روشان فرخ ‘لاہور کی ایک مہنگی اور ماڈرن یونیورسٹی کی طالبہ تھی۔ لباس سے لے کر رہن سہن تک جسے ہم لائف سٹائل کا نام دیتے ہیں۔ اور گھر سے لے کر یونیورسٹی سب کچھ جدید خوشحالی سے لبریز اور روشن خیالی میں لپٹا ہوا اس سارے منظر نامے میں کہیں بھوک‘ بے چارگی‘ اداسی‘ اور افسردگی کی گنجائش تو نہیں نکلتی۔ تو پھر آخر اسے ایسا کیا ہوا کہ منگل کی صبح وہ اپنے گھر سے یونیورسٹی کے لئے تیار ہو کر نکلی ہے اور وہاں جا کر یونیورسٹی کے چوتھے فلور سے نیچے کود جاتی ہے اس کا وجود چوتھے فلور سے زمین کی سخت سطح سے ٹکراتے ہی چور چور ہو جاتا ہے ایمبولینس میں ہسپتال لے جایا جاتا ہے جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لا کر مر جاتی ہے۔ ہسپتال کے بیڈ پر مردہ پڑی ہوئی‘ جینز اور کرتی میں ملبوس ایک ٹین ایج لڑکی آخر اس عالم شباب میں مرنے کا ارادہ کیوں کر لیتی ہے کیوں اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنے سارے خوابوں کا گلا گھونٹا۔ اس نے خودکشی کیوں کی۔؟یہ سوال معاشرے میں سراسیمگی پھیلاتا ہے۔ حیرت اور خوف میں ڈوبے ہوئے لوگ سوشل میڈیا پر اس کی تصویریں شیئر کرتے ہوئے RIPلکھتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ کون ہے اس کا قاتل ؟ روشان کی خودکشی کی خبر مجھے بھی فیس بک سے ملی۔ جب میں نے ایک سینئر صحافی کی پوسٹ پڑھی۔ جنہوں نے روشان کی تصویر کے ساتھ کیپشن لگا رکھا ہے۔Who is the Killer of Roshan?اس سوال نے مجھے بھی اس کا جواب ڈھونڈنے کی تحریک دی۔ سوال پوچھنے والے ایک سینئر صحافی ہیں جو کرائم رپورٹنگ کی دنیا کے بابا جی کہلاتے ہیں اور صحافت میں ان کی ساری زندگی جرم سے مجرم کی تلاش کرتے گزری۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ میرے عہد کے دانشوروں کا المیہ یہ ہے کہ ہم اصل اور تلخ حقیقتوں سے صرف نظر کر جاتے ہیں آئینے کو توڑ کر پھر اس میں اپنا عکس تلاش کرتے ہیں کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک نوجوان لڑکی کم سنی کی دہلیز پر یونیورسٹی کے چوتھے فلور سے کود کر اپنی زندگی ختم کرتی ہے تو پھر اس کا قاتل شہر میں ڈھونڈنے کی بجائے اس کے گھر میں تلاش کرنا چاہیے۔ بات بہت سخت اور تلخ ہے لیکن کیا کروں اس کو کہنے کے سوا بات کا کوئی سرا ہاتھ نہیں آ سکتا۔ انیس بیس سال کی ایک لڑکی جو اپنے والدین کے ساتھ رہتی ہے ان کے سامنے روز تیار ہو کر یونیورسٹی جاتی ہے وہ کن لوگوں میں اٹھتی بیٹھتی ہے۔ اس کا اس کے حلقہ احباب میں کون کون ہے۔ اس کی سہیلیاں کن گھروں سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان سب پر نظر رکھنا والدین کا ہی فرض ہے‘ اس کے ہاتھ میں جو قیمتی سمارٹ فون ہے اس میں کن لوگوں کے رابطہ نمبرز ہیں۔ اس کے تعلیمی ادارے کا ماحول کیا ہے۔ وہ وہاں کیا سیکھتی ہے ؟ وہ روز گھر سے یونیورسٹی اور یونیورسٹی سے گھر واپس آتی ہے وہ مالی طور پر خود انحصار نہیں تھی بلکہ والدین پر انحصار کرتی تھی۔ یعنی ہر طرح سے وہ اپنے والدین کی ذمہ داری تھی۔ پھر اس ماں سے کہیں کوئی غفلت ضرور ہوئی ہے جو بچوں کے جواں ہونے پر دو آنکھوں سے نہیں بلکہ چار آنکھوں سے ان پر نگاہ رکھتی ہے وہ اس کی آنکھ میں جھکنے والے ہر عکس کو پہچانتی ہے اس کی ذات پر بننے والے ہر موسم کی خبر رکھتی ہے پھر ایک ماں اتنی غافل کیسے رہی۔ والدین کی ذمہ داری صرف یہی ہے کہ ہم نے اپنے بچوں کو شہر کی مہنگی اور روشن خیال یونیورسٹی میں داخلہ کروا دیا ہے بس اب اس کا مستقبل محفوظ ہے یہی المیہ ہے ہمارا کہ ہم نے تعلیم کو تربیت اور اخلاقیات سے الگ کر دیا ہے۔ اخلاقیات اقدار اور مذہب تو ویسے بھی اس معاشرے میں اب آئوٹ آف مینشن لفظ ہیں۔ یہ دور مقابلے کا ہے۔ مادیت پرستی کی میراتھن جیتنے کا ہے۔ پہلے ہماری مذہبی روایات اور اقدار ہمارے لباس سے لے کر ہمارے رہن سہن اور میل ملاقات کے طور طریقوں پر کہیں کوئی حد نافذ کرتی تھیں مگر یہ دور ان تمام بیریئرز کوتوڑ دینے اور مادیت پرستی کی اندھی دوڑ کو ہر قیمت پر جیتنے کا ہے اور یہ وہ دوڑ ہے جس میں انسان بھاگتے بھاگتے ہف کر یا تو خودکشی کر لیتا ہے یا پھر زندگی کا سارا سفر ایک خودکشی کی طرح گزارتا ہے۔ سکون امن اور شانتی سے دور ۔ روز مرنا اور روز جینے کی دوڑ میں شریک ہونا۔ اپنے کندھوں پر اپنا لاشہ اٹھانا۔ پتہ نہیں کیوں مگر اس وقت مجھے ٹی ایس ایلیٹ یاد آ رہا ہے جس کا سب سے بڑا حوالہ اس کی لازوال طویل نظم ویسٹ لینڈ ہے۔(Waste land)ہے جس میں دوسری جنگ عظیم کے بعد ‘ صنعتی انقلاب آنے کے بعد صرف معیشت کی بہتری کے گرد گزرتی ہوئی زندگی‘ اقدار اور اخلاقیات کے انہدام کا ماتم کرتا ہے اور جدید طرز زندگی کو Shadowlessسے تعبیر کرتا ہے۔ مادیت پرستی کے گرد گھومتی ہوئی زندگی میں انسان کا انسان سے سچا اور خالص رابطہ ٹوٹ چکا ہے۔ ازلی تنہائی ہر انسان کا مقدر ہے۔ گزشتہ دنوں کراچی سے تعلق رکھنے والی ایک طالبہ نے سوشل میڈیا پر یہ تحریک چلائی کہ آج کے دور کا نوجوان تنہائی کی اذیت سے دوچار ہے اگرچہ ڈیجیٹل رابطوں کی کوئی حد نہیں۔ ہم اپنے گھر کے کمرے میں بیٹھے بیٹھے دنیا بھر کے لوگوں سے ڈیجیٹل گوسپ میں مصروف ہیں۔ ماں اور باپ الگ اپنی دنیا بسائے ہوئے ہیں اور ہر بچہ اپنی اپنی جگہ اپنے سمارٹ فون سے ایک ایسی دنیا سے رابطے میں ہے جو اس کی ذات پر بننے والے اصل المیے سے بے خبر رہتی ہے وہ اپنی ذات میں ایک جنگ اکیلا بھی لڑتا رہتا ہے لیکن اس جنگ میں اس کی شکست کی خبر ہمیں اس وقت ملتی ہے جب کوئی روشان اپنی یونیورسٹی کے چوتھے فلور سے کود کر خودکشی کر لیتی ہے۔پھر ہم فیس بک پر اس کی تصویر کے نیچے RIPلکھتے ہوئے سوال اٹھاتے ہیں کہ آخر اس کا قاتل کون ہے؟ ہم وہ دانشور ہیں جو آئینہ توڑ کر پھر اس میں اپنا عکس تلاش کرتے ہیں۔ ٹی ایس ایلیٹ نظم کے آخر میں کہتا ہے کہ جدید دورکا تنہائی سہتا ہوا انسان دراصل روح کی بے سکونی کا شکار ہے جو اپنا Faithکھو چکا ہے اسے پھر سے روحانی بالیدگی کی ضرورت ہے ارو روحانی بالیدگی کا تصور دنیا کے ہر مذہب میں موجود ہے۔ کائنات کے خالق سے جڑے رہنا ہے فیتھ اور یقین ہے۔ اس مرکز سے دور ہوتے جائیں۔ زندگی بوجھ بنتی جائے گی۔ روشنی کے اس دائرے میں قیام ہی اصل نجات ہے۔