ملی کہ ایک خوشحال مسلمان ملک جو امریکہ کے دائرہ ٔاثر میں نہیں تھا اُسے مٹی کا ڈھیر بنادیا گیا۔نام نہاد جمہوریت پسند عناصر توفساد کی چنگاری بھڑکا کر اپنے خاندانوں سمیت یورپ بھاگ گئے اور آرام دہ زندگی گزارنے لگے جبکہ شام کے عام لوگ مسلح تنظیموں اور داخلی جنگ و جدل میں خانماں برباد ہوگئے۔