پاکستان کی معیشت جیسے گزشتہ ادوار میں قرضوں پر چل رہی تھی اب بھی اسی طرح اُدھارپر چل رہی ہے۔ قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر حماد اظہر نے بتایا کہ موجودہ حکومت نے پہلے سال تیرہ ارب ڈالر کا قرض لیا۔ حکومت نے آتے ہی عرب ملکوں سے ساڑھے پانچ ارب ڈالر کے عارضی بنک ڈپا زٹس لیے تھے لیکن اب ان ملکوں سے درخواست کی گئی ہے کہ ا س رقم کو قرض میں تبدیل کردیا جائے۔ قرضوں سے جان چھڑانا اس لیے مشکل ہے کہ پاکستانی اپنی چادر سے زیادہ پائوں پھیلانے کے عادی ہو چکے ہیں۔ عرصہ درازہُواہماری حکومتوں کے اخراجات اس کی آمدن سے دُگنے چلے آتے ہیں ۔ جب تک کڑوا گھونٹ پی کر سرکاری خرچ کم نہیں کیے جاتے‘ معیشت اسی طرح قرضوں پر چلے گی۔آئی ایم ایف ایسے عالمی اداروں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے۔ تیس لاکھ سے زیادہ سرکاری ملازمین کی ماہانہ تنخواہیں‘ پچیس لاکھ کی پنشن‘ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل کر ادا کرتی ہیں۔ سرکاری ملازمین کی تعداد نصف بھی کردی جائے تو حکومت کے کاموں میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن ہر حکومت اخراجات کم کرنے سے ڈرتی ہے۔خسارہ میں چلنے والے سرکاری ادارے ہر سال غریب قوم کا ایک ہزار ارب کھا جاتے ہیںلیکن کوئی حکومت ہمّت کرکے انہیں بند نہیں کرتی کہ متاثرین احتجاج کریں گے‘ اپوزیشن اس سے سیاسی فائدہ اٹھائے گی۔ معیشت کی مضبوطی کا ایک راستہ یہ ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ صنعتیں لگاکر ملک کی آمدن بڑھائیں۔ اس طرح حکومت کو بھی زیادہ ٹیکس ملے گالیکن معیشت کو مستقل بنیادوں پر اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کا ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں۔ کم سے کم جنرل ایوب خان کے بعد حقیقی معاشی ترقی ہمارے ایجنڈے سے غائب ہوگئی۔1960ء کے عشرہ میںایوب خان نے صنعتی ترقی کی بنیاد رکھی تھی جسے ذوالفقار علی بھٹو نے تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ اس وقت سے آج تک ہماری معاشی کشتی ڈگمگا تی ہوئی آگے بڑھ رہی ہے۔ ایک مضبوط سہارا بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانیوں کا ہے جو ہر سال اربوں ڈالر بھیجتے ہیںتو ہمارا دال دلیہ چل رہا ہے۔ گزشتہ مالی سال بھی اکیس ارب ڈالر سے زیادہ ترسیلات زر آئی ہیں۔ ملک کی معاشی پسماندگی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ پاکستان دنیا کے ان پانچ ملکوںمیں شامل ہے جن کی برآمدات ان کی مجموعی قومی دولت(جی ڈی پی) کے دس فیصد سے کم ہیں۔دیگر چار ممالک سوڈان‘ جنوبی سوڈان‘ افغانستان اوریمن ہیں۔ انڈیا کی برآمدات تقریبا پانچ سو ارب ڈالر ہیں۔بنگلہ دیش کی بیالیس ارب ڈالر اور ہماری چوبیس ارب ڈالر ۔ یہ نتیجہ ہے ان پالیسیوں کا جو ہم کم سے کم گزشتہ پچاس برسوں سے اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ہمارا زوردکھاوے اور نمائش کی زندگی پر ہے۔درآمدات کرتے جائو ‘ ملک کے اندر صنعتیں نہ لگائو۔ حکومتی پالیسیوں کے باعث سرمایہ کار صنعت لگانے‘ مینوفیکچرنگ کرنے سے دُور ہوتا گیا اور اس نے اپنا مال تجارت‘ خدمات کی فراہمی جیسے تعلیم‘ صحت کے ادارے اور شہری جائیداد‘ رئیل اسٹیٹ میں لگایا۔لیکن یہ کام کب تک چل سکتا ہے؟وقفہ وقفہ سے ہماری معیشت ہچکولے کھاتی ہے‘ بحران آتے ہیں۔ حکومت قرضے لیکر وقتی علاج کرلیتی ہے لیکن یہ مسئلہ کا مستقل حل نہیں ۔ نجی صنعتی شعبہ کے سرمایہ کار شکائت کرتے ہیں کہ ہمارے ملک میں بجلی‘ گیس وغیرہ کے نرخ خطّہ کے دیگر ملکوں جیسے بھارت‘ بنگلہ دیش وغیرہ سے زیادہ ہیں۔ اس باعث ہم جو مال بناتے ہیں اس پر زیادہ لاگت آتی ہے‘ مال زیادہ مہنگا ہوجاتا ہے ‘ ہم عالمی منڈی میں حریف ملکوں سے مقابلہ نہیں کرپاتے۔ روپے کی ڈالر کے مقابلہ میںقدر بہت زیادہ گر جانے کی وجہ سے بھی صنعتوں میں استعمال ہونے والے درآمدی سامان کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ جب تک صنعتوں کو بجلی کی فراہمی ایک مناسب نرخ پر مقرر نہیں کی جاتی اور پانچ سال تک اسے ایک سطح پر مستقل نہیں رکھا جاتا ‘صنعتی ترقی کی رفتار بڑھنا مشکل ہے۔ مسئلہ یہ ہوا ہے کہ پاکستان نے سستی بجلی تو بنائی نہیں‘ گیس بھی ایل این جی کی صورت میں مہنگی خریدی۔اس لیے دونوں چیزوںکی قیمت تو بڑھ گئی۔ یہ ہماری منصوبہ بندی کی ناکامی ہے۔ سب سے سستی بجلی پانی ‘ ہائیڈل پراجیکٹ سے ملتی ہے۔ اگر حکومتیں داسو‘ بھاشا‘ منڈا ڈیم بنا نا شرع کرتیں تو آج ہمیں وافر بجلی بہت سستے داموں حاصل ہوتی لیکن ہمارے ملک میں دُور کی سوچ ناپید ہے۔ حکمران جلدی جلدی ایسے پراجیکٹ لگا تے ہیں جن سے وہ اپنے کک بیکس فوراً حاصل کرلیں۔ جو فنڈز ہم نے وقت سے پہلے موٹرویزبنانے پر خرچ کیے وہ بجلی کے ہائیڈل منصوبوں پر لگاتے تو ہم آج زیادہ خوشحال ہوتے۔ سستی بجلی ملتی‘ صنعتیں لگتیں‘ روزگار بڑھتا‘ برآمدات زیادہ ہوتیں۔ ہم موٹر ویز کی بجائے نیشنل ہائی وے کو بہت کم رقم لگا کر بہتر بناسکتے تھے۔ موٹر ویز اُس وقت بناتے جب ہماری صنعتی بنیاد مضبوط ہوجاتی۔ حکمرانوں نے اپنی سیاست چمکانے اور کک بیکس کھانے کی خاطر قوم کی ترجیحات کو اُلٹ پلٹ کرکے رکھ دیا۔انڈیا نے تو موٹرویز نہیں بنائیں۔ وہ صنعتی ترقی میں ہم سے کہیں آگے ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان نے ایٹم بم بنانے ایسا مشکل ترین کام کرلیا‘ وہ بھی عالمی طاقتوں کی مخالفت کے باوجود۔ہم نے دنیا کے بہترین بیلسٹک میزائیل بھی بنالیے جن کے آئے دن ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ پاکستان کے ماہرین نے ایک بہترین جنگی طیارہ جے ایف تھنڈر بھی بنالیا۔یہ ایک ایسا کام ہے جو انڈیا بھی نہیں کرسکا۔ہم میں اتنی صلاحیت ہے کہ کرتار پور راہدای بنانے پر آئے تو دنیا کا سب سے برا گوردوارہ دس ماہ میں مکمل کرکے کھڑا کردیا۔ جو کام ہم نہیں کرسکے وہ صنعتی ترقی ہے جس سے ہماری معاشی بقا وابستہ ہے۔ اگر ہم نے عزت کے ساتھ زندہ رہنا ہے تو ہمیں جنگی بنیادوں پر صنعتیں لگانا ہوں گی اور اس راستے میں جو رکاوٹیں ہیں انہیں دُور کرنا ہوگا۔ قرضوں کے اسٹیرائیڈاب زیادہ دیر ہماری بیمار معیشت کو سہارا نہیں دے سکتے۔