گزشتہ کئی ماہ سے جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے نتیجے میں ملک کے اندرآزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے امکانات تو بہت پہلے ہی دھندلا چکے تھے۔بد قسمتی سے انتخابی نشان کا فیصلہ آنے کے بعدمتاثرہ فریق تو کیا، غیر جانبدار اور متوازن سوچ کے حامل مبصرین بھی فروری کی مشق کواب ’انتخابات ‘ ماننے کے لئے تیارنہیں ۔ سب سے بڑی بد قسمتی اور ہم جیسوں کے لئے دکھ کا سبب یہ امر ہے کہ اس سب کا’ بینیفشری‘ تو کوئی اور ہے مگر غیر جمہوری کاروائیوں کا سارا بوجھ کسی اور کے کندھوں پر پڑرہا ہے۔ اندھیرے میں امید کی کوئی کرن اگر باقی ہے تو یہی احساس ہے کہ جنہیں خدا نے اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا ہے، وہ اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہیں۔ ایسا ہو نہیں سکتا کہ جو سامنے دیوار پر لکھا ہم آپ جیسوں کو صاف دکھائی رہا ہو وہ ان کی نظروں سے اوجھل رہے کہ جن کے پاس دیکھنے ،سننے ، پرکھنے اور عمل کرنے کے ذرائع اور وسائل باقیوں سے بہت بڑھ کر ہیں۔گزشتہ ہفتے میں اگر کچھ اچھا ہوا ہے تو ہماری مقتدرہ کی جانب سے اوپر تلے متعدد درسگاہوں سے بلائے گئے طلباء کے ساتھ گفت وشنید کا اہتمام کیا جانا ہے۔ ان مجالس کی جزئیات سے متعلق سوشل میڈیا پر حسبِ توقع قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ ہمیں ان مجالس کی روداد یا نتائج سے کوئی سروکار نہیں۔ ہمارے نزدیک ان نشستوں کا محض برپا کئے جانا ہی ایک اہم اور درست سمت کی جانب پہلا قدم ہے۔ لگ بھگ چھ برس قبل ، از کارِ رفتہ سپاہی نے بندوق دیوار کے ساتھ ٹانگی تو قلم سنبھالا۔یہ وہ وقت تھا جب مڈل کلاس کے اندر روایتی خاندانوں سے بیزاری کی تحریک اپنے عروج پر تھی ۔یہ کسی ایک فرد کی جانب سے اٹھائی گئی ’نفرت کی سیاست‘ کا شاخسانہ نہیں بلکہ اُس غبار کا نتیجہ تھی جو عشروں کی ناکامیوں اور محرومیوں نے سینوں میں بھر دیا تھا۔ تحریکیں افراد نہیں اٹھایا کرتے بلکہ تحریکیں افراد کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر اپنا رہبر و رہنماء منتخب کر لیتی ہیں۔ برسوں پہلے پاکستان کی محدود مڈل کلاس کے خواتین و حضرات کی اٹھائی گئی اس تحریک میں ایک وقت آیا کہ دورافتادہ علاقوں کا عام آدمی بھی شامل ہوگیا۔ سمندر پار پاکستانی اپنے دیس سے کیسے لاتعلق رہ سکتے تھے؟ ہزاروں لاکھوں غازی اور شہداء کے خاندان ہیںکہ ازکارِ رفتہ سپاہی انہی کے بیچ رہتا ہے۔جس امر نے لیکن سب کچھ بدل کر رکھ دیا وہ کروڑوں نوجوانوں کی سیاسی منظر نامے پر آمد تھی۔ مالی کرپشن کس ملک میں نہیں ہوتی؟مگر کیا ہندوستان یا بنگلہ دیش کے حکمرانوں کا بھی کوئی دوسرا وطن ہے ؟ صاف دکھائی دینے لگا کہ پاکستانی اب چند خاندانوں کی نسل در نسل حکمرانی قبول نہیں کریں گے۔ قومی ادارے قومی امنگوں سے تا دیر لاتعلق کیسے رہ سکتے ہیں؟حکمران خاندانوں نے مگر قومی اداروں کو ہی اپنا دشمن سمجھ لیا۔تیزی کے ساتھ بدلتے ہوئے ان حالات میں ازکارِ رفتہ سپاہی نے قلم اٹھایا تو اس وقت چھائی مخاصمت کی فضاء میںاس وقت کے حکمرانوں سے اداروں کے ساتھ مخاصمت کی بجائے انہیں گلے لگانے کی التجا کی۔ دو قسطوں میں چھپنے والے کالم کا یہی عنوان تھا۔ پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا ۔اب مورخ ہی گزرے برسوں پر کچھ لکھے گا۔ سال 2020ء میں جب پانسہ پلٹ رہا تھا تو انہی صفحات پر گزارش کی گئی کہ جن سوشل میڈیا اکائونٹس کی بابت آپ قوم کو بتا رہے ہیں کہ اس نیٹ ورک کے ڈانڈے سرحدوں کے پار جا ملتے ہیں، ان کے خلاف سب سے بڑی’ فائر وال ‘کروڑوں نوجوان پاکستانی ہیں۔ سال 2021ء کے اواخر میں یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا کہ لندن میں جو کھچڑی مبینہ طور پرپک رہی ہے اس کے نتیجے میں با شعور مڈل کلاس پاکستانیوں اور بالخصوص نوجوانوں کے اندر جو اُبال اٹھے گا اُس کی نوعیت ایک خاندان کی طرف سے برپا کی جانے والی نفرت انگیز مہم سے کہیں بڑھ کر زہر آلود ہو گی۔ اپریل 2022ء کی وہ کیا ایک رات تھی کہ پاکستانی تڑپ کر سڑکوں پر نکل آئے۔ صاف دکھائی دینے لگا ، اندازے کی بہت بڑی غلطی کہیں ہو چکی ہے۔جن کے حق میں لوگ نکلے تھے، وہ بھی شسدر رہ گئے۔ طاقت کا احساس کسی بھی شکل میں ہو ، بالآخرگھمنڈ میں بدلتا ہے۔ غیر متوازن سوچ کا سبب بنتا ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اُس کے بعد تین بڑی غلطیاں کی گئیں، قومی اسمبلی کو چھوڑنا، صوبائی حکومتوں کو توڑنا اور ادارے کے خلاف کھڑے ہونا۔ ہم کہتے ہیں غلطی ایک ہی تھی۔ باقی سب کڑیاں ہیں، جو ایک کے بعدایک جڑتی چلی گئیں۔ادارے کے ساتھ مخاصمت کی پالیسی وہی روش تھی کہ جس پر نظر ثانی کی درخواست ازکارِ رفتہ سپاہی نے قلم سنبھالتے ہی اُس وقت کے حکمرانوں سے کی تھی۔غلطی نہیں ، غلطی پر اصرار میں ہلاکت ہے۔ ادارے کا غم و غصہ قابلِ فہم تھا۔ خوف کی مگر ’شیلف لائف‘ ہوتی ہے۔ خاکسار کی نظر میں احداف کافی حد تک حاصل ہو چکے۔اب شہر اجاڑنا لازم نہیں۔ آخر کار یہ سب اپنے ہی لوگ ہیں۔اب ان کے زخموں پر مرہم پٹی کی ضرورت ہے۔ اب دامن پر لگے دھبوں کو دھونے کی ضرورت ہے۔ برسوں پہلے ہم نے حکمرانوں سے درخواست کی تھی کہ اداروں کو گلے لگانے کی ضرورت ہے۔ آج ہم عوام کی بھاری اکثریت کی بابت یہی التجا کرتے ہیں ۔ نوجوانوں کے ساتھ نشست درست سمت میں ایک قدم ہے۔ ضروری ہے کہ زندگی کے دیگر شعبوں سے وابستہ پاکستانیوں سے بھی تعلق بلا کسی تفریق و تعصب جوڑا جائے۔سمندر پار پاکستانیوں پر طعن و تشنیع اور انہیں ہراساںکرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ سابق فوجیوں کی صفوں میں موجود ادارے کی حرمت کے کچھ’ خود ساختہ محافظ‘ ہمہ وقت خوف اور بدگمانیاں پھیلاتے رہتے ہیں۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان میں سے بہت کم ہیں جو کسی مفاد یا سیاسی وابستگی سے اوپر اٹھ کرایسا کر رہے ہوں۔ یہ وقت ہے کہ احمق دوستوں سے بچا جائے۔از کارِ رفتہ سپاہی کی یہ سوچی سمجھی رائے رہی ہے کہ عوام کی بھاری اکثریت ہر مشکل وقت میں افواجِ پاکستان کی پشت پر کھڑی ہوگی۔ایک برادر ہمسایہ ملک کے ساتھ حالیہ تلخی کے دوران عوامی ردعمل نے ایک بار پھر اِس امر کی گواہی دی ہے۔ ضروری ہے کہ عوامی احساسات کو سنا اورامنگوں کو سمجھا جائے۔ وہ موقع پرست جو آج جمہوری عمل کی بے وقعتی کو خاموشی سے دیکھ رہے ہیں، کہ جو بھی ہو بدنامی کسی اور کے کھاتے میں جا رہی ہے ، ان سے خیر کی توقع رکھنا عبث ہے۔ مفادات کو زک پہنچی تو پلٹ کر حملہ آور ہوں گے۔دوسرے گروہ پر سختیوں کے نتائج سامنے آرہے ہیں۔ کیا ہی بہتر ہو اب قومی ہم آہنگی کی طرف بڑھا جائے۔ ہم جانتے ہیں کہ اپنی ہی سرزمیں پر کسی ’کائنیٹک آپریشن‘کے بعد ’دل و دماغ کو جیتنے‘ والی ایک مہم ضروری ہو جا تی ہے۔