اس عید پر فلسطینی بچوں کو موت کی عیدی ملی یا پھر زخموں کی۔ عید پر ان کے گھر سجائے نہیں گرائے گئے۔ بہتوں کو یتیمی کا تحفہ ملا اور ان کی بستیاں مٹی اور ملبے کا ڈھیر بنا دی گئیں۔ پوری دنیا نے موت کے رقص کو دیکھا اور داد دی۔ مدد کے لئے کوئی نہیں آیا۔کہنے کو 52اسلامی ملک ہیں لیکن سب کو اپنی پڑی ہے اور فلسطین پرایا قضیہ ہے۔اپنی نبیڑ تو والا رویہ سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ تین چار دنوں میں ڈیڑھ سو سے زیادہ فلسطینی شہید ہوئے اور سینکڑوں زخمی۔ اتنی عمارتیں گرائی گئیں کہ غزہ کے دسیوں ہزار باشندے بے گھر ہو گئے۔ غزہ سے معمولی راکٹ چلتے ہیں‘90فیصد کو اسرائیل کا آئرن ڈوم سسٹم گرا دیتا ہے‘ باقی دس فیصد کچھ بہت زیادہ نتائج حاصل نہیں کر پاتے۔ اسرائیل راکٹ اور میزائل داغتا ہے‘ فلسطینیوں کے پاس کوئی آئرن ڈوم ہے نہ شیلٹر۔ چار دن کی اس کشمکش میں چار سے چھ اسرائیلی مرنے کی اطلاعات ہیں۔ ترکی واحد ملک ہے جو چیخ و پکار کر رہا ہے لیکن فوجی امداد کرنا اس کے بس میں نہیں۔ کاش وہ ایک الٹی میٹم بھی دے دیتا‘ امریکہ کے کان کچھ تو کھڑے ہوتے۔مصر اور امارات فلسطینیوں کا نام تک نہیں سننا چاہتے۔سعودی عرب نے اسلامی کانفرنس کا اجلاس طلب کیا ہے پتہ نہیں وہ کون سی تلوار چلائے گا۔ ترکی اور یورپی ممالک کے علاوہ امریکہ میں بھی فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں جے یو آئی نے یوم فلسطین منانے کا اعلان کیا ہے۔ باقی سارے کے سارے ایک پیج پر ہیں۔ اسرائیل کے وکیلوں کے پاس دلیلوں کی کمی نہیں۔ حماس کی قیادت کیا سوچ کر مزاحمت کر رہی ہے۔ غزہ پہلے ہی ایک جیتا جاگتا قبرستان ہے۔اسے یہ ناکارہ راکٹ کس نے دیے ہیں۔ کون ہے جو ممولے کو رخ پرندے سے لڑنے کا مشورہ دے رہا ہے۔ کس کا مفاد ہے۔ بہرحال مزاحمت کا ایسا جذبہ اور موت سے ایسی بے خوفی دنیا کو حیران کئے ہوئے ہیں۔ اگرچہ نفسیاتی اعتبار سے یہ حیرانی والی بات نہیں ،پیدا ہوتے ہی جو بچے پہلا منظر ہی موت کا دیکھتے ہیں‘ موت کا ڈر ان میں باقی نہیں رہتا۔ ان کے لئے معمول کا منظر موت‘ زندگی کو دیکھنا خلاف معمول ہو جاتا ہے۔ لندن میں زیک گولڈ سمتھ کھل کر اسرائیل کے حق میں مہم چلا رہا ہے۔ وہی جس کی مہم ہم نے چلائی تھی۔ فلسطینی مزاحمت اور بہادری کو سلام‘ حماس کی قیادت کی حکمت عملی پر البتہ سوال ضرور اٹھتے ہیں۔ اللہ اس لاوارث قوم کا وارث بنے۔ ٭٭٭٭٭ کشمیریوں کی مثال بھی فلسطین جیسی ہے۔ فلسطین پر سمندر پار سے آنے والے یہودیوں نے قبضہ کیا۔ کشمیر پر پڑوس کے بھارت نے۔کشمیر 1947ء میں آزادی کے فارمولے کے تحت پاکستان کا حصہ تھا۔ بھارت نے فارمولے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس پر قبضہ کر لیا اور کشمیریوں کے ساتھ تقریباً وہی کچھ کیا جو اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ کر رہا ہے۔ دونوں قضیوں کی عمر بھی ایک جتنی ہے۔ 73سال تک پاکستان کشمیریوں کے ساتھ کھڑا رہا، اس دوران کئی ایڈونچر ہوئے۔ کشمیریوں کو ریلیف مگر نہیں ملا، تکلیف میں البتہ اضافہ ہوا۔73سال بعد اب پاکستان کی پالیسی بدل گئی۔ وزیر خارجہ نے صاف کہہ تھا آئین کا آرٹیکل 270بھارتیوں کا داخلی مسئلہ ہے۔ یعنی کشمیری بھارتیوں اور غیر کشمیری بھارتیوں کا جھگڑا ہے۔ بعد میں وزیر خارجہ نے وضاحت کی کہ ان کا وہ مطلب نہیں تھا۔ پھر کیا مطلب تھا، انہوں نے بتایا نہیں، بتا بھی دیتے تو سمجھانے کے لئے کشمیریوں کو اور باقی پاکستانیوں کو البتہ خود ہی سمجھ آ گئی ہے۔ فلسطینیوں کی طرح کشمیری بھی لاوارث قوم ہیں۔ اب تو علی گیلانی بھی خاموش ہو گئے ہیں۔ عمر کی نو دہائیاں گزارنے کے بعد بھی ان کی ہمت جواں ہے لیکن اب ان کے ہاتھ میں کچھ رہا نہیں ہے اس لاوارث قوم کا بھی اب اللہ ہی وارث ہے۔ ٭٭٭٭٭ پاکستان میں اس بار غریبوں کی ریکارڈ تعداد نے عید منائی۔ خوشی کی بات ہے، اتنے غریب پاکستان میں پہلے کبھی نہیں تھے۔ اداروں کی رپورٹ ہے کہ پچھلے تین سال سے ہر سال ایک ملین گھرانے غربت کی لکیر کے نیچے لڑھکا دیے جاتے ہیں۔غریبوں کی تعداد ریکارڈ توڑ ہوئی کہ نہیں۔ تو اس بار غریبوں کی ریکارڈ تعداد نے عید منائی۔دوسرے لفظوں میں اتنے زیادہ غریبوں نے پہلے کبھی عید نہیں منائی تھی۔ غریب کی عید لکھنے کی چیز نہیں‘ کچھ ہو تو کوئی لکھے۔ لوگ عید کا چاند دیکھتے ہیں‘ غریب محض آسمان جو ان کے دامن کی طرح خالی ہے۔ سال بھر پہلے تک غریب بھی گوشت کھا لیتے تھے‘ ہائبرڈ مرغی کا۔ اس سال مرغی فارمز کے مالکان نے وہ بھی ان کی پہنچ سے نکال دیا۔ قیمت پانچ سو روپے کلو تک جا پہنچی۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار رمضان ایسا گزرا کر غریبوں نے تو کیا‘لوئر مڈل کلاس نے بھی پھل نہیں خریدے۔ وزیر اعظم بتا رہے تھے کہ پاکستانیوں کے پاس دولت آتی ہے‘ اسی لئے اس سال 15فیصد کاریں زیادہ فروخت ہوئی ہیں۔ وزیر اعظم نے واضح کر دیا کہ وہ کس طبقے کو پاکستانی کہتے اور سمجھتے ہیں۔ اسی کو جسے پرویز مشرف پاکستان کہتے سمجھتے تھے۔ جس طبقے کی دولت میں مشرف نے اضافہ کیا‘ اسی کو مزید دولت مند عمران نے بنایا تاکہ وہ پہلے سے زیادہ کاریں خرید سکے۔ یہ کون بتائے گا کہ پھل‘ سبزی‘ دالیں‘ گوشت ‘ کپڑے کی فروخت میں ان تین برسوں کے دوران کتنی کمی ہوئی؟