عوامی مسائل حل کرنے میں عدم دلچسپی اور غفلت کا مظاہرہ کرنے والے سینکڑوں افسران کے خلاف وزیر اعظم عمران خان نے کارروائی کی ہدایت کی ہے۔ پرفارمنس ڈیلیوری یونٹ کی مرتب کردہ رپورٹ پر کارروائی کرتے ہوئے چیف سیکرٹری پنجاب نے ایسے 1586افسران کے ڈیش بورڈ کی پڑتال کی۔ وزیر اعظم کے دفتر نے عوامی شکایات بروقت حل نہ کرنے والے 833افسران کو محتاط رہنے کا انتباہ کیا جبکہ 403کی فرض شناسی کو سراہا۔ وزیر اعظم کے دفتر سے جاری مراسلے میں سیکرٹری اطلاعات‘ سیکرٹری زراعت‘ سیکرٹری ایکسائز اور سیکرٹری آبپاشی کے علاوہ 20ڈپٹی کمشنر حضرات کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کا کہا گیا ہے۔ ضلعی‘صوبائی اور قومی سطح پر مختلف ذمہ داریاں ادا کرنے کے لئے ملک بھر میںتعینات ہزاروں سرکاری افسران ہیں۔ امن و امان برقرار رکھنا‘ریونیو کے معاملات شفاف اور حکومتی ترجیحات کے تحت چلانا‘ اشیائے ضروریہ کی طلب و رسد میں توازن برقرار رکھنا اور مہنگائی پر قابو پانا‘ عوام کے جان و مال کا تحفظ‘ تعلیمی اداروں اور صحت کے نظام میں بہتری لانا‘ شہریوں کے لئے کھیل و تفریح کے مواقع پیدا کرنا‘ ٹرانسپورٹ‘ شفاف پانی‘ شجر کاری‘ سڑکوں و گلیوں کی مرمت‘ بجلی نظام میں موجود خرابیاں دور کرنا‘ صنعتوں کے لئے سازگار ماحول یقینی بنانا اور بدعنوانی کا خاتمہ ایسی چند ترجیحات میں شامل ہیں جو فرائض کی ادائیگی کے دوران افسر شاہی پیش نظر رکھتی ہے۔ موجودہ حکومت کو غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی‘ گردشی قرضے‘ ہر شعبے میں گھسے مافیاز اور عوام دشمن گروہوں کے ساتھ بیک وقت مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔ حکومت نے پٹرول کے نرخ کم کرنے کا فیصلہ کیا تو پٹرولیم مافیا نے پورے ملک میں تیل کی قلت پیدا کر کے حکومت کو بے بس کر دیا‘ حکومت گندم اور آٹے کے نرخ قابو میں رکھنے کے لئے ہاتھ پائوں مارتی ہے لیکن پس پردہ قوتیں اسے ناکام کر دیتے ہیں۔ حکومت گلیوں اور سڑکوں پر سے کوڑا اٹھانا چاہتی ہے مگر متعلقہ محکمے تکنیکی مشکلات کھڑی کر دیتے ہیں۔ حکومت نے قبضہ مافیا کو شکنجے میں جکڑنے کی حکمت عملی اپنائی مگر یہاں بھی کچھ سیاستدان اور مافیاز مل کر کھڑے ہو گئے۔ اکتوبر 2018 میں وزیر اعظم کی ہدایت پر پاکستان سٹیزن پورٹل بنایا گیا ۔اس کے تحت لوگ ملک بھر سے کسی بھی سرکاری محکمے، بلدیاتی اداروں اور دیگر کے خلاف شکایت درج کروا سکتے ہیں۔شہریوں کی شکایات اور شناخت کے اندراج کے بارے میں ’پرائم منسٹرز پرفارمنس ڈیلیوری یونٹ‘ (پی ایم ڈی یو) کے حکام بتاتے ہیںکہ زیادہ تر شکایات میونسپل سروسز (بلدیاتی اداروں) کے متعلق ہیں۔ایسی شکایات درج کرتے ہوئے شہریوں کو اپنا شناختی کارڈ نمبر دینا ہوتا ہے مگر شکایت کنندہ کا شناختی کارڈ نمبر و دیگر تفصیلات شہریوں کی حفاظت کی غرض سے صیغہ راز میں رکھی جاتی ہیں۔