کیا عالم اسلام اور کیا،کیا اس کے حکمران!ایک ہجوم مومناں پر مسلط امریکہ نوازوں کا ٹولہ جو ابھی تک غزہ میںبہتے لہو کو دیکھ رہا ہے لیکن ٹس سے مس نہیں ہوا۔ شاید یہ اپنے عقیدے اور ایمان کی شناخت اور معلومات سے ہی بے بہرہ ہیں ۔یہ جانتے ہی نہیں کہ اس کائنات میں انہیں خلیفہ الٰہی بنا کر بھیجا گیا ہے ۔مسلم حکمرانوں کی اکثریت یہ جانتی ہی نہیں کہ کفر کے سامنے سر نگوں ہونا شیطان کے آگے سجدہ کرنے کے مترادف ہے ۔ امریکی درندوںکے خوف نے ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کر رکھاہے ۔مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے اور ان کے عقائد اور ایمان کو متزلزل کرنے کے لیے امریکہ نے جھوٹے پروپیگنڈے کا طوفان اٹھا رکھا ہے ۔ اسلام کا منفی امیج پیش کرنے کے لیے سارے وسائل جھونک دیے گئے ہیں ۔دنیا بھر میں ’’ اسلامی بنیاد پرستی ‘ مسلم انتہاپسندی ‘اسلامی دہشت گردی ‘‘ جیسے موضوعات اور عنوانات پر کتابوں اور مضامین کا ایک سیلاب ساامڈاہوا ہے ۔ہزاروں ٹیلی ویژن چینلز دن رات اسلام کو جنگ جو ‘ جھگڑالو اور لڑاکا مذہب ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں جب کہ مسلم دنیا پر سکوت مرگ طاری ہے۔ان کے حکمران امریکہ کی چاکری میں ہلکان ہو رہے ہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کو عالم اسلام پر یورش کرنے کا بہانہ ہاتھ آ گیا ۔امریکہ ایک طرف مسلمان ممالک کے تیل کے خزانوں پر متصرف ہونا اور دوسری جانب انہیں اپنی غلامی کا شکار کر کے ان کے عقائد و نظریات میں نقب لگانا چاہتا تھا ۔ نائن الیون کے بعدپورا عالم اسلام ہی امریکی جبر وقہرکے نشانے پر تھا ‘ افغانستان اور عراق جیسے کمزور ممالک براہ راست انتقام کا نشانہ بنے اور آج بھی امریکی غارت گری کے نرغے میں ہیں ۔ان ممالک کے لاکھوں انسان اپنے ہی وطن میں در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوئے۔ افغانستان اور عراق کے باہر بھی اسلامی دنیا کی حالت قابل رشک نہ رہی ۔عالم اسلام کے حکمران امریکی استعمار کی جارحیت سے زیادہ متاثر نہیں ہوئے ‘ وہ خود بھی مغربی تہذیب کے فرزند تھے اور ان کے پر جوش تعاون کی وجہ سے امریکہ کو اسلامی دنیا پر عملی اور معنوی قبضہ جمانے میں زیادہ دقت پیش نہیں آئی ۔عالم اسلا م کے حکمران چپ رہے اور اسلامی اقدار کا چہرہ بگاڑ کر پیش کیا جاتا رہا ۔ امریکی غنڈے اور حواری اس عمل میں حصہ دار ہیں۔ اسلام پر رقیق حملوں کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔یہ حملے ڈیزی کٹر بموں سے کم ہلاکت خیز نہیں ۔پورا عالم اسلام مغربی میڈیا کی تباہ کن بم باری اور تابکاری کی زد میں ہے ۔اب تو یوں نظر آتا ہے کہ’’ نائن الیون‘‘ اور اسامہ بن لادن اسلام کے عسکری مزاج کے حوالے کے طور پر باقی رہ گئے ہیں ۔اس حوالے کے ذریعے دنیا بھر میں اسلام کے خلاف نفرت پھیلائی جاتی ہے ۔اس مرحلے پر کچھ نام نہاد مسلمان مفکرین اور دانشور بھی امریکہ کے ابلاغی حملے سے بری طرح متاثر ہیں ۔وہ امریکہ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور کہتے ہیں‘ ہمیں چاہیے کہ امریکہ اور اہل مغرب کو اطمینان دلانے کے لیے اسلامی عقائد اور اصول و ضوابط میں ایسی تبدیلیاںکر دیںجن سے اسلام کا امیج بہتر ہو سکے ۔