انسان غلطی کا پتلا ہے کوئی شخص ایسا نہیں جو غلطیوں سے پاک ہو‘ بہت سے لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ عمران خان نے اقتدار میں آنے کے بعد آپ کے خیال میں اب تک کی سب سے بڑی غلطی کون سی کی ہے۔ میرے خیال میں عمران خان کی اب تک کی سب سے بڑی غلطی بلاول بھٹو زرداری کو جواب دینا ہے کیونکہ ایک ایسے شخص جس نے اپنی پہچان کے لئے اپنے والد کے بجائے اپنے نانا کا سابقہ لگایا ہو اس کے حملوں کا جواب وزیر اعظم دے کر اس کا قد بڑھا رہے ہیں۔ بلاول زرداری کو جواب تحریک انصاف کی دوسرے یا تیسرے درجے کی قیادت کو دینا چاہیے لیکن کیونکہ تحریک انصاف میں بہت سے لوگ پاکستان پیپلز پارٹی سے تحریک انصاف میں آئے ہیں ان کی جتنی بھی تحریک انصاف سے جذباتی وابستگی ہو مگر یہ حقیقت ہے کہ یہ لوگ بلاول بھٹو کو جواب دینے سے ہچکچاتے ہیں جس کی وجہ سے عمران خان کو سامنے آنا پڑتا ہے۔ گزشتہ دنوں پاکستان کے معتبر صحافی ایک کھانے کی دعوت پر مدعو تھے وہاں بھی ملکی صورتحال پر بحث چل نکلی تو اکثر دوستوں کا اس بات پر اتفاق تھا کہ پاکستان کے لئے اب تک آئینی طور پرجو بات سب سے زیادہ غلط ہوتی ہے وہ اٹھارویں ترمیم ہے ۔سیاسی طور پر اگر آپ دیکھیں تو اٹھارویں ترمیم کو نواز شریف نے اپنی مجبوری کی وجہ سے سپورٹ کیا تھا کیونکہ نواز شریف کو تیسری بار وزیر اعظم بننے پر پابند ختم کروانا تھی اس لئے انہوں نے پیپلز پارٹی کی طرف سے لائی جانے والی اٹھارویں ترمیم کی حمایت کی۔ پیپلز پارٹی نے بھی نواز شریف پر تیسری بار وزیر اعظم بننے کی آئینی پابندی تو ختم کروا دی مگر زرداری نے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے آئینی طور پر ملک کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا وہ اس طرح کہ کسی بھی ملک میں تعلیم صحت اورروزگار ایسے شعبوں میں یکسانیت ہم آہنگی ہوتی ہے مگر اٹھارویں ترمیم کے ذریعے تعلیم صحت ایسے اہم شعبوں کے ساتھ صوبوں سے حاصل ہونے والے وسائل کے خرچ کا اختیار بھی صوبوں کو دے گیا مگر سندھ پنجاب بلوچستان اور کے پی کے میں تعلیم اور صحت کی سہولتوں کے لئے جو عالمی سطح پر قرضے حاصل کئے جاتے ہیں ان کی ادائیگی وفاق کے ذمہ ہو گی یعنی ان شعبوں کی ترقی کے لئے وفاقی حکومت جو عالمی اداروں سے قرض لے گی وہ ادا بھی وفاقی حکومت کو کرنا ہوں گے اور جو ماضی میں قرض لئے گئے وہ بھی وفاق ہی ادا کرے مگر سندھ حکومت جو 120یا 125بلین روپے وصولیات اکھٹا کرتی ہے وہ سندھ میں اپنی مرضی سے خرچ کر سکتی ہے وفاق کو دینے کی پابند نہیں‘ اٹھارویں ترمیم کا نتیجہ کیا نکلا آصف زرداری نے پیپلز پارٹی کے دور میں وفاقی حکومت نے بے شمار قرضے لئے اسی طرح نواز شریف نے بھی ملکی تاریخ کے ریکارڈ قرضے لئے‘ اب ان کی ادائیگی وفاق کو کرنا پڑ رہی ہے ماضی میں نواز شریف اور زرداری کا گٹھ جوڑ تھا اس لئے وفاقی حکومت جو قرضے لے رہی تھی اپوزیشن خاموش تھی مگر اب جو عمران خان قرضے لے رہے ہیں وہ حقیقت میں ماضی کے قرضوں کا سوداتارنے کے لئے جا رہے ہیں اس کے باوجود مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی طرف سے شور مچایا جا رہا ہے حالانکہ یہ قرضے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے لئے تھے ملک اب اس دوراہے پر کھڑا ہے جسے اگر آگے چلنا ہے تو ہمیں اس آئینی عدم توازن کو متوازن کرنا ہو گا‘ورنہ ہم پاکستان کمزور سے کمزور تر کرتے جائیں‘ اٹھارویں ترمیم اس لحاظ سے بھی عوام کو احتیاط رہنے کے نام پر بھونڈا مذاق ہے کیونکہ اٹھارویں ترمیم کے تحت تو وفاق سے اختیارات صوبوں اور صوبوں سے بلدیاتی اداروں کو منتقل ہونا تھے مگر ماضی کی حکومتیں وفاق سے وسائل لے کر قابض ہو بیٹھیں اور بلدیاتی اداروں کو فعال ہی نہیں کیا گیا حقیقی معنوں میں اٹھارویں ترمیم کا فائدہ عوام کو نہیں بلکہ مٹھی بھر سیاسی اشرافیہ نے اٹھایا ہے اور دونوں جماعتوں نے ملک کو دونوں ہاتھوں سے مل کر لوٹا ہے۔ بات تو ہو رہی تھی عمران خان کی سب سے بڑی غلطی کی جو میرے خیال میں بلاول بھٹو کو جواب دے کر اس کے سیاسی قد میں اضافہ کرنا ہے ‘اگر مجھ سے کوئی یہ پوچھے کہ عمران خان کی اس وقت تک کی سب سے بڑی کامیابی کیا ہے تو میرے خیال میں ان کی سب سے بڑی کامیابی موروثی سیاست کا خاتمہ ہے یہ الگ بات ہے کہ عمران خان کی پارٹی میں بھی بہت سے لوگ ہیں جو موروثی سیاست کر رہے ہیں، چاہے ان میں پرویز خٹک ہوں یا کوئی اور۔ عمران خان خود موروثی سیاست پر یقین نہیں رکھتے بہت سے لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ عمران خان نے اقتدار کے لئے الیکٹ ایبلز کا سہارا لیا اور ان کی جماعت میں مسلم لیگ ن ‘ق لیگ اور پیپلز پارٹی سے بہت سے لوگ آئے ہیں میرے خیال میں یہ تنقید اس لحاظ سے زیادتی ہو گی کیونکہ راتوں رات تبدیلی تو ممکن نہ تھی‘ مگر عمران خاں نے تبدیلی کا آغاز کر دیا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت میں دوسری پارٹیوں سے آنے والے بھلے ہی کابینہ میں پہلی صف میں کھڑے ہوں لیکن عمران خان کی یہ کامیابی کیا کم ہے کہ پارلیمنٹ میں 50فیصد ارکان نئے اور نوجوان ہیں جن کا سیاسی گھرانوں سے وابستہ نہیں اگر عمران خان کی حکومت پانچ سال پورے کرتی ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ اگلے الیکشن میں باقی گند بھی صاف ہو جائے گا اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مستقبل میں ملک کی باگ دوڑ نوجوانوں نے سنبھالنا ہے۔ اپوزیشن عمران خان کے پیچھے پیچھے لٹھ لے کر پڑی بھی اسی لئے ہے کیونکہ اس نے سیاسی اشرافیہ کے بچوں کا مستقبل تاریک کر دیا ہے ان کو اپنے بیٹوں نواسوں نواسیوں کے پارلیمنٹ پہنچنے کے امکانات ختم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ہمارے ایک دوست ہیں جو ایک اخبار میں کالم لکھتے ہیں وہ کہہ رہے تھے کہ مریم صفدر کا پاکستان کی سیاست میں بڑا اہم کردارہے کہنے لگے دیکھیں پہلے اس نے اپنے گھر والوںکے تعلقات خراب کئے ‘بھائیوں میں اختلاف پیدا کیا پھر موصوفہ وزیر اعظم ہائوس پہنچی تو والد صاحب کو جیل تک لے گئیں ‘پھر پارٹی تباہ کر دی اب نئی تبدیلی یہ آئی ہے کہ مسلم لیگ میں عہدوں کی بندر بانٹ ہوئی ہے اس میں مریم بی بی نائب صدر ہیں جو سزا یافتہ ہے اسحاق ڈار غیر ملکی امور کے سربراہ بنائے گئے ہیں جو ملک سے مفرور ہیں پرویز رشید کو جیل میں ہونا چاہیے جو لوگ عدالتوں سے سزا یافتہ ہیں وہ مسلم لیگ ن کی قیادت کر رہے ہیں الیکشن کمشن خاموش تماشائی بنا ہوا ہے حقیقت یہ ہے کہ قومی خزانے کے مجرم اب اکٹھے ہو رہے ہیں عمران خان کے کڑے احتساب سے ان کی سانسیں بند ہو رہی ہیں ‘اس لئے مل کر عمران خاں کے خلاف چیخ و پکار کر رہے ہیں یہاں تک کہ افواہیں اڑائی جا رہی ہیں کہ جیسے خدانخواستہ ملک میں مارشل لا آ گیا ہے۔ یہ شور مچایا جا رہا ہے کہ سٹیٹ بنک کا گورنر آئی ایم ایف کے ایک ریجن ڈائریکٹر کو لگا دیا گیا ہے ۔حالانکہ اس شخص کا ایک عالمی ادارے کا اہم عہدیدار ہونے کا مطلب ہی اس کی قابلیت کا ثبوت ہے وہ ایک پڑھا لکھا اہل شخص ہے مالیاتی امور پر گہری نظر رکھتا ہے عالمی اداروں کے نقطہ نظر کو سمجھتا ہے ایسے شخص کی پاکستان کے لئے خدمات اچھی بات ہے‘ پاکستان اکیسویں صدی میں عالمی تنہائی کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔پاکستان کو عالمی امور اور عالمی معاملات میں اپنا بھر پور کردار نبھانا ہے ایسے شخص کا گورنر سٹیٹ بنک بننا بہتر ہو گا جو عالمی معاملات اور اداروں کی سمجھ بوجھ رکھتا ہو۔ ہمیںخیالوں کی جنت سے باہر نکلنا ہو گا ۔اللہ پاکستان کو بحرانوں کا شکار کرنے والوں اور بدخواہوں سے محفوظ و مامون رکھے۔