ایک تصویر ہے شہید باپ اور نومولود بیٹی کی آخری ملاقات کی، لیکن اس تصویر کو خشک آنکھ سے دیکھا نہیں جا سکتا۔ جب بھی اس پر نگاہ پڑتی ہے ایک ٹیس سی دل میں اٹھتی ہے اور دور تک آنسوئوں کی ایک دھند پھیل جاتی ہے اور پھر یہ منظر دھندلا جاتا ہے۔ دھندلائے ہوئے اس منظر کو بیان کرنا اور لکھنا اتنا آسان نہیں لیکن پھر میں اور کیا لکھوں۔ کل سے یہ تصویر آنکھ میں نمی بن کے اتری ہوئی ہے۔ ایک گہری اداسی نے شہر جاں میں بسیرا کر رکھا ہے۔ ایک مسلسل زرد اداسی اور آنسوئوں سے دھندلایا ہوا منظر۔ ایسے میں خاموشی ہی اظہار کا طاقتور ذریعہ ہوتی ہے لیکن ہم جو لکھاری ہیں اور لکھ کر اپنے مافی الضمیر کو بیان کرتے ہیں کبھی کبھی ایسی صورت حال ہوتی ہے کہ حرف بھی آنسوئوں میں گیلے ہو جاتے ہیں اور کچھ سمجھ نہیں آتا کہ اندر کے کرب کو کیسے لکھیں۔ کہاں سے وہ لفظ لائوں جو اس منظر کو بیان کر سکیں کہ ایک ننھی نومولود بیٹی، اپنے شہید بات کو الوداع کر رہی۔خبر ہے کہ شہید عباس کی ننھی پری ابھی چند روز کی ہے۔ نجانے باپ نے اپنی بیٹی کو اس سے پہلے دیکھا بھی تھا کہ یہی پہلی ملاقات ہے۔ فرائض منصبی کے تقاضے بعض اوقات بڑے سخت ہوتے ہیں اور پھر وطن کی حفاظت کا فریضہ اس کے اپنے تقاضے اور اصول ہیں۔ اس کی راہ میں تو وطن کے بیٹے اپنے پیاروں کو خاطر میں لاتے ہیں اور نہ رشتوں کو آڑے آنے دیتے ہیں اور پھر جب وطن بلاتا ہے تو ہر وابستگی سے ناتا توڑ کر وطن کی آواز پر لبیک کہتے ہیں۔ وطن بلائے تو سوچنے کا مقام کیا ہے۔؟ سو شہید عباس کو بھی وطن نے پکارا تھا۔ وہ دہشت گردوں سے بہادری سے لڑتا ہوا شہید ہوا۔ گوادر کے پنچ ستارہ ہوٹل میں ہونے والی حالیہ دہشت گردی میں ہری پوری کا نیوی آفیسر عباس شہید ہوا۔ اس سانحے میں پنچ ستارہ ہوٹل کے ملازمین بھی شہید ہوئے۔ تفصیلات اخبارات اور میڈیا میں آ چکی ہیں۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں میں بلوچستان میں دہشت گردی کے چار پانچ واقعات ہوئے ہزارہ برادری کے لوگ مارے گئے مسافروں کو بس میں گولیاں مار دی گئیں اور اب گوادر کے لگژری ہوٹل میں ہونے والا سانحہ جس میں نیوی کا آفیسر عباس بھی بہادری سے لڑتا ہوا شہید ہوا۔ شہید عباس کے جسدِ خاکی کو گوادر سے ہری پور لایا گیا۔ تو علاقے کے لوگ جنازے میں امڈ آئے۔ شہید کے جنازے کے سارے منظر ہی ایمان افروز اور رقت آمیز ہوتے ہیں لیکن ایسا منظر کب کسی نے دیکھا ہو گا کہ شہید باپ کے ساتھ اس کی نومولود لخت جگر کو لٹایا گیا کہ لو بیٹا رانی بابا سے آخری ملاقات کر لو۔!شہید باپ کے پہلو میں بیٹھی ہوئی ننھی سی گڑیا، ابھی جسے زندگی کی دہلیز پر قدم رکھے ہوئے چند روز ہوئے ہیں۔ ابھی وہ بے خبر ہے کہ ہنگامہ ہائے روز و شب کیا ہیں۔ ہجر کیا ہے وصال کیا ہے۔ زندگی کیا ہے۔ موت کیا ہے۔ ملنا کیا ہے اور بچھڑنا کیا ہے۔ ابھی تو چند روز ہوئے کہ زندگی نے اپنی نرم موندی ہوئی پلکوں کو کھول کر آس پاس کچھ مہرباں چہروں کو دیکھا ہو گا۔ رخصت کرنے کی باری تو ملاقات کے بعد آتی ہے۔ ابھی تو ننھی معصوم بیٹی کی بابا سے ملاقات بھی کہاں ہوئی تھی۔ تقدیر نے اس کا ننھا منا ہاتھ زندگی کے ہاتھ میں دیا اور اس کے پیارے بابا کو عدم کا مسافر بنا دیا۔ بے شک قرآن کا وعدہ ہے کہ اور وہ شہید زندہ ہیں تم انہیں مردہ نہ کہو بے شک تمہیں اس کا شعور نہیں۔! خالقِ حقیقی جانتا ہے کہ انسان کا شعور ہی اتنا کوتاہ ہے۔ ہم اسی کے بنائے ہوئے ہیں۔ وہ ہمارے شعور کی کمزوری اور کوتاہی کا رازداں ہے تو اس نے کہا کہ تم شہید کو مردہ نہ کہو تمہیں اس کا شعور نہیں!ہم اپنے تمام تر ناقص شعور کے ساتھ شہید کے جانے کا ماتم کرتے ہیں۔ ہم زندگی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے، زندگی کے تقاضوں کو سوچتے ہیں تو لامحالہ خیال جاتا ہے کہ یہ ننھی بیٹی جسے قدم قدم پر باپ کی ضرورت ہو گی وہ اپنے ساتھ اپنے شہید باپ کو کہاں پائے گی! چند روز کی نومولود بچی نے تو ابھی باپ کی محبت کو دیکھا تک نہیں۔ باپ کی انگلی کا سہارا لیا ہے اور باپ کے کاندھوں پر چڑھ کر زندگی کا نظارا کیسا ہوتا ہے۔ میں پھر اس تصویر پر نگاہ ڈالتی ہوں۔ منظر پھر دھندلا جاتا ہے۔اللہ اللہ ایک جانب شہید ہے کہ جس کے خون کا پہلا قطرہ زمیں پر گرتے ہی اس کی زندگی تمام گناہ پاک ہو جاتے ہیں اور اس کے درجات بلند ہو جاتے ہیں اور دوسری جانب چند روز کی ایک فرشتوں جیسی ننھی بچی۔ ایک پاکیزہ منظر مجھے فیض کا یہ شعر یاد آیا ہے۔ ادائے حسن کی معصومیت کو کم کر دے گناہگار نظر کو حجاب آتا ہے! سو ہم زندگی میں گوڈے گوڈے لتھڑے ہوئے گناہگاروں کی نظر کو حجاب آتا ہے اور آنسوئوں کا پردہ حجاب بن کر درمیان میں اتر آتا ہے۔ کبھی مجھے افتخار عارف کا شعر یاد آتا ہے۔ جو باپ اور بیٹی کے درمیان محبت اور احساس کے لازوال تعلق کو بیان کرتا ہے ؎ گڑیوں سے کھیلتی ہوئی بیٹی کی آنکھ میں آنسو بھی آ گیا تو سمندر لگا مجھے پھر مجھے آئرش شاعر ڈبلیو بی بیٹس کی ایک نظم یاد آتی ہے۔ A Prayer for my daughter۔جھولے میں پڑی ننھی بیٹی کو دیکھ باپ کا دل خدشوں اور وسوسوں سے بھر جاتا ہے تو اپنی بیٹی کے لیے دعا کرتا ہے کہ اتنی مضبوط بنے کہ زندگی کے طوفانوں کا مقابلہ بہادری سے کر سکے لیکن یہاں تو معاملہ برعکس ہے۔ بابا عدم کے سفر پر روانہ ہو رہے ہیں بابا کی ننھی گڑیا شہید بابا کے پہلو میں لیٹی ہوئی ایک آخری ملاقات کرتی ہے۔رخصت کرنے سے پہلے چند لمحے باپ کے جسد خاکی کے سائے میں گزارتی ہے۔ منظر دھندلا جاتا ہے اور میاں محمد بخش کے لازوال فقرے ذہن میں گونج اٹھتے ہیں۔ باپ سراں دے تاج محمد تے ماواں ٹھنڈیاں چھاواں باپ مرے سر ننگا ہوندا ویر مرے کنڈ خالی ماواں بعد محمد بخشا کون کرے رکھوالی