پنجاب کے ضمنی انتخابات کا معرکہ اپنے حتمی مرحلے میں داخل ہو رہا ہے ۔ عمران خان اپنا بیانیہ عوام کے ذہنوں میں بٹھانے کی تگ ودو میں لگے ہیں تو دوسری طرف ن لیگ اپنی تجربہ کاری کو بروئے کار لاتے ہوئے کمال مہارت کے ساتھ فیلڈنگ سیٹ کرنے میں مصروف ہے کہ کوئی کوتاہی رہ نہ جائے ۔اسی سلسلے میں لیگی قیادت نے تمام حلقوں میں انچارج اور کوآرڈینیٹر مقرر کر دیے ہیں جو اپنی اپنی ٹیم کے ساتھ انتخابی مہم چلانے، جوڑ توڑکرنے ، ناراض دھڑوں کو ساتھ ملانے ،ووٹر لسٹوں کوترتیب دینے اور ووٹرز کو پولنگ اسٹیشن تک لانے سمیت تمام جزیات پر باریک بینی سے حکمت عملی تیار کر رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں ن لیگ نے اپنے کئی وزرا کو میدان میں اتار دیا ہے ، انتخابی مہم چلانے کے لیے ان سے استعفے تک لے لیے ہیں ۔پی پی 83 خوشاب کا انتخابی انچارج اعظم نذیر تارڑ کو مقرر کیا گیاہے، ساتھ میںشاہنواز رانجھا اور محسن رانجھا سمیت سترہ کوآرڈینیٹرز بھی دیے گئے ہیں ۔سعید اکبر نوانی کے حلقے بھکر میں امیر مقام اور مرتضی جاوید عباسی کو انچارج بنایا گیا ہے۔ راولپنڈی کے حلقے میں راجہ صغیر احمد کی مہم کا انچار ج شاہد خاقان عباسی کو مقرر کیا گیا ہے۔ فیصل آباد رانا ثنا ء اللہ کے حصے میں آیا ہے،نواب شیر وسیر اور علی گوہر بلوچ سمیت چار ایم این ایز ان کی معاونت کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔ جھنگ کی ذمہ داری عطا اللہ تارڑ کو دی گئی ہے ، سائرہ افضل تارڑ ان کا ساتھ دے رہی ہیں ۔شیخوپورہ احسن اقبال،ملتان خواجہ سعد رفیق ،لودھراں ملک احمد خان،لیہ رانا مشہود ، مظفر گڑھ خرم دستگیراور ڈیرہ غازی خان سردار اویس لغاری کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ ہر حلقے میں انچارج کو دس سے بیس کوآرڈینیٹرز دیے گئے ہیں جن میں موجودہ ایم این ایز اور ایم پی ایز بھی شامل ہیں ۔ انتخابی حکمت عملی بنانے کی یہی صلاحیت ن لیگ کو تحریک انصاف پر انتخابی برتری دلاتی ہے۔ تحریک انصاف میں جہانگیر ترین کے بعد جوڑ توڑ کی یہ صلاحیت کم کم دکھائی دیتی ہے۔ اسد عمر لاہور اور شیخوپورہ میں دکھائی تو دیے لیکن دفتر میں بیٹھ کر اور بریفنگ لے کر آ جاتے ہیں،وہ بیچارے کیا جانیں کہ ناراض دھڑوں کو منانے اور پانچ پانچ سات سات سو ووٹوں کی پاکٹس کو ساتھ ملانے کا کام کیسے کیا جاتا ہے۔ اکثر حلقوں میں تحریک انصاف نے ایسے امیدوار کھڑے کیے ہیں جن بیچاروں کی سات پشتوں میں سے کوئی الیکشن نہیں لڑا، امیدوار خود بھی پہلی بار ایم پی کا الیکشن لڑ رہا ہے ۔ لاہور کے حلقے 168کو ہی دیکھئے۔ ملک اسد کھوکھر کے مقابلے میں نواز اعوان کو ٹکٹ دے دیا گیا ہے، نواز اعوان کسی زمانے میں انصاف ونگ میں رہا، کبھی خود الیکشن لڑا نہ اس کے خاندان میں سے کوئی، مقابلہ ہے ن لیگ کے گڑھ میں اور وہ بھی اسد کھوکھر کے ساتھ ۔یہاں سے شہباز شریف الیکشن لڑتے رہے ۔