سید الطائفہ جنید بغدادیؒ نے حسین بن منصور حلّاج سے کہا :ازل سے یہ دنیا ایسی ہے،ابد تک ایسی ہی رہے گی۔ ہم اپنی ہتھیلیوں پر وفائوں کے چراغ،آنکھوں میں آس و امید کے دیئے جلائے بیٹھے ہیں۔ عمر بھر سرابوں کا تعاقب کرنے‘ خوابوں کی جنتیں بسانے والے‘ہم سادہ لوگ ابھی تک ادراک نہیں کرسکے کہ قوموں کو راہ راست پر لانے ،بگڑے کاموں کو سدھارنے کے لیے صرف ایک آدمی کی ضرورت ہوتی ہے۔جی ہاں صرف ایک آدمی۔ جو اپنے حسن و تدبر‘معاملہ فہمی ،حکمت و دانائی‘ ذہنی پختگی‘ حب الوطنی، فرض شناسی اور سخت کوشی کے باعث بھنور میں پھنسی کشتی کو کنارے تک لاتا ہے۔ محکمہ اوقاف پنجاب کی تازہ مثال ہمارے سامنے ہے ۔بزدار حکومت میں جب کورونا کی وبا آئی تو محکمے کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے سخت مشکلات کا سامناکرنا پڑا۔جس کے بعد محکمے کو دن بدن خسارے کا سامنا رہا ۔مگر نگران حکومت کے 13ماہ میں یہی محکمہ پائوں پر کھڑا نظرآیا ۔ان تیرہ ماہ میں محکمے کو ایک بہترین ایڈمنسٹریٹر میسر آیا ۔ انگریز دو ر کے بہترین ایڈمنسٹریٹرز گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھے بیٹھے، گائوں کی دہلیز میں کھڑے کھڑے مقدموںکا فیصلہ سنا یا کرتے تھے۔گرمی‘ سردی ‘ دھند‘ دھوپ‘ روشنی ‘ اندھیرا اور بادو باراںان کے لئے حرف بے معنی ہوتے تھے۔سابق چیف ایڈمنسٹریٹر وسیکرٹری اوقاف ڈاکٹر سید طاہر رضا بخاری نے بھی ان تیرہ ماہ میں کئی سخت فیصلے کیے ۔ برسوں سے معلق کمرشل پالیسی کی منظوری،اوقاف ایسٹس مینجمنٹ پروگرام کا اجرا،کارپارکنگ میں انٹری گیٹ اور ایگزٹ پر سپیشل سیکورٹی کاؤنٹر کاقیام،پنجاب ہولی قرآن(پرنٹنگ اور ریکارڈنگ) رولز 2011ء میں ضروری ترمیم،،کمرشل پالیسی کی منظوری وگزٹ نوٹیفیکیشن،موجودہ اوقاف رولز میں ترامیم،30سال بعد اوقاف سروس رولز میں ترامیم،پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ مختلف ضروری آسامیوں کے محاذ تقرریاں،ملازمین کی اگلے سکیلوں میں ترقی،106غیر ضروری آسامیوں کا خاتمہ،گورنمنٹ کی سطح پر EFOAsکو فعال کیاگیا،گورنمنٹ کی سطح پر تمام ملازمین کا ڈیٹا کمپیوٹرائز کیا گیا، تمام وقف پراپرٹیز کی جیومیپنگ کے ذریعے مانیٹرنگ،اوقاف اربن پراپرٹیز کی ڈی تھری ویڑنلائزیشن،تمام ڈائریکٹوریٹ کے ڈیٹا کو ڈیجٹیلائزڈکرنے کی منصوبہ بندی،داتا دربار ہسپتال میںملازمین کی بائیو میٹرک حاضری،یوٹیلیٹی بلز پر کنٹرول، وقف پراپرٹیز پر نئے کرایہ جات پر عملدرآمد،وقف اراضیات کا علاقہ ریٹ پر نیلام عام،اربن وقف اراضیات کی کمرشل مقاصد کے لیے نیاپالیسی کے تحت لیز،تاریخ میں پہلی مرتبہ حقائق پر مبنی بجٹ کی منظوری سمیت کئی ایسے کام کیے جو محکمہ اوقاف کی تاریخ میں پہلی بار ہوئے ہیں۔ قوموں‘ ملکوں، سلطنتوں اور محکموں کی تقدیر بدلنے کے لئے صرف ایک آدمی کی ضرورت ہوتی ہے۔جو محرومیوں ،پستیوں، انحطاط اور زوال کی شکار قوم کی نائو منجدھار سے نکال سکے۔