حقیقت اس کے برعکس ہے،شکایت کرنے والے متعدد افراد کے بیانات رپورٹ ہو چکے ہیں،ان افراد کے بقول ان پر دباو ڈالا گیا کہ اپنی شکایت واپس لیں یا اس کے حل ہونے کی رپورٹ داخل کر دیں۔کورونا وائرس کی وبا پھیلنے اور لوگوں کے گھروں تک محدود ہو جانے کے بعد اس پورٹل کے صارفین میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ۔ اعداد و شمار کے مطابق اس پورٹل پر اب تک 30 لاکھ سے زائد شکایات موصول ہو چکی ہیں جن میں سے لگ بھگ ساڑھے ستائس لاکھ شکایات کو حل کیا جا چکا ہے اور بقیہ حل ہونے کے مراحل میں ہیں۔سب سے زیادہ یعنی 43.63 فیصد شکایات پنجاب کے شہریوں نے درج کروائی ہیںگزشتہ برس کی رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت کے اداروں کے خلاف 257 ,699 شکایات، خیبرپختونخوا کے شہریوں نے 553 ,243 شکایات، سندھ میں 434 ,159 شکایات، بلوچستان میں 556 ,18، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 990 ,7 شکایات اور گلگت بلتستان کے شہریوں نے 436 ,2 شکایات درج کروائیں۔پاکستانی قوم بحیثیتِ مجموعی اخلاقی اور روحانی بحران میں مبتلا ہے۔ عوام سے لے کر اہم مناصب پر فائز ذمہ دار حضرات تک میں اپنے فرائض کا احساس ختم ہو گیا ہے۔ آئین و دستور موجود ہے، قوانین موجود ہیں۔ پولیس ،عدالتیں اور انصاف کے ادارے موجود ہیں۔ قانون ساز ادارے موجود ہیں۔ وزارتیں اور وزارتوں کے ذیلی محکمے اور ادارے موجود ہیں لیکن کوئی بھی ادارہ اپنا کردار ادا نہیں کر رہا۔ ہاں، اگر کسی ادارے کے ملازمین اور افسرانکو کسی جگہ مسئلہ درپیشہوتا ہے تو وہ ادارہ ایک دم فعال اور متحرک ہو جاتا ہے۔ اپنے حقوق اور مراعات کے لیے کام بھی بند کر دیا جاتا ہے۔ ہڑتالیں اور جلوس بھی نکالے جاتے ہیں۔ اسمبلیوں کا گھیراو کیا جاتا ہے۔ عوام کا ناطقہ بند کیا جاتا ہے۔ ہر ادارہ اپنے مفادات و مراعات کے لیے بالکل ایک گینگ اور مافیا کی طرح متحد و یکجان ہوجاتا ہے۔چند روز قبل اسلام آباد میں سرکاری ملازمیں نے جس طرح اپنی تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ منظور کرایا وہ ایک مثال ہے۔ تاخیر سے سہی لیکن وزیر اعظم نے سرکاری افسران کی غفلت اور کام چوری کا نوٹس لے کر اصلاح احوال کے ضمن میں اپنی کوششیں جاری رکھنے کا اشارہ دیا ہے۔ ایسی رپورٹس موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ بعض سیاسی شخصیات سرکاری افسران کو قابو کر کے حکومتوں کو ناکام بنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ وزیر اعظم اس نوٹس کو ایک بار کی کارروائی کی بجائے ایسے منظم میکنزم میں تبدیل کر دیں جو افسران کی کارکردگی پر خودکار طریقے سے نظر رکھ سکے تو بہتری کی امید برقرار رکھی جا سکتی ہے۔