میں اعلان کر چکا تھا کہ مجھے آج اپنے گزشتہ کالم کی اگلی قسط لکھنا ہے اور وزیر اعظم کے دورہ امریکہ کے احوال و کوائف کا تجزیہ کرنا ہے۔ مگر میں اپنے ارادے سے احتراز کرنے پر مجبور ہوں۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ عرفان صدیقی کی مضحکہ خیز انداز سے گرفتاری پرخاموش رہوں۔ میں خاموش رہا تو میرا ضمیر مجھے ملامت کرے گا۔ فرانس دوسری جنگ عظیم میں ایک بڑے کربناک تجربے سے گزرا۔ اس پر جرمنی نے پہلے ہی ہلے میں قبضہ کر لیا تھا جو شخص مزاحمت کی اس جنگ کا ہیرو بنا اور بعد میں فرانس کی تعمیر نو کی علامت بنا۔ اس کا نام ڈیگال تھا۔ فرانس ان دنوں الجزائر کی تحریک آزادی کو کچل رہا تھا۔ وہ اسے اپنی نوآبادی تسلیم ہی نہیں کرتا تھا۔ اسے فرانس کا حصہ سمجھتا تھا۔ درمیان میں ایک سمندر ہی تو تھا۔ مگر الجزائر عوام مان نہیں رہے تھے وہاں تحریک آزادی زوروں پر تھی۔ ایک شخص جو ڈیگال اور فرانس کی اس رائے کے خلاف ڈٹا ہوا تھا۔ وہ فرانس کا مشہور فلسفی ادیب ژاں پال سارتر تھا جس نے کیا کمال کی بات کی تھی کہ الجزائر میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس کا ذمہ دار میں ہوں۔ بلکہ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے‘ اس کا بھی ذمہ دار میں ہوں۔ لوگوں نے ڈیگال کو مشورہ دیا کہ سارتر کو گرفتار کر لو۔ اس مشورے میں فرانس کا میڈیا اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ اپنی نو آبادیوں کے بارے میں قابضین کی اکثریت ایسے ہی سوچتی ہے۔ مخالفانہ رائے رکھنے والوں کو غدار کہتی ہے۔ ڈیگال نے جو جواب دیا وہ آج تاریخ میں رقم ہے۔ اس عظیم مدبر اور نئے فرانس کے بانی صدر ڈیگال نے کہا میں سارترکو کیسے گرفتارکر سکتا ہوں۔ سارتر تو فرانس ہے۔ ملک ایسے بنتے ہیں اور مدبر ایسے ہوتے ہیں۔کسی اہل قلم اور اہل نظر کو یوں گرفتار کرنا کسی بھی حکومت کا گھنائونا جرم ہی کہا جا سکتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم مجرم کون ہے۔ نہ وزیر داخلہ اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں بلکہ یہ تک کہتے ہیں کہ جس نے یہ کام کیا‘ اس نے تحریک انصاف اور عمران خاں کی کوئی خدمت نہیں کی۔ مجھے کسی نے بتایا کہ اتوار کی چھٹی کے دن ہی ہبڑ دبڑ میں ان کی ضمانت بھی لے لی گئی ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ انہیں گرفتار کرنے والوں کی باز پرس کیسے ہوگی۔ جس خاتون مجسٹریٹ کے سامنے انہیں ہتھکڑیوں میں پیش کیا گیا اور اس نے چارج شیٹ سننے کے باوجود انہیں 12دن کے لئے جیل بھیج دیا اس سے کوئی سوال ہو گا یا نہیں کہ جناب آپ مسند انصاف پر براجمان تھی۔ یہ ہے آپ کا معیار انصاف! مجھے ایک بات یاد آئی جب امیر المومنین عمرفاروقؓ کی شہادت کی گھڑی آن پہنچی تو ان کی جانشینی کا سوال پیدا ہوا۔ جلیل القدر صحابہ کرام ؓمیں ان کے بیٹے عبداللہ بن عمر ؓکا بھی شمار ہوتا تھا۔ کسی نے ان کا نام بھی جانشینی کے لئے دے دیا۔ فاروق اعظمؓ نے یہ کہہ کر اسے رد کر دیا کہ اسے تو اپنی بیوی کو ٹھیک طرح سے طلاق دینا نہیں آئی‘ وہ مسلمانوں کی قسمت کے فیصلے کیا کرے گا۔ ہو سکتا ہے‘ ان کا یہ فرمان صرف موروثی طرز حکمرانی کی حوصلہ شکنی کے لئے ہو‘ مگر اس سے معلوم ہوتاہے کہ ہمارے ہاں کسی منصب پر بیٹھنے کی کتنی کڑی شرائط تھیں۔ معاف کیجیے کیا اعلیٰ عدلیہ کو اس بات کا جائزہ نہیں لینا چاہیے کہ ایسا شخص مسند انصاف وقفا پر بیٹھنے کا اہل ہو سکتا ہے‘ جو یہ بھی نہ پہچان کہ اس طرح کا مقدمہ کیا وقعت رکھتا ہے۔ کسی نے کہا ہے اس نے اس وقت ہتھکڑی کھولنے کا حکم کیوں نہیں دیا۔ جج ارشد ملک کی ویڈیو کے بعد یہ بھی ایک ایسا معیار ہے جس پر کسی مسند انصاف پر بیٹھے ہوئے شخص کو پرکھنا چاہیے‘ چاہے یہ اختیار اسے انتظامی طور پر حاصل ہو۔ پولیس نے جو کرنا تھا کیا‘ مگر اس طرح جیل بھیجنا بھی ایک افسوسناک واقعہ ہے۔ ویسے عرفان صدیقی کی ہتھکڑی سے کیا تذلیل ہونا تھی۔ مجھے یاد ہے جب مجھے اس مرحلے سے گزرنا پڑا‘ اب تو یہ برسوں پرانی بات ہے‘ بھٹو صاحب کا زمانہ تھا تو شہید صلاح الدین نے دیکھتے ہی تاسف کا اظہار کیا۔ اس وقت ہمارا شمار نوجوانوں میں ہوتا تھا۔ مجھے یادہے میں نے شاید ان کی دلجوئی کے لئے ہتھکڑیوں کو چوما اورعرض کیا کہ پریشان نہ ہوں۔ ہتھکڑی تو مردوں کا زیور ہے۔ عرفان صدیقی نے تو ہاتھ میں قلم بھی پکڑا ہوا تھا۔ بھئی یہ کوئی جرم ہے جو آپ نے بتایا ہے۔ ذرا حساب کتاب کر کے بتائیے اسلام آباد میں کتنے لوگ ہوں گے جنہوں نے اس فارمیلٹی کو پورا کیا ہو گا باقی تو بحث مجھے کرنا ہی نہیں کہ یہ مقدمہ ہی کیسا بودا‘ لغو اور گھٹیا قسم کا تھا۔ ہماری عدلیہ کے چیف صاحب آج کل ججوں کی تربیت کرنے میں لگے ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ جھوٹی گواہی کو نشان عبرت بنا دینا چاہتے ہیں کوئی ایسا ہی بندوست کر دیں کہ جھوٹا مقدمہ بنایا ہی نہ جا سکے۔ پولیس والا اپنی وردی کے اندر کانپ کانپ جائے کہ اگر مقدمہ جھوٹا ہوا تو اس کا کیا بنے گا۔ جو کچھ ہوا‘ بہت غلط ہوا اس لئے نہیں کہ عرفان صدیقی سے میرے برادرانہ تعلقات ہیں‘ وہ میرے رفیق کاربھی رہے ہیں بلکہ اس لئے بھی کہ یہ بات میں صرف اپنے دو دوستوں کے بارے میں کہتا ہوں‘ ایک اوریا مقبول جان کے حوالے سے اور دوسرے عرفان صدیقی کے حوالے سے کہ یہ قوت ایمانی میں مجھ سے بہت آگے ہیں۔ اس وقت تفصیل میں جانے کا محل نہیں‘ وگرنہ یہ بھی کوئی جرم ہے کہ وہ وزیر اعظم کا تقریرنویس رہا ہے۔ حضور‘ اس طرح تو میں نے بھی چار پانچ سربراہان کی تقریریں لکھی ہیں اور الحمد للہ بغیر کسی معاوضے کے۔ صاف کہہ دیتا تھا کہ میں سیاسی تحریروں کا معاوضہ نہیں لیناI don't charge for political writings.تفصیل عرض کر کے میں کوئی اپنی شان بلند نہیں کرنا چاہتا۔ صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ نے توفیق دی ہو تو فرض نبھانا ہم پر واجب ہوتا ہے۔ عرفان صدیقی نے اپنا فرض نبھایا ہے اور اب اس کی یہ ہتھکڑیاں لگی تصویر تاریخ میں امر ہو گئی ہے۔ کم بختوں نے اس طرح کی بدتمیزی کرتے ہوئے یہی سوچ لیا ہوتا کہ مملکت پاکستان نے اسے ہلال امتیاز کا اعلیٰ اعزاز بھی عطا کر رکھا ہے۔ اس اعزاز کی بھی توہین کر دی۔ جیل میں سنا ہے ‘ سی کلاس کے سیل میں رکھا۔ اللہ انہیں ہدایت دے۔ ہلال امتیاز سے یاد آیا یہ ہمارے دوست عطاء الحق قاسمی کو بھی مل چکا ہے۔ انہیں بھی عدالتوں میں بہت تنگ کیا گیا۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اپنی ڈھب کے آدمی تھے۔ پوچھا کرتے تھے آپ کی اہلیت کیا ہے۔ صدیق الفاروق نے تو اس کا جواب دے دیا مگر قاسمی ذرا مرنجاں مرنج واقعہ ہوئے ہیں ۔کسی ایسے شخص سے پوچھنا کہ ٹیلیویژن کی سربراہی کے لئے آپ کی اہلیت کیا ہے۔1۔ جسے ہلال امتیاز مل چکا۔2۔ جو دو ممالک میں پاکستان کا سفیر رہ چکا ہو۔3۔ جو ملک کا ایک مسلمہ ادیب ہو۔4۔ جس کے لکھے ڈرامے ٹی وی پر ہٹ ہو چکے ہوں۔5۔جو نیشنل آرٹ کونسل کا سربراہ رہا ہوں اور عالمی سطح کی کانفرنسیں کروا چکا ہو۔6۔ اس کے علاوہ بھی عالمی سطح پر اس کی پذیرائی کے بے شمار ثبوت ہوں۔ اسے اگر پوچھا جائے آپ کو آپ کی کس خوبی کی بنا پر ٹی وی کا سربراہ بنایا گیا تو یہ ایک عجیب سی بات ہو گی۔ اس سے آگے کچھ کہنا مناسب نہیں‘ مگر بہت سوں سے بہت سی باتیں پوچھی جا سکتی ہیں۔ بہرحال عرفان صدیقی صاحب‘ ہم آپ سے شرمندہ ہیں‘ یہ قوم آپ سے شرمندہ ہے اور ہم اس قوم سے شرمندہ ہیں کہ وہاں ایسا بھی ہوتا ہے۔ خدا ہمیں راہ راست پر لائے۔