طارق عزیز‘ دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں اپنا آخری سلام کہہ کر رخصت ہو گیا۔ طارق عزیز ہم سب کا تھا۔ہماری یادوں اور اجتماعی شعور کے تانے بانے میں گندھا ہوا۔اسی لئے تو اس کی رخصت کا دکھ ہم ایک دوسرے سے تعزیت کر کے بانٹ رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ ہر دل کا مکین تھا۔ اس کے جانے سے دل کا کونہ خالی ہو گیا ہے۔ ہمیں خبر بھی نہ تھی کہ ہم اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف‘ بظاہر اسے بھولے ہوئے۔ وبا کے موسم اور موت کی ارزانی کے قاتل زمانوں میں جب اس کے مرنے کی خبر سنیں گے تو ہماری آنکھیں جل تھل ہو جائیں گی۔ ٹپ ٹپ آنسوئوں کے قطرے رخساروں پہ بہنے لگیں گے اور آنسوئوں کے ان قطروں میں ان زمانوں کے نقش تیرتے ہوں گے جو اب صرف یادوں میں بہتے ہیں۔نیلام گھر اور طارق عزیز میری یادوں کے جگسا پزل کا وہ ٹکڑا۔ جس کے بغیر زندگی کی تصویر مکمل نہیں ہوتی۔ زندگی جب بے فکری کی دہلیز پر چہکتی تھی۔سکول کالج کی پڑھائیاں ‘ٹیسٹوں اور امتحانات کے سخت شیڈول میں ہم بہن بھائیوں کو ہفتے میں جو چند ٹی وی پروگرام دیکھنے کی اجازت ہوتی‘ ان میں نیلام گھر سرفہرست تھا۔ امی، ابو، بہن، بھائی ساتھ بیٹھ کر اطمینان سے نیلام گھر دیکھتے۔کبھی کسی لمحے سب کے ساتھ دیکھتے ہوئے خفت نہیں اٹھانی پڑی۔ہلکے پھلکے سوالوں سے لے کر علمی ادبی‘تحقیقی سوالات بیت بازی کے مقابلے۔ نئے نویلے جوڑوں کی آمد پر پس منظر میں بجتی شہنائی۔ کار جیتنے کا کانٹے دار مقابلہ۔ خاص مہمانوں کی آمد کے سگمنٹ اور ان سب میں توانائی سے بھر پور الحمرا کی سیڑھیاں موسیقی کے ردھم پر بھاگ کر اترنا چڑھناطارق عزیز۔ سماعتوں میں یہ آواز آج بھی گھنٹیاں بجاتی ہے۔ ’’ابتدا ہے رب جلیل کے پاک اور بابرکت نام سے۔ جو دلوں کے بھید خوب جانتا ہے‘‘ ہمیں خبر بھی نہ ہوئی کہ لاشعوری طور پر طارق عزیز ہماری فکری اور ذہنی تربیت کر رہا ہے۔ طارق عزیز اور اس کا نیلام گھر ایک پروگرام اور اس کے میزبان سے کہیں بڑھ کر ایک دبستان میں ڈھل چکے تھے۔ ایک سکول آف تھاٹ جو ذہن سازی کرتا ہے اور سکھاتا ہے۔ طارق عزیز نام کے ساتھ سینئر اینکر لکھنے والو!خدا کے لئے اس کی قدوقامت کو پہچانو۔ اینکر والی مخلوق تو جدید دور کی پیداوار ہے۔جس کا نہ ادب سے تعلق ہے نہ اسے حرف کی حرمت کا پتہ۔ نہ تلفظ سیدھا۔ نہ اپنی کوئی سوچ۔ ٹرینڈز کے بہائو میں بہتے ہوئے لوگ اور سیکھنے اور تلفظ سیدھا کرنے کے لئے جنہیں خود استاد کی ضرورت ہے۔جبکہ اینکرز کے اس ہجوم کے مقابل‘طارق عزیز اپنی ذات میں ایک دبستان تھا۔ وہ خود ایک ادارہ تھا اردو تلفظ اور لفظ کی نشست و برخاست کا استاد تھا۔