سوویت یونین جیسی سپر طاقت کو اپنی تیار کردہ عسکری تنظیموں کی مدد سے توڑ دینا اتنی بڑی کامیابی تھی کہ اسے پیش نظر رکھ کر کوئی بھی آرام سے یہ سوچ سکتا تھا کہ یہ تجربہ کشمیر میں بھی کیوں نہ کر لیا جائے ؟۔ افغان جہاد کے دوران 1984ء میں پاکستانیوں پر مشتمل پہلی عسکری تنظیم بن چکی تھی جو اگلے تین سالوں میں تین ٹکڑوں میں بٹ کر تین الگ الگ تنظیموں کی شکل اختیار کر چکی تھی۔ پھر جماعت اسلامی کی البدر وغیرہ ملا کر سوویت افواج کے انخلاء تک پاکستانیوں کی پانچ تنظیمیں وجود میں آ چکی تھیں۔ اس زمانے میں میری ان تنظیموں میں سے حرکت المجاہدین کے شعبہ اطلاعات و نشریات سے وابستگی رہی۔ میں نے 1988ء سے قبل افغانستان یا پاکستان میں ان تنظیموں کی سطح پر کبھی "جہاد کشمیر" کا ذکر نہیں سنا۔ ہر طرف صرف افغان جہاد کی ہی بات ہوتی تھی لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ ان تنظیموں کی افغان مجاہدین کو کوئی ضرورت تھی نہیں۔ افغان جہاد پر آئی ایس آئی کا مکمل کنٹرول تھا، اس کی مرضی کے بغیر وہاں مچھر بھی پر نہیں مار سکتا تھا چہ جائیکہ پاکستانی اس کی منشاکے بغیر ہی کوئی عسکری تنظیم بنا لیتے۔ یہ تنظیمیں بنی بھی اور امریکہ سمیت کسی کو ان پر اعتراض بھی نہ تھا۔ عسکری تنظیموں کی ماں سی آئی اے جو اپنی تاریخ میں دنیا بھر میں 100 کے لگ بھگ عسکری تنظیموں کو جنم دے چکی ہے۔ اس نے بھی کبھی یہ غلطی نہ کی کہ کسی ملک میں عسکری مداخلت کے لئے امریکیوں کو ہی تربیت دے کر ان پر مشتمل عسکری تنظیمیں بنائی ہوں۔ امریکی عسکریت جب کسی ملک میں قدم رکھتی ہے تو وہ اس کی فوج ہی ہوتی ہے امریکی عسکریت پسندوں پر مشتمل کوئی تنظیم نہیں۔ نائن الیون کے بعد والے عرصے میں بلیک واٹر جیسی تنظیمیں ضرور نظر آتی ہیں یہ نظریاتی نہیں بلکہ "سکیورٹی بزنس" کی کمپنیاں ہیں جو سی آئی اے کی معاونت کرتی ہیں۔ اسی طرح جرمنی، اٹلی، ویت نام اور فلسطین میں کے جی بی نے روسیوں پر مشتمل کوئی عسکری تنظیم نہیں بھیجی بلکہ مقامی لوگوں کو بھرتی کرکے ان سے کام لیا۔ ہم واحد ملک ہیں جس نے اپنے ہی شہریوں کو عسکری تربیت دے کر ان کی تنظیمیں بنا ڈالیں۔ ہماری اس غلطی کا سفارتی اور قانونی محاذ پر تحریک آزدی کشمیر کو جو بے انتہانقصان ہوا وہی دیکھ لیں۔ اقوام متحدہ کا چارٹر اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اگر کسی علاقے کے لوگ اپنے ملک کے ساتھ نہ رہنا چاہیں یا کوئی قابض فوج آ گئی ہو اور وہ اس کی غلامی سے انکار کرتے ہوئے ہتھیار اٹھا کر آزادی کی منزل کا سفر شروع کرنا چاہیں تو ایسا کر سکتے ہیں اور اس کی عسکری کارروائیاں بین الاقوامی برادری کی نظر میں عین قانونی ہوں گی۔ اس قانون کے مطابق سید صلاح الدین کی حزب المجاہدین کشمیر کی ایک قانونی عسکری تنظیم تھی اور دنیا کا کوئی بھی قانون اس کی عسکری کار روائیوں کو چیلنج نہیں کرتا۔ بین الاقوامی قانون جہاں کشمیریوں کو عسکری تنظیم بنانے کی اجازت دیتا ہے وہیں بیرونی عسکریت کو مسترد بھی کرتا ہے۔ قانونی طور پر بین الاقوامی برادری کی نظر میں لشکر طیبہ اور حرکت الانصار وغیرہ کی کوئی حیثیت نہیں تھی اور یہ سب کی نظر میں گھس بیٹھیے ہی تھے۔صرف حزب المجاہدین اور جے کے ایل ایف ہی ایسی تنظیمیں تھیں جنہیں گھس بیٹھیے نہیں کہا جا سکتا تھا اور جو بالکل جائز عسکری تنظیمیں تھیں۔ میں جانتا ہوں کہ پاکستان سے کوئی لانچنگ نہیں ہو رہی اور یہاں سے کوئی جہادی کشمیر میں داخل نہیں ہو رہے بلکہ اس وقت وہاں ان کی اپنی انتفاضہ جاری ہے جس میں ہمارا ہاتھ نہ ہونے کا فائدہ یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری بھارت سے کہہ رہی ہے کہ موجودہ تحریک میں تو پاکستان کا ہاتھ نہیں لھذا یہ کشمیریوں کی جائز آواز ہے۔ لیکن بھارت کوئی بھی واردات کرکے اس کی ذمہ داری پاکستان کے سر ڈالنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ وہ ہر بار اس مقصد کے لئے حافظ سعید اور مسعود اظہر کا نام استعمال کرتا ہے۔ اسے اس کا موقع اس لئے ملتا ہے کہ مذکورہ شخصیات کا جہادی بیان بازیوں کا شوق ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ یہ اب عسکریت میں ملوث نہیں ہیں لیکن دنیا کو باور یہی کراتے ہیں جیسے ان کی پرانی سرگرمیاں بدستور جاری ہوں۔ ماضی کے جہاد کشمیر میں تو مولانا فاروق کشمیری اور گل زمین سمیت اور بھی کئی شخصیات شریک تھیں، بھارت ان کا کوئی ذکر نہیں کرتا۔ وجہ اس کی یہی ہے کہ وہ دیگر شخصیات کسی بیان بازی کے ذریعے اپنی موجودگی کا احساس نہیں دلاتیں۔ سو لازم ہے کہ حافظ سعید اور مسعود اظہر وغیرہ کو سائلنٹ موڈ پر ڈالا جائے۔ یہ جتنا بولیں گے اتنا ہی بھارت فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا رہے گا۔ (جاری ہے)