فکر انجام کر انجام سے پہلے پہلے دن تو تیرا ہے مگر شام سے پہلے پہلے ہم بھی سوتے تھے کوئی یاد سرہانے رکھ کر ہاںمگر گردش ایام سے پہلے پہلے بس طبیعت پر گرانی تھی کہ حالات ہی کچھ ایسے بنتے جا رہے ہیں وگرنہ واسوخت لکھنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ میں اچھی امید رکھنے والوں میں ہوں مگر اشارے تو چھٹی حس سمجھتی ہے چلیے بات آغاز کرنے سے پہلے ایک دلچسپ بلکہ پرلطف بات کرتے چلیں کہ عمران خاں نے ایک شعر غلطی سے اقبال کے نام منسوب کر دیا۔ وہ شعر میں تصحیح کے ساتھ لکھے دیتا ہوں: نہ عروج دے نہ زوال دے مجھے صرف اتنا کمال دے مجھے اپنی راہ پر ڈال دے کہ زمانہ میری مثال دے انہوں نے کہا کہ علامہ اقبال کی یہ نظم میری زندگی کو ظاہر کرتی ہے جب احساس ہوا تو انہوں نے اپنی غلطی کی تصحیح کر دی۔ اب یہ معلوم نہیں کہ انہیں یہ شعر علامہ اقبال کی وجہ سے پسند آیا تھا یا کوئی اور وجہ تھی۔ بہرحال شعر اچھا ہے اور یہ ایک دعا ہے۔ اچھی بات ہے کہ وہ پے درپے غلطیاں کرتے ہیں اور پھر ان کو مانتے بھی جاتے ہیں۔ یوٹرن لینا اپنی غلطی کا اعتراف ہی تو ہوتا ہے۔ میں شعر کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ کمال کی بات تو یہ ہے کہ خان کو عروج بھی اللہ نے خوب دیا اور زوال کا بھی اہتمام وہ خود کرتا جاتا ہے۔ حال ہی میں سٹیل مل پر ان کے فیصلہ پر ان کی پرانی ویڈیو بار بار چلائی جا رہی ہے جس میں وہ شدو مد سے دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ نجکاری کے بغیر ہی اسے ٹھیک کر کے دکھائیں گے اور ان کی سنگت اسد عمر کر رہے ہیں اب بتائیے انسان اپنی ہنسی کیسے روک سکتا ہے خان کے لئے ایک شعر لکھ دیتے ہیں: یہ جمال کیا یہ جلال کیا یہ عروج کیا یہ زوال کیا وہ جو پیڑ جڑ سے اکھڑ گیا اسے موسموں کا ملال کیا مگر ہم خان صاحب کی دعا پر آمین کہیں گے کہ خدا سچ مچ اسے اپنی راہ پر ڈال دے کہ جو صراط مستقیم ہے اور زمانہ اس کی مثال دیا کرے مگر اچھی مثال ‘ بری نہیں۔ اگر وزیر اعظم نے غلطی سے بھی اقبال کا نام کوٹ کر دیا تو ہمیں اچھا لگا کہ اقبال ان کے ذہن میں ہے۔ ہو سکتا ہے یوم اقبال پر چھٹی بحال وہ کر دیں۔ کوئی اقبال کے اس شعر کی تفسیر ان کو سنا دے جو اپنے کالم میں اوریا مقبول جان نے لکھا اور میں نے اس پر قطعہ باندھ دیا۔ میرے معزز قارئین!ان دو مصرعوں پر میں دیر تک سردھنتا رہا۔ وہ جو میر نے کہا تھا’’دیر تلک سرد دھنیے گا‘‘دونوں مصرعے الگ الگ دو کوزوں میں دو دریا بند خان جی کسی صاحب بصیرت سے اس شعر کو سمجھیں تو آپ سچ مچ بدل جائیں گے مصیبت یہی ہے کہ شعر بغیر سوچے پڑھ دیا جاتا ہے جیسے نواز شریف ہر تقریر میں پڑھتے تھے: اے طائرِ لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی مگر جن کا رزق ہی ایسا ہو کہ بس۔