عمران خان کو مگر اپنے بیانیے پر اتنا بھروسہ ہے کہ شاید کوئی آندھی چلے گی اور تحریک انصاف کے امیدوار کامیاب ہو جائیں گے۔ ہو سکتا ہے کسی حد تک عمران خان کو بیانیہ کا فائدہ ملے مگر کیا سبھی سیٹوں پر؟ تحریک انصاف الیکشن لڑنا جانے کب سیکھے گی۔ پچھلے کالم میں عرض کیا تھا کہ خوشاب میں تحریک انصاف کے ٹکٹ کے خواہشمند حامد محمود وڈھل ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد کھڑے ہیں ، انہیں منایا نہ گیا تو سیٹ خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ عید سے دو دن پہلے عمران خان سے زمان پارک میں ملاقات ہوئی تو صورتحال ان کے بھی گوش گزار کی۔ کہنے لگے ہاں میں خوشاب جا رہا ہوں وہاں جا کے دیکھتا ہوں۔ اس کے بعد خوشاب گئے تو جلسے میں فرمایا اس حلقے سے تحریک انصاف کا ایک اور امیدوار بھی کھڑا ہے مگر آپ نے بلے کے نشان پہ مہر لگانی ہے ۔ بھلا بتائیے یوں مینج کرنا تھا تو نہ ہی کیا ہوتا۔ کئی حلقے ایسے ہیں جہاں پی ٹی آئی آج تک اپنے امیدوار پیدا نہ کر سکی۔ لودھراں کے دو حلقوں پر انتخابات ہیں ، دونوں میںتحریک انصاف کے پاس امیدوار نہیں تھا۔ پی پی 224 میںپیر عامراقبال شاہ کو ن لیگ نے ٹکٹ نہیں دیا تو پی ٹی آئی کو امیدوار مل گیا۔ دوسرے حلقے پی پی 224 میں تحریک انصاف کے امیدوار عزت جاوید خان پارٹی سے بہت مخلص ہیں ، خود کہتے رہے پیر رفیع الدین بخاری زیادہ موزوں امیدوار ہیں وہ اگر ٹکٹ کے لیے مان جائیں تو میںدستبردار ہو جائوں گا ، رفیع الدین بخاری نہ مانے تو عزت جاوید کو ٹکٹ دینا پڑا،یعنی تحریک انصاف نے بھی انہیں نہ چاہتے ہوئے ٹکٹ دیا کہ کوئی اور آپشن نہیں تھا۔ شاید وہ انتخابی نتائج میں تیسرے نمبر پر رہیں گے۔ یہ درست ہے کہ تحریک انصاف کابیانیہ کافی مقبول ہے۔یہ بھی درست ہے کہ ن لیگ کو اس وقت مہنگائی کی وجہ سے شدید دبائو کا سامنا ہے ۔ الیکشن مگر اور سائنس ہے۔ رانا ثنا ء اللہ اکثر کہتے ہیں تحریک انصاف کے جلسوں میں نظر آنے والا کرائوڈ عمران خان کا فین کلب ہے،الیکشن مگر زمین پر ہوتے ہیں ۔ صحیح کہتے ہیں رانا ثنا اللہ، انہیں اپنی صلاحیتوں پر بھرپور اعتماد ہے اور تحریک انصاف کایہ پہلو کمزور ہے ۔ جب کمزوری ہوتی ہے تو ہمارے جیسے ملکوں میں حریف دھاندلی جیسے منصوبے بناتا بھی ہے اور اس میں کامیاب بھی ہوتا ہے۔ دھاندلی اسی سیٹ پر ہوتی ہے جہاں فرق دو تین ہزار ووٹوں کا ہو۔ دس ہزار ووٹوں کا فرق دھاندلی سے نہیں نکالا جا سکتا۔ خدشہ یہ ہے کہ تحریک انصاف اگر تیرہ سیٹیں جیت کر پنجاب میں حکومت نہ بنا سکی تو وہ دھاندلی کا شور مچائے گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف نے اپنی تمام کمزوریوں پر قابو پا لیا ہے اور جب تحریک انصاف انتخابی نتائج کے بعد دھاندلی کا شکوہ کر رہی ہو گی تو کیا اپنی باقی کمزوریوں کا تجزیہ بھی کر رہی ہو گی؟ ہار جیت کا فیصلہ تو 17 جولائی کو ہو گامگر اس وقت تک کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان کا بیانیہ مقبول ہے اور ن لیگ کی حکمت عملی بہتر ہے۔