ایک برس کے دوران محکمہ اوقاف کی آمد ن میں 44 فیصداضافہ ہوا ہے ۔ چوالیس فیصد کوئی معمولی ہندسہ نہیں۔بلکہ ایک سوکے نصف کے قریب ۔نکتہ کی بات یہ ہے کہ رفعت و پاکیزگی انہی کو ملتی ہے، جو اپنی جبلتوں اور آرزو سے برسرِ جنگ رہتے اور خامیوں پر غور کرتے ہیں۔ ابھی تک مکمل خامیوں پر قابو نہیں پایا جاسکا تھا کہ معمول کی ٹرانسفرکا موسم شروع ہو گیا ۔ آواز ِدوست میں مختار مسعود نے لکھا ہے:’’کسی قوم کوباصلاحیت افراد نعمت کے طور پر دیئے اور سزا کے طور پر واپس لے لیے جاتے ہیں‘‘۔ اَنا کے خول میں مقید ہو کر‘ ہم عصروں پر نکتہ چینی،دیمک کی طرح چاٹ دیتی ہے۔مگرکیا کریں۔ ازل سے یہ دنیا ایسی ہے ،ابد تک ایسی ہی رہے گی۔ اوقاف ڈیپارٹمنٹ76,397 ایکڑ وقف لینڈ کا حامل ہے، جس میں 30,775 ایکٹر لینڈ زرعی اورقابل کاشت ہے، جبکہ3039 ایکٹربنجراور42,583 ایکٹرناقابل کاشت ہے ۔اس میںحضرت سخی سرور سے ملحق 31,929 ایکٹرجو 1960 سے، حدبراری اورجدید بندوبست نہ ہونے اورموضع مشترکہ ہونے کے سبب ناجائزقبضے کی زد میں ہے۔ نصف صدی سے زائد عرصے سے حل طلب مسئلے کا بھی تلاش کیا گیا ۔ یہ سب کچھ کسی قرون اولیٰ کے فرد نے نہیں کیا ،بلکہ اسی محکمے کو اوڑھنا بچھونا بنانے والے ایک شخص نے کر دکھایاکیا۔محکمہ اوقاف کے زمانہ قریب کے عروج ،ماضی کے زوال کو دیکھ کر قاری حیران ،آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔جو محکمہ سونے کی چڑیا تھا ،اسے سفید ہاتھی بنا یا جا رہا تھا ۔درحقیقت کئی سرکاری محکموں میں ایسے صاحبا ن موجود ہیں، جو ایک گھر چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ملک اور صوبہ چلانا تو دور کی بات۔انھیںسیاسی امور کا فہم نہ افسر شاہی کے گھوڑے پہ سوار ہونے کی تاب و توانائی۔کسی کارکن یا سیاسی رفیق کی غمی خوشی میں شریک ہونا‘ان کی توہین‘ گویا افسری کی راہ و رسم سے وہ آشنا ہی نہیں۔ اسی بنا پر ہمارے ہاں فکری انتشار ‘ سیاسی اضمحلال اور معاشی عدم اطمینان پایا جاتا ہے۔کسی بھی شعبے میں لیڈ رشپ اس امر کا تقاضہ کرتی ہے کہ اخلاص، جرات، دیانت، شفافیت، گڈ گورننس، میرٹ اور ٹرانسپیرنسی سے، ایسے امور زیر کارروائی لائے جائیں ،جس سے محکمے کو عروج ملے ۔کسی محکمے کے سربراہ کو بھی اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر، ان قومی امانتوں کے حوالے سے بہترین فیصلے کرنے چاہیں۔افسوس صد افسوس۔ وہ لیڈر شپ کہیں خال خال ہی ملتی ہے۔ محکمہ اوقاف کے نئے ایڈمنسٹریٹر و سیکرٹری محترم جناب جاویداختر محمود صاحب ایک منجھے ہوئے اور باصلاحیت بیوروکریٹ ہیں۔ گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھے بیٹھے اورگائوں کی دہلیز میں کھڑے کھڑے مقدموںکے فیصلے سنانے کی ان میں صلاحیت موجود ہے۔امید ہے وہ اپنے پیش رو کا معیاربرقرار رکھ کر محکمے کو ایک کمائو پتر بنائیں گے ۔