وطنِ عزیز میں یوں تو ادارے روزِ اول سے ہی عدم استحکام کا شکار رہے ہیں، تاہم شکست و ریخت کی جو صورتِ حال قومی سیاسی ، معاشی اور عدالتی اداروں کواب در پیش ہے، اس کی نظیر کسی سابقہ دور میں ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ابتدائی دور میںہمارے حکمرانوں کی ترجیح افواجِ پاکستان کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنا تھا۔ اس ریاستی پالیسی پر اعتراض میں وزن موجود ہے۔ تاہم دو اطراف سے ملکی سلامتی کو لاحق خطرات کے پیشِ نظر،کیا نو زائیدہ مملکت کے پاس اِس کے علاوہ بھی کوئی راستہ موجود تھا؟ سوال مگر یہ ہے کہ کیا عسکری ادارے کا مضبوط ہونا ہی واحد وجہ تھی کہ سویلین سیاسی اور معاشی ادارے مضبوط ہونے کی بجائے ہر گزرتے دن کمزور ہوتے چلے گئے؟وجہ جو بھی ہو، قوموں کی تاریخ اور ان کے عروج و زوال پر لکھی گئی داستانوں کا سائنسی جائزہ ہمیں یہی بتاتا ہے کہ مستحکم اور خود مختار قومی اداروں کی عدم موجودگی میں کسی ملک کے لئے اقتصادی و معاشی ترقی ہر گز ممکن نہیں۔ وطنِ عزیز میں مگرہمارے فوجی اور سویلین حکمران طبقے نے منظم سیاسی جماعتوں،طاقتورپارلیمنٹ ، آزاد عدلیہ اور خود مختارمالیاتی اداروں کو ہمیشہ دردِ سر ہی سمجھاہے۔ فوجی آمروں سے تو شکوہ نہیں مگرپہلے منتخب عوامی وزیرِ اعظم نے ریاستی اداروں کے باب میں جو طرزِ عمل روا رکھا، وہ کسی صورت بھی قابلِ رشک نہیں۔ اگرچہ بھٹو صاحب پر ان کے بدترین مخالفین بھی مالی بد عنوانی کے ذریعے دولت اکٹھی کرنے کا الزام نہیں لگا سکتے، تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قومی ادارے قومیانے کے نام پر ان کے حواریوں نے لوٹ مار کا جو بازار گرم کیا اس نے ملکی معیشت کا جنازہ نکال دیا۔ عدلیہ سے ان کا رویہ ہی تھا فوجی آمرکو ان سے ذاتی عناد رکھنے والے جج ڈھونڈنے میں مشکل پیش نہ آئی۔جنرل گل حسن جیسے پیشہ ور سپاہی کووزیراعظم کے گھر سے غنڈوں کے ذریعے اغواء کر وا کر ان کی عدم موجودگی میں نیا آرمی چیف مقرر کیا گیا۔ قصور یہ تھا کہ انہوں نے فوج کو بھٹو صاحب کے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرنے سے انکار کیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق ایک سخت گیر فوجی آمر تھے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے ان کے عرصہ حکمرانی کو ملکی تاریخ کا تاریک ترین دورکہا جا سکتا ہے۔ ایسے کسی حکمران کے نیچے کام کرنے والی عدلیہ سے ہی نہیں تمام قومی اداروں سے خود مختار اور آزادانہ رویوں کی توقع رکھنا یقینا خام خیالی ہے۔ تاہم جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکمرانی میں سب سے بڑا نقصان جوہوا وہ سیاسی جماعتوںکا ’سیاسی ادارے ‘ سے’ خاندانی ادارے‘ میںتبدیل ہو جاناہے۔یہ نہیں کہ ہمارے ہاں سیاسی پارٹیاں روزِ اول سے مستحکم شکل میں موجود تھیں۔ ابتدائی ادوار میں سیاسی پارٹیاں وقتی ضرورت کے تحت یا فوجی حکمرانوں کے اشارئہ ابرو سے وجود میں آتیں، اور انہی کے زوال کے ساتھ ہی دھوپ میں رکھی برف کی طرح پگھل جاتیں۔ تاہم سال 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں ’خاندانی سیاست‘ کا جو زہریلا بیج بویا گیا،اُس کا کڑوا پھل ہم آج تک کھا نے پر مجبور ہیں۔ خاندانی سیاست میرٹ کے لئے زہرِ قاتل ہے۔تاہم دیکھا جائے تو نا صرف ہمارے گرد و نواح میں بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی کئی خاندان ملکی سیاست میں متحرک دکھائی دیتے ہیں۔یہ مگر ضرور ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں اگر باپ کے بعد بیٹا اور بیٹے کے بعد اس کی اولاد حکمران بنتی ہے تو اس کے لئے انہیں خالصتاََ میرٹ کے تحت ایک متعین پراسس سے گزرنا ہوتا ہے۔ امریکہ میں محض خاندانی پس منظریا بے پناہ دولت کسی فرد کو صدارتی انتخاب کے لئے اہل بنانے کے لئے کافی نہیں بلکہ اعلیٰ ترین سیاسی عہدے کے لئے کسی بھی شخص کونامزدگی حاصل کرنے کے لئے سیاسی جماعتوں کی شکل میں مضبوط اور منظم سیاسی ادارے کے سامنے پیش ہو کرقبولیت کے کڑے مراحل سے گزرنا لازم ہے۔اس کے برعکس سیاسی ، معاشرتی اور معاشی طور پر پسماندگی کا شکار ممالک میں وراثت کے اصول پرپارٹی پر قبضہ اوراسی کے نتیجے میں حصول اقتدار کے لئے کسی میرٹ کی چنداںضرورت نہیں۔ وطنِ عزیز میں آج دو چار کو چھوڑ کر تمام چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیاں’ وراثتی اداروں ‘کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔موجودہ حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کو دیکھا جائے تو پچاس سال کے عرصے میں پہلی سے دوسری اور اب دوسری نسل سے جماعتوں پر قبضہ تیسری نسل کے ہاتھوں میں منتقل ہو نے کا عمل شروع ہو چکا ہے ۔ اس سب کے نتیجے میں کسی بھی جمہوریت کی بنیاد ی اساس یعنی مستحکم اور خود مختار سیاسی و معاشی ادارے کمزور سے کمزور تر ہوتے چلے گئے ہیں۔ جب کہ اسی دوران چند حکمران خاندان اسی تناسب کے ساتھ مضبوط اور طاقتورتر ہو چکے ہیں۔ نتیجے میں تمام ریاستی ادارے اب ان چند خاندانوں کے سامنے بے بس نظر آرہے ہیں۔ سرکاری اداروں کے اندر موجود افراد اپنی وفاداریاں ریاست کی بجائے انہی خاندانوں میں سے کسی ایک کے دوبارہ برسرِ اقتدار آجانے کے خوف کے پیشِ نظرنسل در نسل انہی سے وابستہ رکھنے میں عافیت دیکھتے ہیں۔ عسکری اسٹیبلشمنٹ جو کسی زمانے میں اپنے رعب و دبدبے کی بناء پر طاقتور خاندانوں کے اثرو رسوخ کو ایک حد کے اندر محدود رکھنے کی صلاحیت رکھتی تھی، حالیہ دنوں میں سیاسی بساط پرآخری چال چلنے کے بعد مہروں کو اِدھر اُدھر کرنے کی مزید گنجائش سرِ دست کھو چکی نظر آتی ہے۔ دوسری طرف انصاف کا سیکٹرانہی سیاسی خاندانوں کی چیرہ دستیوں کے ہاتھوں گذشتہ دو چار برسوںکے اندر بُری طرح تقسیم اور انتشار کا شکار دکھائی دیتا ہے۔اعلیٰ عدلیہ میں تقسیم کی جس مہم کا آغازہوا ،باعث افسوس ہے ۔سرِ عام ججز کے نام لے لے کر تنقید کی جاتی ہے۔ اپنے منطقی انجام کو پہنچتی ہوئی نظر آرہی ہے۔جوڈیشل کمیشن کے حالیہ اجلاس کے بعددو معزز ارکان کی جانب سے لکھے گئے خطوط میڈیا میں زیرِ بحث آنے کے بعد چیف جسٹس کی طرف سے کارروائی کی آڈیو ریکارڈنگ کا جاری کئے جانا ادارے کے اندرغیر معمولی تنائو کا اظہارہے ۔ اقتدار سنبھالتے ہی انہی خاندانوں کے ہاتھوں یرغمال پارلیمنٹ نے نیب کے قانون میں من پسندترمیمات کے ذریعے احتساب کا لولا لنگڑا نظام بھی منہدم کر دیا ہے۔ اسی بے دست و پا پارلیمنٹ کے ذریعے ’خاندانوں کا اتحاد‘ اب عدلیہ کے اختیارات محدود کرنے کے لئے قانون سازی کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ نتیجے میں چند سیاسی خاندان اب جہاں ریاستی اداروں سے کہیں بڑھ کر طاقتور نظر آرہے ہیں تو وہیںریاستی اداروںمیں موجود مقتدر افراد اِن خاندانوں کی ننگی دھمکیوں اور بے جا تنقید کے سامنے بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔آج جب مریم نواز چیف جسٹس آف پاکستان پر سرِ عام دھاڑتی ہیں تو ہمیں اینٹ سے اینٹ بجاتے آصف علی زرداری یاد آجاتے ہیں،جب کچھ برس پہلے ایک دوسرے ریاستی ادارے کے سربراہ کوللکار کر انہوں نے کچھ یوں ہوشیار اور خبردارکیاتھا کہ تمہارا اختیار وقتی ہے، ہم ہمیشہ کے لئے ہیں۔