قرضہ دینے والے امیر ممالک جو زیادہ تر شمال میں واقع ہیں اور ایک استحصالی سودی نظام کی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں‘ عالمی سطح پر ایک ملک یا بہت بڑی کمپنی کی طرح کام کرتے ہیں اور قرضہ لینے والے غریب ممالک کو بھی وہ ایک ہی مقروض ملک یا زیر بار کمپنی کی طرح لیتے ہیں۔ ان کی صورت ایک خون چوسنے والے ساھوکار جیسی ہے جس کی مٹھی میں ایک کمزور مقروض کی گردن آ چکی ہو۔ ساٹھ کی دہائی کے ٹھیک بیس سال بعد جب ان قرضہ دینے والے ممالک کو اندازہ ہوا کہ اب دنیا بھر کے غریب ممالک کو ہم نے وسائل سے زیادہ خرچ کرنے کی عادل ڈال کر شکنجے میں کس لیا ہے تو پھر سودی نظام کا خاموش بیٹھا ہوا وہ عفریت جاگا۔ عالمی بینکاری و مالیاتی نظام کی آڑ میں چھپے ہوئے شکنجے کسی مگرمچھ کے جبڑوں کی طرح کھلنے لگے۔تمام مقروض ممالک اپنے قرض کی قسط اس جعلی کاغذی کرنسی سے ادا کرتے تھے جو اپنی محنت سے اگائی گئی فصلوں‘ زیر زمین خزانوں سے نکالی گئی معدنیات و تیل یا پھر تھوڑی بہت صنعتوں سے ہونے والی پیداوار کو عالمی منڈی میں بھیج کر وصول کرتے تھے اور وہی ہاتھوں ہاتھ ان سے قرض خواہ ممالک چھین لیتے تھے۔1982ء وہ سال ہے جب سودی مالیاتی نظام نے اپنا کریہہ چہرہ دکھان شروع کیا۔ عالمی تنازعات کے بنک (bank of international settlement)جو دنیا بھر کی کاغذی کرنسیوں کی حیثیت متعین کرتا ہے اس نے ان غریب ملکوں کی کرنسیوں کی حیثیت میں کمی کر دی۔ کمال کی بات یہ تھی کہ وہ غلہ زیادہ اگا رہے تھے۔ معدنیات زیادہ نکال رہے تھے بیرون ملک مزدوریاں کرکے سرمایہ زیادہ بھیج رہے تھے مگر ان کی کرنسی کی قیمت میں کمی کا عالمی فیصلہ کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ ممالک جو اشیا عالمی منڈی میں بھیجتے تھے ان کی قیمتوں میں بھی خطرناک حد تک کمی واقع ہو گئی۔ اب جو ملک اپنی چیزیں دوسرے ملکوں کو بیچ کر ایک لاکھ ڈالر کماتا تھا۔ پچاس یا ساٹھ ہزار ڈالر تک محدود ہو گیا۔ صرف ایک ملک میکسیکو کی کرنسی ’’پیسو‘‘ سولہ فیصد تک گر گئی۔ اس کے ساتھ ہی معیشت کی زبان میں گفتگو کرنے والے کچھ علمی اژدھا یہ منطق سامنے لے آئے کہ چونکہ دنیا میں افراطِ زر بہت زیادہ ہو چکی ہے اس لئے بنکوں کو شرح سود میں اضافہ کردینا چاہیے اور یوں امریکہ کے سنٹرل بنک نے سود کی شرح میں اس قدر اضافہ کر دیا کہ رہن یعنی mortgageکا ریٹ 18.4فیصد تک جا پہنچا۔ راتوں رات غریب مقروض ملکوں کی آمدن میں بدترین کمی واقع ہو گئی اور وہ اس قابل بھی نہ رہے کہ قرضوں کی اگلی سالانہ قسط تک ادا کر سکیں۔ ان تمام ملکوں نے دنیا بھر کے پرائیویٹ بنکوں سے درخواستیں کیں کہ ہمیں مزید قرضہ دیا جائے تاکہ ہم قسطیں ادا کر سکیں۔ تمام بنکوں نے انکار کر دیا اور الٹا یہ مطالبہ شروع کر دیا کہ چونکہ تمہاری معاشی حالت خراب ہو چکی ہے۔ اس لئے سب سے پہلے پرانے قرضے اتارو اور پھر نئے قرضوں کے بارے میں سوچنا۔ قرضوں کی قسطیں بند ہو گئیں‘ بنکوں کے ڈوبنے کا خطرناک الارم بجا دیا گیا۔ اب آیا ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف میدان میں۔ مقروض ملکوں سے کہا گیا کہ ہم تمہیں اتنا سرمایہ فراہم کر دیں گے جس سے آپ اپنے قرضوں کی سالانہ قسطیں ادا کرتے رہیں۔ اس کا بنیادی مقصد بنکوں کو ڈوبنے سے بچانا تھا کیونکہ اگر تمام ملک اکٹھے یک زبان ہوکر قرضوں کی واپسی سے انکار کر دیتے تو بنک ڈوب جاتے اور بیس سالوں کی محنت ضائع ہو جاتی۔ لیکن اس عالمی سودی اسٹیبلشمنٹ نے اس کا پہلے سے بندوبست کر رکھا تھا۔ ایسے کہ ان مقروض ملکوں کی قیادت کہیں کوئی ایسا غیرت مند اورباوقار شخص نہ تھا یہ سب کے سب وہ تھے جنہوں نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے سامنے اپنی قومی خود مختاری اور وقار کا سودا کر دیا تھا۔ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف نے اپنے اس ’’خیر خواہانہ‘‘ جذبے کا نام’’بنیادی تبدیلی ضرورت کے مطابقStructural Adjustmentرکھا۔ یہ پروگرام 1982ء سے آج تک بخیرو خوبی چل رہا ہے اور ہر وہ ملک جو اسی طرح قرضوں میں جکڑا ہوا ہو اس کا وزیر خزانہ قوم کو یہی خواب آور گولیاں کھلاتا ہے کہ ہمیں اب آئی ایم ایف کے پروگرام کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں۔ اس معاملے میں اسحق ڈار اور اسد عمر میں ذرا برابر بھی فرق نہیں کہ دونوں کے محدود دماغ اس عالمی سودی مالیاتی استحصالی نظام سے باہرسوچ ہی نہیں سکتے۔ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے اس سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام کے تین بنیادی مقاصد ہوتے ہیں جس کے لئے وہ مقروض ملکوں کو بیل آئوٹ پیکیج دیتے ہیں۔ 1۔ اس بات کو یقینی بنانا کہ تمام قرضے سود سمیت ادا ہوجائیں۔ 2۔ مقروض ملک میں ایسی بنیادی تبدیلیاں کرا دی جائیں جس سے معیشت آزاد (Liberalise)ہو اور اس پر عالمی مارکیٹوں کے دروازے کھل جائیں۔ ساتھ ہی ریاست کا معیشت پر عمل دخل اور اختیار کم سے کم کروایا جائے۔ 3۔ آہستہ آہستہ مقروض ملکوں کے لئے دنیا بھر کے ممالک میں موجود پرائیویٹ بنکوں سے قرض لینے کی راہ ہموار کی جائے اور بنک انہیں پہلے سے موجود قرضے کے باوجود مزید قرضہ دیں۔ان مقاصد کے حصول کے لئے ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف مقروض ممالک سے دو طرح کی شرائط منواتا ہے۔ پہلی بڑی سطح کی معیشت یعنی macroeconmicشرائط یہ ہیں کہ معیشت کو مستحکم کرنے کے لئے مقروض ملک دو کام کرے‘ ایک یہ کہ اپنی کرنسی کی قیمت کو فوری طور پر کم کر دے اس طرح اس ملک کی برآمدات میں اضافہ ہو گا زیادہ ڈالر ملیں گے اور قرضہ ادا ہو سکے گا۔ اس کا فائدہ قرضہ دینے والے ممالک کو ہو گا کہ ان کو اشیا سستی ملیں گی۔ لیکن مقروض ملکوں پر اس کا بدترین اثر ہوتا ہے ایک تو ان کی ضرورت کی اشیا یعنی تیل کھاد ادویات جو باہر سے آتی ہیں وہ مہنگی ہو جاتی ہیں‘ دوسرا انہیں پہلے سے کئی گناہ زیادہ اشیاء باہر بھیج کر ڈالر حاصل کرنا پڑتے ہیں تاکہ قرضے کی قسط دے سکیں۔ دوسری بڑی شرط یہ عائد کی جاتی ہے کہ اپنے ٹیکس کے نظام کو بہتر بنائیں۔ لوگوں سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کریں تاکہ آپ کے پاس ہر سال اتنا سرمایہ ضرور موجود ہو کہ آپ قرضے کی قسط ادا کر سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت اپنے زیر سایہ چلنے والے اداروں کو پرائیویٹ ہاتھوں میں دے تاکہ ان بڑے بڑے اداروں کو چلانے کے لئے دنیا بھر کے سرمایہ دار وہاں آئیں اور بالآخر اس ملک کے وسائل پر ان کا قبضہ ہو جائے۔ اگلا مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ عوام کو دینے والی رعایت۔ Subsidyخواہ وہ خوراک‘ ادویات زرعی بیج و کھاد یا کرایوں میں کیوں نہ ہو ختم کر دی جائے۔ یہ ہے وہ گھن چکر جس کے غلام ایوب خان کے وزیر خزانہ شعیب سے عمران کے خان کے وزیر خزانہ اسد عمر تک سب برابر ہیں۔ اس عالمی سودی اسٹیبلشمنٹ سے آزادی کا راستہ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں لاطینی امریکہ کے ممالک ایکواڈور‘ بولیویا اور وینزویلا نے اختیار کیا ۔ 2007ء میں ایکواڈور نے قرضوں کا آڈٹ کر دیا اور 80فیصد قرضے کو ناجائز قرار دے کر واپسی سے انکارکر دیا۔