بہت سے کمزور ایمان بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم سر جھکا کر اپنا بچائو کریں ۔بنیاد پرست اور دہشت گردقرار دے کر مارے جانے سے بہتر ہے کہ ہم اپنا عقیدہ دل میں رکھتے ہوئے سفید جھنڈے اٹھا لیں ۔امریکہ کو یقین دلا دیا جائے کہ مسلمان اس کے نظریات سے مصالحت کرنے اور اس کے تمدن کو اپنانے کے لیے تیار ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے تین سو سے زیادہ نام نہاد ’’ علماء ‘‘ اب تک امریکی میزبانی سے لطف اندوز ہو چکے ہیں ۔ امریکہ ان ’’علماء ‘‘پر ثابت کر چکا ہے کہ اس کی جنگ ’’ پر امن ‘‘ مسلمانوں سے نہیں صرف ’’ دہشت گرد اسلام ‘‘ سے ہے ۔دوسری طرف امریکی دانشور اور مفکرین بڑے یقین سے کہتے ہیں کہ دنیا ئے اسلام میں مغربی تہذیب کو مٹانے کی زبردست خواہش موجود ہے اور مغربی تمدن کو نقصان پہنچانے کی ساری ذمے داری اسلام کے نظام تعلیم و تربیت میں ہے ۔وہ تشدد کو اسلامی تعلیم کا لازمی نتیجہ سمجھتے ہیں اور مسلمانوں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اسلامی مدارس کا نصاب بدل دیا جائے ‘ان اسلامی اصولوں اور قوانین کو بھی بدل ڈالیں جن سے دہشت گردی اور انتہا پسندی جنم لیتی ہے ۔مشہور امریکی دانشور ڈینئل پائپس نے ’’ نیویارک ٹائمز‘‘ میں لکھا تھا:۔’’ کوئی پروا نہیں ‘اسلام ماضی میں جیسا بھی رہا ہے یا حال میں ہے ‘مستقبل میں یہ آج سے کچھ نہ کچھ مختلف ضرور ہوگا ‘‘ ۔ ایک نا قابل تردید حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اپنی عسکری بالا دستی کے باوجود کمزور فلسطینیوں عراقیوں اور افغانوں کو بھی مسخر نہیں کر سکا ‘ تا ہم وہ ہمارے عقائد و نظریات پر ڈاکہ ڈالنے سے باز نہیں آئے گا ۔ اپنے اس مشن کے لیے اسے ہمارے ضمیر فروشوں کا تعاون حاصل ہے۔بدقسمتی سے اسلامی تحریکیں نائن الیون کے چیلنج سے کماحقہ عہدہ برا نہیں ہو سکیں ۔اس میںشبہ نہیں کہ اﷲ کے لاکھوں بندے جبر و استبداد کے طوفان میں بھی ثابت قدم رہے۔انہوں نے کسی حال میں شیطان کی فوجوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے ۔لیکن امریکہ کی فکری یلغار کے سامنے ہماری قلعہ بندیاں عیب اور سقم سے خالی نہیں رہیں ۔ بعض اہل علم اور اہل قلم نے عوام الناس کے لیے فکر انگیز رہنمائی بھی کی ہے ‘لیکن مغربی ذرائع ابلاغ کی بے پناہ یورش کے سامنے تنکوں سے بند نہیں باندھا جا سکتا ۔ ہم ایک زبردست چیلنج سے دو چار ہیں ‘ چند عارضی اور عبوری اقدامات سے اس سیلاب کو روکنا مشکل ہے ۔ دنیا اسلام میں آمروں کے خلاف برپا تحریک روشنی کی ایک کرن ضرور ہے لیکن یہ خودروشنی نہیں ہے ۔ امریکہ کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کے کاسہ لیسوں کے بعد ان ملکوں میں حقیقی عوامی قیادت سامنے آ جائے ۔ امریکہ اس خوف کو مٹانے کے لیے نئے مہرے تلاش کرے گا۔ کشمکش کی اس فضا میں اب بھی موقع ہے کہ اسلامی دنیا کے حکمران اپنی شناخت پہچانیں ۔ ایک حقیقی اسلامی معاشرے کے لیے کمربستہ ہوں ‘اگر وہ ایسا نہیں کریں گے‘ عوام کا مزاج اور خواہش نہیں پہنچانیں گے تو سب ایک ایک کر کے زین العابدین علی اور حسنی مبارک اور صدام حسین بنتے جائیں گے۔ امت کو ڈرانے کی نہیں جگانے کی ضرورت ہے۔ اپنی شناخت جاننے ‘ بتانے اور باقی رکھنے کی ضرورت ہے۔