یقین نہیں آتا کہ سینئر صحافی شجاعت بخاری کو دن دھاڑے سری نگر میں شہید کردیا گیا۔وہ کشمیر کے ہی نہیں بلکہ اس خطے کے ایک بڑے شہ دماغ قلمکار تھے۔ صحافی اور تجزیہ کار تو بہت ہوتے ہیں شجاعت بخاری کا دل اپنے لوگوں کے لیے دھڑکتاتھا۔وہ کشمیر میںجاری تشدد اور قتل و غارت کی محض خبریں نہیں چھاپتے تھے بلکہ حالات کو بدلنے کی بھی کوشش کرتے۔ کشمیر پر ہونے والی ہر پیش رفت سے نہ صرف باخبر ہوتے بلکہ حالات کے سدھار کے لیے سرگرم بھی ۔ اسی درد دل نے انہیں تنازعات کے پرامن اور مذاکرات کے ذریعے حل کا علمبردار بنایا۔ گزشتہ اٹھاربرس کی رفاقت کے دوران میںنے انہیں درجنوں نہیں سینکڑوں فورمز پر سنا ۔ وہ اعتدال اور استدلال کے ساتھ بات کرنے عادی تھے۔ان کی گفتگو سامعین پر سحر طاری کردیتی۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے نئی آراء تلاش کرنے اور خطے کی ترقی اور خوشحالی کی تجاویز دیتے۔لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف سیاستدانوں، صحافیوں اور دانشوروں کے درمیان معلومات کے تبادلے کی اہمیت اجاگر کرتے۔ ہر فورم پر بھارت کو یاددلاتے کہ کشمیریوں کو تشدد اور زور زبردستی سے جھکایا نہیں جاسکتا۔اکثر کہتے کہ پاکستان کے مذاکراتی عمل میں شامل ہونے سے ہی الجھی ہوئی گتھی سلجھ سکتی ہیں۔وہ بھارت کے اندر دستیاب ہر فورم پر پوری قوت سے اپنا نقطہ نظر پیش کرتے جو عوامی جذبات کی عکاسی کرتا ۔یادرہے کہ شجاعت بخاری نفرت اور جنگ وجدل کا سوداگر نہیں تھا۔ وہ دونوں ممالک کی قربت یا مذاکرات کی بحالی کو کشمیریوں کے لیے فائدہ مند تصور کرتے۔موقع ملتا توپاکستان ضرور آتے ۔ درجنوں صحافیوں، دانشوروں اور پاکستانی سیاستدانوں سے ان کی گہری دوستیاں استوار ہوئیں لیکن وہ کبھی بھی کشمیر پر پاکستان کی ’’سرکاری‘‘ ٹیم کا حصہ بنے اور نہ کبھی اس کی خواہش ظاہر کی۔ شجاعت بخاری کو تحریر اور تقریر کے فن پر عبور حاصل تھا۔ چنانچہ رفتہ رفتہ ان کے حریفوں میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ کاروباری مسابقت بھی تھی لیکن آزادی کے علمبرداروں کا بھی ایک طبقہ انہیں ناپسند کرتا۔وہ صرف یہ چاہتے کہ کشمیر کے حوالے سے جو بھی کونپل پھوٹے وہ ان کے گملے کی ہونی چاہیے۔ کوئی نیا آئیڈیا یا گفتگو کا نیا رنگ ڈھنگ انہیں بھاتانہیں۔ کشمیر چونکہ ایک تصادم زدہ علاقہ ہے لہذا وہاںہر سرگرمی کو شک کی نظر سے دیکھاجاتاہے۔معاشرے کے فعال طبقات میں حریفانہ چشمک بہت ہے۔ خفیہ ایجنسیاں اپنا اپنا کھیل کھیلتی ہیں۔ لوگوں کو مہروں کے طور پر ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتی ہیں۔ یہ تصور بھی محال ہے کہ اپنے بل بوتے پرکوئی شخص معاشرے میں ممتاز و معتبرمقام حاصل کر سکتا ہے۔ شجاعت بخاری بتدریج مطلع صحافت پر طلوع ہوئے اور پھر چھا گئے۔جلد ہی دشمنوں کی آنکھ میں کانٹا بن کر کھٹکنے لگے۔ دوبئی میں کنٹرول لائن کے دونوں اطراف کے سیاستدانوں کی ایک کانفرنس گزشتہ برس کیاہوئی کہ ریاست جموں وکشمیر کے طول وعرض میں نکتہ چینی اور کردار کشی کی ایک مہم رواں ہوگئی۔دوبئی کانفرنس سے کچھ عرصہ قبل ایک دن شجاعت بخاری نے سری نگر سے فون کیا کہ سرکاری ذرائع نے انہیں خبردار کیا ہے کہ آپ کو ’’ٹھکانے ‘‘ لگانے کا حکم مل چکاہے۔ گزشتہ تین چار ماہ سے سوشل میڈیا پر ان کے خلاف ایک گمراہ کن مہم چل رہی تھی کہ وہ بھارت کے مختلف اداروںکے لیے کام اور تحریک کی صفوں میں انتشار پیدا کرتے ہیں۔ اسلام آباد میں بھی بعض لوگ ایسی باتیں کرتے ہوئے پائے گئے لیکن کسی کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا۔ ایک جگہ میں نے کہا کہ شجاعت بخاری کا دل چیر کر ہم نے نہیں دیکھا کہ اس کے اندر کیا ہے لیکن جس بھی محفل میں انہیں سنا انہوں نے کشمیریوں کی امنگوں کی ترجمانی کی۔ شجاعت بخاری کے خلاف پروپیگنڈے کے معماروں اور پیادوں کا نام یا چہرہ کبھی سامنے نہ آسکے۔وہ گمنام فیس بک اکاؤنٹ سے کردار کشی کی بھرپور مہم چلاتے رہے ہیں اور غالباً اب کسی دوسرے ہدف کے تعاقب میں ہوں گے۔تحقیقات کرائی گئی تو پتہ پڑا کہ ان میں بعض اسلام آباد اور راولپنڈی میں مقیم ہیں۔ کافی دنوں سے شجاعت بخاری اصرارکر رہے تھے کہ آپ پاکستان میں سرکاری اداروں کو متوجہ کریںکہ کچھ لوگ میرے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ شہادت والے دن انہوں نے دن کو پیغام بھیجا کہ ایک فیس بک آئی ڈی چیک کرانی ہے۔ بے غرضی سے جواب دیا کہ بھیج دینا۔ خیال تھا کہ عید کی چھٹیوں کے بعد دیکھ لیں گے۔سری نگر میں ہی نہیں بلکہ بھارت کے طول و عرض میں لوگ ان کے ٹوئٹر پر بے لاگ تبصروں سے سخت شاکی تھے۔ انہوں نے سری نگر میں ایک فوجی جیپ کے نیچے کچلے گئے نوجوان کی تصویر ٹوئٹ کی تو بھارت میں کہرام مچ گیا۔ سینکڑوں لوگوں نے ان کے خلاف بھڑاس نکالی کہ وہ علیحدگی پسندوں کے لیے دل میں نرمی رکھتے ہیں۔ انشا اللہ‘ شجاعت بخاری کے قاتل ایک دن اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے ۔سوچتاہوں کہ ایسے لوگوں کو پکڑنے اور سزادینے سے کیا حاصل جومحض پیادے ہیں ۔دوٹکے کی خاطربے گناہ لوگوںکا خون بہاتے ہیں۔ انہیں نہیں معلوم کہ برسوں کی محنت اور ریاضت سے مقام حاصل کرنے والے افراد معاشرے کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔انہیں بارود سے لت پت نہیں کرتے۔ ضرورت ان قاتلوں اور ان کے سرپرستوں کو تلاش کرنے اور سزادینے کی ہے جو اس نوع کے قتل کے لیے سازگار ماحول تیارکرتے ہیں۔ استدلال کے میدان میں مقابلہ آرائی کے بجائے چھپ کر وار کرتے ہیں۔کردارکشی کی مہم چلاکر دوسروں کے سر قلم کرادیتے ہیں۔ شجاعت بخاری کا ذکر ہی کیا کشمیر میں درجنوں شہ دماغ شہید کیے گئے۔ ان کے قاتلوں کا سراغ ملا نہ سازشوں کا تانابانا بننے والوں کا محاسبہ کیا جاسکا۔ آج شجاعت کو شہید کیا گیا کل کسی اور کا نمبر نکل آئے گا۔ جو لوگ آج خاموشی کی چادر اوڑھے بیٹھے ہیں کل کلاں وہ بھی اپنے کندھوں پرنعشیں اٹھائے قبرستان کی جانب رواں دواں ہوں گے۔ یہ وقت ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں اپنے اپنے طور پر شجاعت بخاری کے قاتلوں اور اس قتل کی سازش کرنے والوں کی کھوج لگائیں۔ اگر ضرورت ہو تو معلومات کا تبادلہ بھی کریں۔ راولاکوٹ میں جہاں رہتاہوں وہاں سے سری نگر اب پانچ گھنٹوں سے زیادہ کا سفر نہیں لیکن کنٹرول لائن ایک ایسی دیوار برلن ہے جس سے صرف سر ٹکرا یاجاسکتاہے ۔اسے عبور نہیں کیاجاسکتا۔ہماری بے بسی دیکھیں کہ ہم اپنے دوستوں اور رشتے داروں کا آخری دیدار بھی نہیں کرسکتے۔ اپنے پیاروں کے جنازے کو کندھا تک نہیں دے سکتے۔انہیں مالک دوجہاں کے سپرد بھی نہیں کرسکتے۔