دو نسلوں کی ذہنی اور فکری تربیت میں طارق عزیز کا کردار قابل قدر ہے میں تو ان روشن دماغوں کو بھی سیلوٹ کرتی ہوں جنہوں نے نیلام گھر جیسے علمی اور ادبی پروگرام کا اچھوتا خیال سوچا اور پھر ایسا پروگرام شروع کیاجو کئی دہائیوں تک پاکستانی نوجوانوں میں علم سیکھنے کی لگن اور جاننے کی جستجو کے ساتھ پاکستانیت سے محبت بھی ان کے ذہنوں میں انڈیلتا رہا۔پروگرام کے آخر میں طارق عزیز جب پوری طارق اور گہرے جذب کے ساتھ پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے تو وہ نعرہ پاکستان کے کروڑوں گھروں میں گونجتا۔ کروڑوں دل اس نعرے کی آواز پر دھمال ڈالتے۔طارق عزیز ایک ایسی ڈوری تھا جس میں سارے پاکستانی پروئے ہوئے تھے۔ جالندھر سے ہجرت کرنے والے ساہیوال میں آ کر آباد ہونے والے عبدالعزیز پاکستانی کا بیٹا طارق خود ایک سچا پاکستانی تھا۔ وہ پاکستان کا عاشق تھا۔ اپنی وصیت میں اپنے مالی اثاثے پاکستان کے نام کر گیا۔ ہائے ۔ہائے یہ کلی بھی اس گلستان خزاں منظر میں تھی! ہم تو ان طفیلیوں کے مارے ہوئے لوگ ہیں جو پاکستان کو کھا گئے۔ نوچتے رہے۔ خزانے خالی کر گئے۔ بیرون ملک جائیدادوں کے ڈھیر لگا لئے۔سوئس بینکوں منی لانڈرنگ اور پانامہ کیسوں کے درمیان یہ کیسی سویر جیسی اجلی خبر ہے۔ اپنی پوری طاقت اور گہرے جذب کے ساتھ پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے والا ہمارا طارق عزیز مرتے ہوئے اپنا سب کچھ پاکستان کے نام کر گیا ہے۔طارق عزیز ایک شخصیت نہیں ایک پورا عہد تھا۔ افسوس کے وہ عہد بیت گیا اور خوش بخت کہ جنہوں نے علم و ادب شعر اور تہذیب کا وہ عہد۔ وہ جیتا جاگتا کردار طارق عزیز کی صورت میں دیکھا۔ چند روز اور ہم طارق عزیز کو یاد کریں گے تو پھر اس کا نام ذہنوں سے فراموش ہو جائے گا۔ آنے والے دور میں کسی کو یاد بھی نہ رہے گا کہ کوئی ایسا دیوانہ بھی تھا کہ جو پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتا تھا تو اس کے بدن کا سارا لہو اس کی آواز کی طاقت بن جاتا۔ جس نے اس قوم کی دو نسلوں کی فکری تربیت میں اپنا حصہ ڈالا۔ جو مرتے ہوئے سب کچھ اسی دھرتی کے نام کر گیا۔ میڈیا کا کوئی انسٹی ٹیوٹ کوئی ادارہ۔ طارق عزیز کے نام پر کیوں نہیں ہو سکتا۔اگر سیاستدانوں کے نام پر ادارے ہو سکتے ہیںتو طارق عزیز کے نام پر کیوں کوئی ادارہ نہیں ہو سکتا۔ہم بہن بھائی کل طارق عزیز کی موت کی تعزیت آپس میں ایک دوسرے سے کرتے رہے۔ کیونکہ وہ ہماری اجتماعی یادوں کے جگسا پزل کا وہ اہم ٹکڑا ہے جس کے بغیر ہماری زندگی کی تصویر مکمل نہیں ہوتی وہ بھولنے والی نہیں یاد رہ جانے والی شخصیت ہے۔ ہم پرنم آنکھوں سے اپنے طارق عزیز کو الوداع کہتے ہیں۔ اب کوئی دوسرا طارق عزیز کہاں!