پاکستان میں عام آدمی کے لئے انصاف کی بات ایک گھسا پیٹا موضوع لگتا ہے۔ اخبار اور ٹی وی سکرین کے لئے ایسی خبروں میں زیادہ کشش نہیں ہوتی اور سوشل میڈیا پر باسی کڑی میں ابال کی طرح کبھی کبھار اس پر ٹرینڈ چلتا ہے اور چند گھنٹوں میں دم توڑ دیتا ہے۔ عدالتیں ‘تھانے ‘ہسپتال‘ فیکٹری کھیت کھلیان، پہاڑ، صحرا اور حتیٰ کہ دفتر اور گھر کے اندر تک کمزور استحصال کا شکار ہے۔ مختلف ادارے اور تنظیمیں اعداد و شمار جمع کرتی اور شائع کرتی ہیں۔ عام آدمی کے لئے انصاف ریاست اور سماج کی ترجیح نہیں ہے۔ لیکن جب خبر باہر سے آئے تو ہماری ٹی وی سکرینیں اور اخبارات کے صفحات اس عالمی دکھ میں شریک ہو جاتے ہیں۔ امریکی ریاست منی سوٹا کے شہر منی پولیس میں ایک کالے امریکی جارج فلائیڈ کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت نے پوری امریکی ریاست کو ہلا کر رکھ دیا ہے جیسے پورا سماج فلائیڈ کے لئے انصاف کے لئے کھڑا ہو گیا ہے اور ریاست کا ایک طبقہ ابھی تک تشدد پر ریاست کی بالادستی جیسے تصور پر اڑا ہوا ہے۔ جس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ریاست کے اداروں کو قانون نافذ کرنے میں بلا پوچھ گچھ من مانے طریقے اختیار کرنے کی اجازت دے دی جائے جبکہ سماج کا مطالبہ ہے کہ قانون کا نفاذ اداروں کے احتساب اور ان کے افعال میں شفافیت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس کی جڑیں نسل پرستی اور ابھرتے ہوئی سفید انتہا پسندی میں بھی گہری پیوست ہیں۔ لیکن کیا یہ بات پاکستان کے تناظر میں کی جا سکتی ہے؟کیا آج فروری 2019ء میں سانحہ ساہیوال کے متاثرین کسی کو یاد ہیں؟محکمہ انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں کے خلاف وزیر اعظم نے خود انکوائری کا حکم دیا ہے۔ اس انکوائری میں وہ کب کے بری ہو چکے ہیں اور اپنے فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے آٹھ سالہ ملازمہ زہرہ کو ملازمت دینے والے میاں بیوی نے تشدد کر کے مار دیا اور قصور صرف یہ تھا کہ اس نے طوطے اڑا دیے۔ ظلم اور بربریت کے یہ دو واقعات محض گلے سڑے نظام اور سماج کی مثال ہیں۔ ورنہ ایسے واقعات پنجاب کے طول و عرض میں مسلسل رونما ہو رہے ہوتے ہیں۔ پنجاب کے چیدہ چیدہ حادثات پر خبر بھی آ جاتی ہے اور ردعمل بھی آ جاتا ہے۔سرکار انکوائری بھی بٹھا دیتی ہے۔ بعد میں نتیجہ چاہے کچھ بھی ہو‘لیکن کیا میڈیا پر امیش بلوچ کے لئے ذرا سی بھی ہمدردی دکھا سکتا ہے؟ بلوچستان کے پورے مسئلے کو نہیں کم از کم اس کے المیے کو ایک انسانی پہلو سے دیکھ سکتا ہے کہ نہیں؟صوبہ خیبر پختون خواہ کے قبائلی اضلاع کی تو بات ہی بھول جانی چاہیے کہ اس پر بات کرنا کسی بھی فرد کی حب الوطنی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔کراچی سندھ سے گلگت بلتستان تک انصاف کا ایک ادھڑا ہوا نظام پڑا ہے۔ جس میں پیپ پڑ چکی ہے۔ ریاست اور سماج بجائے اس کے علاج کے اس پر پردہ ڈالے ہوئے ہیں۔ عام آدمی کے لئے انصاف اس نظام میں ایک لغو بات لگتی ہے یہاں اداروں ذرائع ابلاغ اور رائے ساز اداروں کو بڑے مسائل میں دلچسپی ہے۔مسئلہ عالمی علاقائی سطح کا ہونا چاہیے اربوں کی کرپشن کا پاکستان کی سیاست کو ادھیڑنے کا۔ اس سے کم پر رائے ساز اور ذرائع ابلاغ کے اداروں اس پر توجہ دینے کے روادار نہیں۔ اس کے علاوہ سب سازش ہے یا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ کورونا کی وبا کو جس طرح ریاست ڈیل کر رہی ہے اور اسی کے مطابق عام آدمی ردعمل دے رہا ہے۔ اس عمل اور ردعمل کے امتزاج سے دونوں اپنے رویے کے اعتبار سے ایک ہی صفحے پر آ گئے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے پر الزام تراشی کر رہے ہیں۔وبا ان کے سر پر کھڑی تماشا دیکھ رہی ہے۔ نظام انصاف کون چاہتا ہے؟ اور کس کے لئے؟ کیا مقتدر اشرافیہ اور اس کے ادارے نظام انصاف چاہتے ہیں؟ اگر ہاں تو کس کے لئے؟اپنے لئے؟ناہموار معاشروں اور کمزور ریاستوں میں قانون انصاف کے لئے نہیں بلکہ کمزور کو اس کے شکنجے میں پھنسا کر رکھنے کے لئے ہوتا ہے تاکہ اس کے سرکش جذبات کی بیخ کنی ہوتی رہے۔ انصاف کے نام پر سیاست اچھی ہو سکتی ہے لیکن انصاف کا یکساں نظام بنانا اس سیاست کے خاتمے کی صورت میں ہی نکل سکتا ہے۔ پاکستان میں تو حکومت بھی تحریک انصاف کی ہے؟اس نام سے آئیڈیلی ایک حکومت کا تصور ذہن میں آتا ہے جو ملک میں انصاف کے نظام کی اصلاح اور کمزور کے تصور کو ختم کرنے کے لئے کام کر رہی ہو۔ کوئی ہے کہ اعداد و شمار کی روشنی میں بتائے کہ گزشتہ دو سالوں میں نظام انصاف میں بہتری کے لئے کیا کچھ کیا؟یہ سوال زہرہ کی روح کا بھی ہے اور زخمی برامش بلوچ کا بھی۔ اگر اس کا جواب نہیں ہے تو کم از کم انجہانی جارج فلوئیڈ کو تو خراج تحسین پیش کر سکتے ہیں جس نے امریکہ جیسے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ اسے ہمارے جذبہ ایمان کو تقویت ملے گی۔