یعنی اعلیٰ اور کفایتی میڈیکل سہولیات کی وجہ سے دنیا بھر سے لوگ علاج کروانے آتے ہیں۔ مگر خود عوام کی کیا حالت ہے؟ آکسفام کی رپورٹ کے مطابق صحت پر خرچوں کی وجہ سے ملک میں ہر سال 63ملین افراد غریبی کے دائرہ میں چلے جاتے ہیں۔ صرف 11فیصد اسپتال اور 16فیصد پرائمری ہیلتھ سینٹرز میں ہی باضابط علاج و معالجہ کی سہولیات میسر ہیں۔ عوام کے ان سوالات سے عاجز مودی حکومت اپنی زنبیل سے نئے انتخابی حربے نکالنے کی فکر میں ہے۔ حال ہی میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے ہندو اعلیٰ ذاتوں کو لبھانے کیلئے نوکریوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ان کیلئے دس فیصد کوٹہ مختص کیا گیا۔ وزیر قانون روی شنکر پرساد نے اسکو کرکٹ کے سلاگ اوورز میں چھکے سے تعبیر کیا اور یہ بھی بتایا کہ جو ں جوں انتخابات کی تاریخیں قریب آتی جائیں گی اور بھی چھکے لگنے والے ہیں۔ ذرائع کے مطابق خفیہ اداروں اور حکمران بی جے پی کے اپنے سروے کے مطابق عام انتخابات میں حکمران جماعت 543رکنی ایوان میں صرف 164نشستیں ہی حاصل کر پائے گی۔ یعنی 2014 ء کے مقابلے اسکو 118 نشستوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش میں جہاں مقامی پارٹیوں سماج وادی پارٹی اور دلتوں کی بہوجن سماج پارٹی نے اتحاد کا اعلان کیا ہے، بی جے پی کو بھاری نقصان ہو رہا ہے۔ اندازہ ہے کہ اس صوبہ کی 80پارلیمانی نشستوں میں اسکو 35نشستیں حاصل ہونے کی امید ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ میں اس صوبہ سے بی جے پی کی 70نشستیں ہیں۔ اس خسارہ کو پورا کرنے کیلئے بی جے پی کی نگاہیں مغربی بنگال، اڑیسہ نیز شمال مشرقی ریاستوں پر ٹکی ہیں، نیز اسکی کوشش ہے کہ جنوبی صوبہ تامل ناڈو کی 40 نشستوں پر اسکی اتحادی انًا ڈی ایم قبضہ کر سکے۔ گو کہ اپوزیشن کانگریس کی قیادت والے متحدہ ترقی پسند اتحاد کی پوزیشن بھی کچھ اچھی نہیں ہے، مگر علاقائی پارٹیوں کے ساتھ اگر وہ سیٹوں کا تال میل ٹھیک بٹھانے میں کامیاب ہوتی ہے تو یہ اتحاد 272کا ہدف پار کر سکتا ہے۔ ادھر متحدہ ترقی پسند اتحاد کی چیئرپرسن سونیا گاندھی اور انکے فرزنداور کانگریس کے صدر راہو ل گاندھی پر حکومت نے انکم ٹیکس محکمہ کے ذریعے شکنجہ کسا ہے۔ انکم ٹیکس نے انکو 100کروڑ روپے کی ٹیکس وصولی کا نوٹس بھیجا ہے۔ اگر کورٹ نے ٹیکس کی اس وصولی کے آرڈر کو برقرار رکھا، تو دونوں لیڈران نااہل قرار دئے جاسکتے ہیں۔ یعنی وہ انتخابات لڑ نہیں پائیں گے۔ اس ایشو کو لیکر بی جے پی اور حکومت کے اندر خاصا بحث و مباحثہ جار ی ہے۔ چند لیڈروں ، جن میں وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ اور ایک سینئر وزیر نیتن گڈکری وغیرہ شامل ہیں کا کہنا ہے کہ ان کو نااہل قرار دینے سے کانگریس ہمدردی کا کارڈ کھیل کر اقتدار میں واپسی کر سکتی ہے۔ وہ یاد دلاتے ہیں کہ 1978میں اسی طرح اسوقت کی جنتا پارٹی حکومت کی طرف سے اندرا گاندھی کو نظر بند اور پھر نااہل قرار دلوانا اسکو خاصا مہنگا پڑا تھا۔ سال بھر بعد ہی اندرا گاندھی عوامی ہمدردی بٹور کر دوبارہ اقتدار میں واپس آگئی تھی۔ وہیں بی جے پی کے دیگر لیڈران پاکستان کی مثال پیش کرتے ہیں ، جہاں سابق وزیر اعظم نوا ز شریف کی نااہلی نے عمران خان کیلئے اقتدار میں پہنچنے کا راستہ صاف کیا۔ علاو ہ ازیں ان کا خیال ہے کہ سونیا اور راہول کے انتخابی میدان سے ہٹنے سے کانگریس اپنا ترپ کا پتہ یعنی پرینکا گاندھی کو میدان میں اتارنے پر مجبور ہو جائیگی۔ ان لیڈروں کے مطابق بی جے پی شاید پرینکا گاندھی کی کرشماتی شخصیت اور سیاسی نفاست کا مقابلہ نہیں کر پائے گی اور اس کیلئے بہتر ہے کہ راہول ہی میدان میں برقرار رہے۔صوبوں کی انتخابی مہم میں اتر پردیش کے وزیراعلی یوگی ادیتہ ناتھ نے میںمنافرت پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن یہ باتیں رائے دہندگان کو مائل کرنے میں ناکام رہیں جو بے انتہا بیروز گاری ، امتیازو تفریق ، تشدد اور معاشی مصائب سے دوچار ہیں۔ خاص طور سے کسان طبقہ اس سے سب زیادہ متاثر ہے۔ بی جے پی نے سلگتے ہوئے عوامی مسائل کو حل کرنے کے بجائے مختلف جذباتی اور مذہبی عنوانات سے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی۔ مندر کے علاوہ طلاق ثلاثہ کا مسئلہ چھیڑا ، اور بھی کئی ایسے معاملے اچھالے ماب لنچگ کے بڑھتے ہوئے واقعات ، دلتوں اور مسلمانوں کو نشانہ بنانا وغیرہ لیکن یہ سب حربے رائیگاں گئے ۔قصہ مختصر کہ مودی اور بی جے پی حکومت کے خلاف بڑھتی ہوئی عوامی بے چینی کو ایک مضبوط متبادل اور پروگرام کے ذریعہ موثر طریقہ پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کانگریس کیلئے بھی ضروری ہے کہ سافٹ ہندوتوا سے دور رہ کر لبرل فورسز کی قیادت سنبھال کر اپنی ماضی کا غلطیوں کا ازالہ کرکے ایک سیاسی حکمت عملی ترتیب دے۔ (ختم شد)