وزیر خزانہ شوکت ترین نے 8487 ارب کا بجٹ پیش کر دیا ہے۔ حکومت اسے عوام دوست بجٹ کا نام دے رہی ہے جبکہ اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ یہ عوام دشمن بجٹ ہے۔ اپوزیشن کی بات سے ہٹ کر اگر ہم دیکھیں تو یہ غلط بھی نہیں کہ ہر بجٹ الفاظ کا گورکھ دھندہ اور اعداد و شمار کا مجموعہ ہوتا ہے مگر اس بجٹ میں تھوڑا سا سچائی سے بھی کام لیا گیا ہے کہ وزیر خزانہ نے کہا کہ 383 ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد کئے گئے ہیں اور اس کے بدلے 119 ارب روپے کی مراعات دیں گے جس کا مطلب یہ ہے کہ عوام کی جیب سے تین روپے نکال کر ایک ایک واپس کرنے کی بات کی گئی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں برقرار رہیں گی جو کہ ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ وہ وقت گیا جب بجٹ پورے سال کیلئے ہوتا تھا۔ اب ہر ماہ نیا بجٹ پیش ہوتا ہے۔اس سلسلے میں پٹرول کی قیمتیں مثال کے طو رپر پیش کی جا سکتی ہیں اور یہ بھی دیکھئے کہ بجٹ میں آئندہ سال کیلئے 610 ارب روپے کا پٹرولیم لیوی کا ہدف رکھا گیا ہے۔ پٹرولیم لیوی دراصل ایک بھتہ ہے جو عوام سے لیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ میں اسے غلط قرار دیا تھا وفاقی حکومت کے پاس یہ تیل کی قیمتیں بڑھانے کا ایک ہتھیار ہے جب تیل کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو دیگر اشیائے ضرورت کو خود بخود آگ لگ جاتی ہے۔ بجٹ کی بہت سی خصوصیات ہیں ایک یہ بھی ہے کہ وزیر خزانہ نے ’’خوشخبری‘‘ دی ہے کہ اس سال گندم کی بمپر پیداوار ہوئی ہے مگر آٹا مہنگا رہے گا۔ بجٹ میں ایوان صدر کے اخراجات کیلئے 22 کروڑ کا اضافہ جبکہ وزیر اعظم ہائوس کے اخراجات کیلئے 40 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ نے موجودہ بجٹ کو خسارے کا بجٹ قرار دیا ہے اور خسارہ بھی معمولی نہیں 3990 ارب روپے ہے اگر خدانخواستہ خسارے کا بجٹ نہ ہوتا تو نہ جانے ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم کیلئے مزید کتنا بجٹ مختص ہوتا۔ پوری دنیا میں تعلیم کیلئے سب سے زیادہ بجٹ رکھا جاتا ہے مگر اس بجٹ میں صرف 50 ارب اور زراعت جو کہ ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے کیلئے صرف 12 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ کورونا ویکسین جو کہ پاکستان کو چین و دیگر ممالک سے امداد کے طو رپر ملتی رہی ہے کی خریداری کیلئے 1.1 ارب ڈالر رکھے گئے ہیں۔ ویسے دیگر بہت سے منصوبوں کو دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ بجٹ الیکشن کے ماحول کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہے۔ ہر حکومت اپنے بجٹ کو سب سے اچھا کا سرٹیفکیٹ خود دیتی ہے لیکن ہمیشہ حقائق اس کے برعکس ہوتے ہیں۔ جس بجٹ میں صرف سود کی ادائیگی کیلئے 3060 ارب روپے رکھے گئے ہوں وہ عوام دوست بجٹ کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ پاکستان کے غریبوں کو کبھی وہ دن بھی دکھائے گا کہ پاکستان قرض لینے کی بجائے قرض دینے والا ملک بن جائے۔ ہر بجٹ کو غریب دوست بجٹ کا نام دیا جاتا ہے ۔ کسی بھی ملک کیلئے تعلیم صحت اور روزگار کا مسئلہ اہم ہوتا ہے۔ ہر بجٹ میں صحت کیلئے بہت تھوڑا بجٹ رکھا جاتا ہے۔ لیکن اس کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ گزشتہ مالی سال میں صحت کیلئے مختص کی گئی رقم میں سے صرف 39 فیصد خرچ ہوئی۔ سرائیکی وسیب میں بجٹ میں اپنے حصے کے حصول کیلئے گزشتہ دو ہفتوں سے مسلسل احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ لیہ میں وزیر اعظم سے ملاقات ہوئی میں نے اُن کی توجہ مبذول کرائی تو انہوں نے وعدہ کیا کہ وسیب کی محرومی اور پسماندگی ختم ہو گی ۔ موجودہ وفاقی بجٹ میں پسماندہ علاقوں کی ترقی پروگرام کے تحت بلوچستان کیلئے 601 ارب کی لاگت سے 199 منصوبوں کی تعمیر پر مشتمل پیکیج بنایا گیا ہے اور پہلی قسط کے طور پر اس بجٹ میں 120 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کیلئے 739 ارب روپے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ بجٹ میں 92 ارب روپے رکھے گئے ہیں گلگت بلتستان کیلئے 40 ارب روپے دیئے گئے ہیں۔ پسماندہ علاقوں کی ترقی کے تحت سندھ کے 14 پسماندہ اضلاع کیلئے 444 ارب روپے کے منصوبے بنائے گئے ہیں اور پہلی قسط کے طور پر 195 ارب روپے جاری کئے جائیںگئے ۔ خیبرپختونخواہ کے ضم شدہ اضلاع کی ترقی کیلئے 154 ارب روپے رکھے گئے ہیں اور یہ ظلم ملاحظہ کیجئے کہ سرائیکی وسیب کو پسماندہ علاقے میں نہ تو شامل کیا گیا ہے اور نہ اس کیلئے کوئی رقم رکھی گئی ہے۔ بجٹ میں زکریا یونیورسٹی انسٹیٹیوٹ آف صوفی ازم کیلئے رقم رکھی گئی ہے مگر سرائیکی زبان و ادب کی ترقی کیلئے نہ تو کوئی نیا شعبہ بنایا گیا ہے اور یونیورسٹیوں میں پہلے سے موجود سرائیکی شعبہ جات کیلئے کوئی رقم دی گئی ہے۔ وسیب کے لوگ ٹیکس فری انڈسٹریل زون کا مطالبہ کر رہے تھے اور نئی موٹرویز کی تعمیر کے مطالبات بھی سامنے آئے تھے مگر موجودہ بجٹ میں پہلے سے موجود ایم این روڈ اور انڈس ہائی وے کیلئے بھی رقم نہیں رکھی گئی۔ سرائیکی وسیب کے لوگ صوبائی حکومت کی طرح مرکزی حکومت کو بھی برابر ٹیکس کی ادائیگی کرتے ہیں۔ وفاقی حکومت کی طرف سے اس بجٹ میں وسیب کے لئے کوئی تعلیمی ادارہ نہیں دیا گیا جبکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ وفاقی حکومت کیڈٹ کالج اور نسٹ کی طرز پر ایک یونیورسٹی پسماندہ وسیب کو دیتی مگر افسوس کہ کچھ نہیں دیا گیا۔ وزیر خزانہ اور وزیر اعظم کا وسیب سے تعلق ہونے کے باوجود صورتحال یہ ہے تو وسیب کے لوگ کس کو دوش دیں اور کس سے فریاد کریں؟ وزیر اعظم عمران خان نے راجن پوراور ملتان ابھی حال ہی میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ سائوتھ میں جتنی غربت اور پسماندگی ہے میں نے کہیں نہیں دیکھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ علاقہ بہت ذرخیز ہے مگر سابق حکمران اس علاقے کے وسائل لاہور پر خرچ کرتے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان جو باتیں کر رہے تھے وہ محض دل بہلانے کی باتیں تھیں؟ عمران خان نے وسیب کی محرومی اور پسماندگی ختم کرنے کے ساتھ ساتھ صوبہ بنانے کا وعدہ بھی کر رکھا ہے، مگر وسیب کی محرومی اور پسماندگی کب ختم ہو گی؟ اور صوبہ کب بنے گا؟ یہ وسیب کے ہر شخص کا سوال ہے۔