توڑ ڈالے ہیں جو دریا نے کنارے سارے کون دیکھے گا تہہ آب نظارے سارے نظرانداز کیا میں نے بھی اس دنیا کو اور دنیا نے بھی پھر قرض اتارے سارے دریا بپھر جائے تو وہ اپنے ہی کنارے توڑ دیتا ہے اور پھر سیلاب تو آنا ہی ہے اسی لئے اکثر سمجھدار لوگ دریا کا تیور دیکھ کر اپنا انتظام کر لیتے ہیں۔ سیلاب‘ آندھی اور طوفان کا اندازہ سب سے پہلے جانوروں کو ہوتا ہے اور وہ بولنے لگتے ہیں موسم میں زیادہ شدت‘ تو پرندے ہجرت بھی کر جاتے ہیں۔کہتے ہیں صحرا میں جب ریت کا طوفان آنا ہو تو اونٹ رخ بدل کر چلنے لگتے ہیں۔ وہی جو کہا گیا کہ اڑتی سی ایک خبر ہے زبانی طیور کی مگر اب تو خزاں کے آثار ہیں، چہروں کے اڑے ہوئے رنگ بتا رہے ہیں کہ پیلے پتے گرنے والے ہیں اساں پیلے پتر درختاں دے ساکو رہندا خوف ہواواں دا۔شاکر شجاع آبادی نے یہ بھی تو کہا تھا کہ دعا جانے خدا جانے تیرا کام تو ویا جلانا ہے پھر ہوا جانے خدا جانے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ زمانے بھر کی باتیں کرنے والے شیخ رشید کو بھی پریشانی میں درست محاورے نہیں سوجھ رہے۔ فرماتے ہیں کہ نواز شریف نے کشتیاں جلا دی ہیں قبلہ یہ تو بہت مثبت محاورہ ہے اور اس کے پیچھے ایک عظیم واقعہ ہے کہ جہاں طارق بن زیاد نے کشتیاں جلا دی تھیں کہ واپس کوئی نہیں جائے گا اب ہمیں یہاں جینا مرنا ہو گا۔ پھر آسمان نے دیکھا کہ جلتی ہوئی کشیوں کی روشنی نے ان کے راستے اجال دیے مجھے تو اپنے دوست ازہر درانی کا شعر یاد آ گیا: مرے خدا مجھے طارق کا حوصلہ ہو عطا ضرورت آن پڑی کشتیاں جلانے کی کشتیاں تو کسی مقصد کے لئے جلائی جاتی ہیں اور وہ بھی دشمنوں کے خلاف اکٹھے ہو کر ایک عہد باندھا جاتا ہے یہ تو اپنا ملک ہے نواز شریف نے کہاں جانا ہے یہ یہیں کی مٹی ہے سب کو یہیں سمانا ہے۔ناراضگی ہے ،دور ہو جائے گی۔ چلیے آپ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ نواز شریف نے اپنی کشتی میں پتھر بھر لیے ہیں یا وہ خود ہی اپنی کشتی میں سوراخ کر چکے ہیں ۔ویسے کشتی کا ذکر آ گیا تو پھر یوں لگتا ہے کہ نواز شریف دو کشتیوں کے سوار ہیں بڑا مشکل کام ہے کہ کوئی ایسے اپنا توازن برقرار رکھ سکے۔ خان صاحب یہ فرما رہے ہیں کہ نواز شریف فوج کو اکسا رہے ہیں کہ آرمی چیف اور آئی ایس چیف کو بدلو عام سا فہم رکھنے والا شخص بھی سمجھ سکتا ہے کہ یہ ایک پیغام ہے اور کس کے لئے ہے! بوجھ ہے مجھ پہ وہی حرف تسلی اس کا کاش وہ گائو لگاتا مجھے تلوار کے ساتھ خان صاحب کو چاہیے کہ اپوزیشن کے ساتھ معرکہ آرا ہوں جیسے کہ انہوں نے کہا بھی ہے کہ نواز شریف نے زرداری کو جیل میں ڈالا اور ان پر سارے کیس ن لیگ کے زمانے میں بنائے گئے اور بھی بہت سی باتیں ہیں کہ جب زرداری نے اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کی تو نواز شریف نے ان سے ملاقات موقوف کر دی۔ یہ لوگ تو ویسے بھی ہرجائی ہیں کہ انہوں نے جماعت اسلامی سے بھی بے اعتنائی برتی۔ بلکہ لوگوں کو ٹیشو پیپر کے طور پر استعمال کیا۔ حافظ حسین احمد تو صاف ماتم کناں ہیں کہ ہر مقام پر وہ پھسل گئے دوسروں کو بائیکاٹ پر لگا کر خود الیکشن میں آ گئے اور ہارنے کا فریضہ ادا کیا کہ یہی جمہوریت کا طرز ہے کہ دوسرے کی باری پر پکھنڈ نہ ڈالا جائے۔ یہی تو مسئلہ ہے کہ بلاول کو اپنی باری کا یقین چاہیے یہ بھی پیغام ہی ہے کہ گلگت کے بعد وہ وفاق میں آئیں گے۔ یہ ان کی خواہش نہیں حق ہے۔ اب حصہ دار تین ہیں: لاکھ اس سے تمہاری یاری ہے لیکن اب کے ہماری باری ہے میرا خیال ہے کہ فوج اب کسی کی باتوں میں نہیںآئے گی اچانک مجھے قمر رضا شہزاد کا شعر یاد آ گیا کہ: کسی عشق و رزق کے جال میں نہیں آئے گا یہ فقیر اب تری چال میں نہیں آئے گا خان صاحب آپ کی لڑائی تو مہنگائی سے بنتی ہے۔ بدانتظامی سے بنتی ہے اور لاقانونی سے بنتی ہے۔ ۔دوائیوں کی قیمتیں سن کر لوگ اور بیمار ہو جاتے ہیں۔ وہ لوگ جو متعدی بیمار ہیں یعنی شوگر بلڈ پریشر وغیرہ کے جنہیں روزانہ کی بنیاد پر دوائی کھانا پڑتی ہے۔ ایک شخص کا پڑھ کر تو میری آنکھوں میں آنسو آ گئے کہ بیماری کے لئے بیٹے پیسے مانگنا اذیت ناک ہے کہ دوائیاں کئی گنا مہنگی ہو چکی ہیں ۔ مریم نواز کے جلسوں میں جو ہزاروں لوگ کشاں کشاں آ رہے ہیں وہ کوئی تماشا یا کوئی نظارہ کرنے نہیں آتے۔ مرتے ہوئے آدمی کو تو اسرا چاہیے۔ کوئی تو آئے جو ان کے چولہے دوبارہ جلائے۔ ان کو ہسپتال میں دوائی دستیاب ہو۔ جینا مشکل ہے تو مرنا ہی آسان کر دے۔ حکومت کے اپنے ترجمانوں کی بات میں اعتماد نہیں۔ اتحادی بھی یہی کہتے پائے جا رہے ہیں کہ بس اب چلا چلائو ہے اور پھر اعتراض پر بات گول کر جاتے یں کہ چل چلائو کا مطلب یہ ہے کہ اڑھائی سال بھی ایسے ہی گزر جائیں گے۔آپ مانیں یا نہ مانیںیہ سوچیئے کہ عوام کو کون اکسا رہا ہے: ایک خلقت ہے کہ نفرت سے بھری بیٹھی ہے ایک طوفان سا لوگوں نے چھپا رکھا ہے آپ خود بتائیے کہ شاہ محمود قریشی فرماتے ہیں کہ معاشی بحران پر جلد قابو پا لیا جائے گا یہ جلد سے کیا مراد ہے کتنے سال بعد؟سارے مشیر وزیر بھی سرجوڑ کر بیٹھے ہیں کہ آٹے اور گندم کی قیمتیں کم کروانی ہیں۔ دوسری طرف عوام اپنے سر پکڑ کر بیٹھے ہیں کہ ان کے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ مسلسل ایک رنڈی رونا ہے۔ معاف کیجیے کہ یہ محاورہ ہے بڑا بلیغ۔بہرحال رائے ونڈ کا اجتماع شروع ہے دوسرا دن ہے توبہ کے دروازے کھلے ہیں آخرت بھلانے والے خسارے میں ہیں۔ آخرت تو کیا ،مادہ پرست تو خدا ہی کو بھول چکے ہیں۔ غریب اور لاچار کو یاد رکھنا خدا کو یاد کرنا ہی تو ہے۔قمر ریاض کے ایک شعر کے ساتھ اجازت: تم سے باہر نکل کے دیکھا تو تم سے باہر بھی ایک دنیا تھی