خیر اصل شعر جو میں پڑھانا چاہتا ہوں: اصل او در آرزو پوشیدہ است زندگی در جستجو پوشیدہ است میں نے تو بے ساختہ اس کا منظوم ترجمہ کر دیا تھا کہ آرزو سے کھلتا ہے ہر آدمی۔ جستجو سے بنتی ہے یہ زندگی۔ وہی کہ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی۔ اقبال نے کمال انداز میں آرزو کا ذکر کیا کہ اس سے کسی کے ارادے کھلتے ہیں اس کا نصب العین سامنے آتا ہے۔ مجھے یہاں مولانا حمید حسین صاحب کی بات یاد آ گئی کہ کیا ہم نے مسلمان ہونے کے ناتے کبھی سوچا کہ حضور کریمﷺ کی آرزو کیا تھی اور پھر کیا کبھی ہم نے اپنی آرزو کو ان کی آرزو پر قربان کیا۔ اقبال کے ہاں آرزو کے معنی تلاش کرنے کی ضرورت اس لئے نہیں کہ اس کی اساس ہی قرآن و سنت ہے ۔ وہ تبھی ممکن ہے مومن کی اصل اس کی آرزو ہی میں پنہاں ہے اور پھر زندگی تو جستجو اور سعی کا دوسرا نام ہے پورا اسلام کا فلسفہ اسی عملیت پر کھڑا ہے کہ جہاں جمود موت ہے بات تو ساری ذہن رسا اور دل پر سوز کی ہے: ظرف ہر ایک کا خواہش میں چھپا ہوتا ہے جو ترستا ہے سمندر کو وہ صحرا ہو گا میں عمران خاں سے اچھا گمان رکھتا ہوں کہ اس کے دل میں غریب کا درد ضرور ہے مگر اس کے اردگرد بے درد لوگ ہیں اور تو اور کچھ صاحب کہتے ہیں کہ دل ابھی بھرا نہیں۔ خان نے ہمارے دل کی بات کی کہ تنخواہ داروں کی تنخواہوں میں آئی ایم ایف کے کہنے پر ہم 20فیصد کٹوتی نہیں کر سکتے۔تنخواہ دار بیچارے تو پہلے ہی مرے ہوئے ہیں ۔ مرے کو مارے شاہ مدار۔ ساری مہنگائی تنخواہ دار ہی جھیل رہے ہیں‘یقینا پاکستان کے عوام اس وقت مشکل حالات میں پھنسے ہوئے ہیں اور لے دے کے اب انہیں ہی کورونا وائرس کے پھیلائو کا ذمہ دار قرار دے دیا گیا ہے۔ ویسے لوگوں کو سوچنا ہو گا کہ اس میں کچھ کچھ حقیقت بھی ہے کہ ہم نے پابندیوں کو درخور اعتنا نہیں سمجھا اور سب کچھ ایک مذاق سمجھتے رہے۔ اب ایک دوسرے پر الزام دھرنے کا فائدہ تو کچھ بھی نہیں۔ اب کیا جائے؟کم از کم ہر کوئی اپنے آپ کو بچانے کا منصوبہ بنا لے کہ سماجی طور پر خود کو ذرا دوسروں سے الگ رکھے۔ کم از کم کہیں جائے تو ماسک ہر صورت میں استعمال کرے۔ اب یہ ڈھکی چھپی بات نہیں کہ بڑے شہروں سے یہ وبا چھوٹے شہروں کی طرف جا رہی ہے ۔ بلاول کا کہنا درست نہیں کہ کورونا جان بوجھ کر پھیلایا گیا۔ یہاں کے آزاد طبع لوگوں کو زیادہ دیر مقید نہیں کیا جا سکتا۔ پھر یہ محنت کشوں کا ملک ہے وہ کتنی دیر بھوکے رہ سکتے ہیں۔ بات وہی آتی ہے کہ کورونا کے ساتھ رہنا سیکھنا پڑے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ آٹا چینی مہنگی نہ ہونے دے خاص طور پر آٹا تو روز کی ضرورت ہے اور یہ مہنگا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ آخری بات عوام کے لئے کلام پاک کی کہ ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہی ہے۔ مشکل وقت قوموں پر آتے ہیں۔صبر اور دعا شامل حال ہو تو راستے نکل آتے ہیں۔ ’’مجھے یقیں ہے کہ پانی یہیں سے پھوٹے گا‘‘