حکومت پر ،جو تبدیلی کی خواہش میں ڈوبے ہوئے جذباتی عوام کے ووٹوں سے برسراقتدار آئی ہے، ہر طرف سے تنقید کے کوڑے برس رہے ہیں۔ کسی دن کا بھی اخبار اٹھائیے، کوئی بھی چینل دیکھ لیجئے، اقتصادی بدحالی، امن و امان کے نفاذ اور دوسرے حوالوں سے ایسی اعتراضات کی بوچھاڑ ہے کہ خودہمیں وزیر اعظم اور ان کی ٹیم پر رحم سا آنے لگا ہے۔ یہ نوبت آئی کیوں؟ ایک وجہ تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت بڑے بڑے وعدؤں اور دعوؤں کے ساتھ آئی ہے۔ عوام نے وزیراعظم کے دکھائے ہوئے خوابوں پر آنکھیں بند کرکے اعتبار کیا اور یہ سمجھا کہ واقعی وہ سب کچھ چٹکی بجاتے ہی ہو جائے گا جن کا وعدہ کیا گیا ہے۔ وزیراعظم پر سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ انہوں نے حکومت سے باہر رہتے ہوئے جو جو وعدے اور دعوے کئے تھے، ایک ایک کرکے انہوں نے سب پر یوٹرن لے لیا اور یوٹرن لینے کو ایک سیاسی ضرورت بتلایا۔ بھٹو صاحب کی حکومت بھی موجودہ حکومت کی طرح تبدیلی و انقلاب کے دعووں کے ساتھ آئی تھی اور اپنے وعدے پورے نہ کر سکی۔ اٹلی کی صحافی اوریانا فلاچی نے اپنے انٹرویو میں بھٹو صاحب سے پوچھا تھا کہ آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ تیزی سے بدل جاتے ہیں اور اپنے موقف کو بھی بدل لیتے ہیں تو بھٹو صاحب نے سیاست کا فلسفہ بتایا تھا کہ یہ حر کی ہوتی ہے اور ویسے بھی مستقل مزاجی ادنیٰ دماغوں کی خصوصیت ہوتی ہے۔ سیاستدان تو وہی ہوتا ہے جو بدلی ہوئی حقیقت کے ساتھ بدل جائے۔ وزیر اعظم عمران خان بھی اپنے یوٹرن کا کچھ ایسا ہی جواب اپنے پاس رکھتے ہیں۔ کنٹینر پر کھڑے ہو کر انہوں نے ببانگ دہل اعلان کیا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس اگر ان کی حکومت کو جانا پڑا تو وہ حکومت چھوڑ دینا پسند کریں گے۔ اب ان کے وزیرخزانہ کو جو ملک کے دیوالیہ ہونے کی تشویش ظاہر کر رہے تھے، آخر آفر کو آئی ایم ایف سے قرضہ لینے پر مجبور ہوئے۔ خالی خزانے اور ہوش ربا مہنگائی نے حکومت کو ایک اور یوٹرن، ایک اور دعوے کے برخلاف کرکے اپوزیشن اور میڈیا کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اعتراضات اور تنقیدوں کی بوچھاڑ کر دیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہمارے ملک میں حکومتیں اس کی عادی ہو جاتی ہیں۔ وہ سن سن کر تنقیدیں سننے کے معاملے میں اپنی کھال سخت کر لیتی ہیں اور کوئی خاص اثر نہیں لیتیں۔ اصل سوال تو یہ ہے کہ معاملات اس طرح کب تک چلیں گے؟ قرضوں سے اگر ملک سدھر اور سنور سکتا تو کب کا ایسا ہو چکا ہوتا۔ پینسٹھ، ستر برسوں میں ہماری حکومتوں نے قرضوں اور مالی امداد ہی کے ذریعے ملک چلایا ہے، آسان راستہ یہی ہے۔ آزاد خارجہ پالیسی کے بجائے ہم نے خود کو ایک عالمی طاقت کی آغوش میں دیے رکھا تو بڑی وجہ یہی تھی کہ وہی طاقت ہماری ضرورتوں کی کفیل رہی، ہمیں ملک کو اپنے پاؤں پہ کھڑا کرنے یا خودانحصاری کی کھکھیڑ میں پڑنا ہی نہیں پڑا۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے ذریعے ملکی معیشت کو سہارا دینا اور چلانا کم و بیش وہی پالیسی ہے۔ یہ ملک چلانے کا سیدھا اور سادہ نسخہ ہے۔ اس کے سوا کوئی اور تدبیر ہے بھی نہیں۔ اگر حکومت میں آنے سے پہلے تحریک انصاف نے کوئی ہوم ورک کیا ہوتا، غور کیا ہوتا کہ حکومت میں آنے اور ملک چلانے کی مشکلات کیا ہیں۔ بڑے بڑے چیلنج کون کون سے ہیں، ان سے نمٹنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ تبدیلی لانے کی شروعات کہاں سے کرنا ہوگی؟ قرضہ لیے بغیر ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کیلئے کون سی پالیسی اختیار کرنی پڑے گی لیکن ہمارے کپتان صاحب نے غالباً یہ سوچ کر ان کی ضرورت محسوس نہ کی کہ میدان میں اترنے کے بعد کھیلنے کی اسٹریٹجی بنا لی جائے گی۔ حکومت کرنے اور کرکٹ کھیلنے میں اتنا فرق تو ہے کہ کرکٹ میں منصوبہ بندی شاید گراؤنڈ میں اتر کے ہوتی ہے اور حکومت میں سر منڈواتے ہی اولے پڑتے ہیں یعنی اقتدار میں آٔتے ہی توقعات وابستہ اور نتائج کا انتظار ہونے لگتا ہے۔ اب جبکہ عوام مضطرب اور کسی قدر مایوس بھی ہوتے جاتے ہیں، اب بھی وقت ہے کہ وزیراعظم درپیش حالات اور مستقبل کے چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے اپنی ترجیحات اور طریقہ کار طے کر لیں۔ اس کیلئے انہیں کچھ نہیں کرنا ہو گا۔ ایک ٹاسک فورس جس میں ماہرین معیشت، ماہرین عمرانیات و سماجیات شامل ہوں، مقرر کرکے اس سے ملکی مسائل اور تقاضوں سے نمٹنے کیلئے سفارشات مرتب کرائیں، یہ ایک روڈ میپ ہو گا۔ موجودہ صورت تو یہ ہے کہ حکومت کے پاس مستقبل کا کوئی نقشہ ہی نہیں ہے۔ سرکاری اداروں میں اصلاحات لانے کیلئے جو کمیٹی بنائی گئی ہے جس میں ڈاکٹر عشرت حسین سابق گورنر اسٹیٹ بنک شامل ہیں جنہوں نے اس موضوع پر ایک چشم کشا کتاب بھی تصنیف فرمائی ہے لیکن ابھی تک اس کمیٹی نے کیا کام کیا ہے؟ حکومت کو کیا مشورے دیے ہیں۔ اس کی کچھ بھی تفصیل منظر عام پر نہیں آئی ہے۔ سنا ہے ابھی کمیٹی سرکاری اداروں میں اخراجات کی کمی پر ہی غور کر رہی ہے اور اس پہلو پر سوچا جا رہا ہے کہ ایک ہی جیسے سرکاری اداروں کو ایک دوسرے میں ضم کرکے کیوں نہ سرکاری خزانے کے بوجھ کو ہلکا کیا جائے۔ ایک طرف وزیراعظم کے وزیروں اور مشیروں کی فوج ظفر موج میں اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے ۔ ہمیں یاد ہے کہ ٹیلی ویژن پر حکومت میں آنے سے پہلے کپتان وزیراعظم نے بتایا تھا کی چین، کوریا اور دوسرے ملکوں میں وزیروں کی تعداد کتنی تھوڑی ہے اور ہمارے ملک میں کتنی زیادہ۔ انہوں نے اس کے باقاعدہ اعدادو شمار پیش کیے تھے۔ اب اگر وہ ہر مہینے ایک نیا مشیر اور ایک نیا وزیر بنا رہے ہیں تو اس کی بھی یقیناً کوئی نہ کوئی معقول وجہ ہی ہو گی۔ رہی بات چین اور کوریا کی تو ابھی اس کی منزل دور ہے۔ جب اس کا وقت آئے گا تو وہ بھی دیکھ لیا جائے گا۔ دور تک دیکھنے کی صلاحیت جسے تدبر یا وژن کہا جاتا ہے، اس کا ذائقہ ہم نے اپنے لیڈروں اور حکمرانوں میں کبھی چکھا ہی نہیں۔ ہم ایڈہاک ازم کے عادی اور اسی کے قائل ہیں۔ جب سر پہ پڑے گی تو دیکھ لیں گے، نمٹ لیں گے۔ یہی رویہ ماضی سے اب تک چلا آتا ہے۔ سنجیدہ غورو فکر، منصوبہ بندی، مسائل کا گہرائی میں اتر کر تجزیہ، ان سے نمٹنے اور انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا طریقہ کار۔ یہ سب کچھ اس لیے نہیں کہ اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ۔ ہماری سیاست و حکومت کا تا اور لے دوڑی کے محاورے پر کھڑی ہیں۔ کسی شعبے میں بھی اصلاح کیلئے تحقیق و تفتیش اور سوچ بچار کی نہ ماضی میں کوئی روایت ہے اور نہ آئندہ کی کوئی امید ہے۔ پچھلی دو حکومتیں اور ان کے ذمہ داران تو ویسے ہی نیم خواندہ سے لوگ تھے جنہیں نوٹ گننے اور دولت جمع کرنے سے زیادہ تر واسطہ تھا اسلئے نہ ان سے کوئی امید تھی اور نہ کوئی بڑیشکایت ہے۔ اگر کوئی گلہ شکوہ ہے تو عوام سے ہے جو انہیں کندھوں پر بٹھا کے اقتدار میں لائے۔ موجودہ حکومت پر اگر تنقید کی بوچھاڑ ہے تو اسلئے کہ انہیں ان ہی کے وعدوں اور دعووں کی روشنی میں جانچا جا رہا ہے۔ جو حکومت اور جو وزیر اعظم اتنا نہ سوچ سکے کہ وزیر اعظم ہاؤس کو اگر یونیورسٹی بنا دیا گیا تو غیر ملکی سربراہان حکومت کی آمد پر انہیں کہاں اٹھایا بٹھایا جائے گا۔ اس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ سوچنے اور فیصلہ کرنے کا انداز کس قدر دور رس اور حقیقت سے کس درجہ ہم آہنگ ہے۔ چنانچہ وزیراعظم ہاؤس اس مقصد کیلئے اب بھی استعمال ہو رہا ہے۔ کیا پتہ کل کلاں کو سرکاری ضرورت کے تحت وزیراعظم ایک اور یوٹرن لیں اور اس میں رہائش بھی اختیار کر لیں۔ اگر ایسا ہوا تو عوام کو کوئی حیرت نہ ہو گی۔