نئی حکومت آنے سے کچھ بھی تو نہیں بدلا جس طرح سے نگران دور میں عوام پر مسلسل مہنگائی اور کرپشن کا بم برستا رہا اور بجلی گیس کے بلوں میں اضافہ ہوتا رہا اب شہباز شریف کے آنے سے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو چکا ہے۔ عوام کی سکت اب جواب دے چکی ہے عوام اب مسلسل کہہ رہے ہیں کہ خدارا ہمیں رمضان المبارک میں مفت راشن نہیں چاہیے بلکہ ہمیں سستی بجلی اور گیس دی جائے مفت راشن جو کہ پنجاب میں محترمہ مریم نواز وزیر اعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر تقسم کیا جا رہا ہے وہ حقداروں کو بہت کم مل رہا ہے جو انتہائی غریب ہیں اُن کو نادرا کی طرف سے نا اہل کا میسج آجاتا ہے اور تقسیم کرنے والے سرکاری اہلکار بھی حیران رہ جاتے ہیں کہ جو موقع پر جا کر غریبوں کی حالت زار دیکھ کر پریشان ہو جاتے ہیں لیکن وہ جونہی اُس غریب شخص کا شناختی کارڈ نمبر نگہبان کو اپ لوڈ کرتے ہیں تو فوری یہ مسیج آجاتا ہے کہ آپ اِس راشن کے حقدار نہیں ہیں نادرا والوں کے اعدادو شمار اکٹھے کرنے کی بھی سمجھ نہیں آتی میں نے گذشتہ روز خود تقسیم کرنے والے سرکاری اہلکار کو چند انتہائی غریب لوگوں کے شناختی کارڈ دیئے جو اُس نے اپنے موبائل کے ذریعے نادرا کو بھیجے توفوراً یہ مسیج آیا کہ یہ نا اہل ہیں یعنی راشن لینے کا حقدار نہیں ہیں ۔ اور اس طرح چند ایسے لوگوں کو راشن لینے کا اہل قرار دیا گیا جو امیر تھے یہ ہے نادرا کا حال اب جو راشن لینے کے اہل ہیں وہ نا اہل ہو رہے ہیں اور جو اہل نہیں اُن کو اہلی کا مسیج آرہا ہے ہمارے ملک میں روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کا خون نچوڑ لیا ہے ۔ لیکن افسوس کہ حکمرانوں کے اخراجات میں کوئی کمی نظر نہیں آرہی وہی بھاری پروٹوکول وہی اخراجات آپ وزیر اعظم اور صدر ہاؤس جا کر تو دیکھیں آپ کو ایسا محسوس ہو گیا جیسے یہ دنیا ہی الگ ہے کروڑوں روپے کا ہر مہینے اِن کا خرچہ اور یہ حکمران عوام پر بڑی منت اور احسان لگا رہے ہیں کہ صدر آصف زرداری اور وزیر اعظم نے تنخواہیں نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے تنخواہیں نہ لینا تو کسی زمرے میں نہیں آتا اصل اخراجات تو بڑے بڑے پروٹوکول ہیں جن پر اربوں روپے ہر سال قوم کے ضائع ہو رہے ہیں لیکن قوم کو اِن حکمرانوں نے کیا دیاہے؟ ماسوائے بے انتہا مہنگائی اور کرپشن کے ہر محکمے میں کرپشن عروج پر ہے بڑے سے بڑے ادارے میں بغیر رشوت دیئے کوئی بھی کام نہیں کراسکتا۔ عمران خان نے بھی اپنے دور میں کرپشن کے خلاف بڑے بڑے دعوے کیے تھے لیکن جو کرپشن عمران خان کے دور میں ہوئی شاید ہی کبھی ہوئی ہو ہمارے اپنے ضلع ڈیرہ غازی خان میں عثمان بزدار کے دور میں جتنے بھی ترقیاتی کام ہوئے اُن میں عثمان بزدار کے ایک فرنٹ مین نے اُن کے نام پر اربوں روپے کے ٹھیکے جو کہ زیادہ تر ہائی وے اور محکمہ بلڈنگ کے تھے ایسے لوگوں کو دیئے گئے جنہوں نے اُس فرنٹ مین کو بھاری کمیشن دیا پھر اُن دو تین ٹھیکداروں نے ترقیاتی کاموں میں انتہائی ناقص میٹریل کا استعمال کر کے اپنا حصہ ڈبل وصول کیا ۔ یہ سلسلہ رکا نہیں پہلے کی طرح جاری ہے اور اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہماری بیورو کریسی اور عدلیہ کے دل میں قوم کا درد نہیں جا گے گا اب تو میاں نواز شریف بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ گذشتہ روز لاہور میں اُن کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں اُنہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز کی موجودگی میں کہا کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی گیس مزید کتنی مہنگی ہو گئی اور ’’عوام کا صبر کب تک آزما ئیں گے ‘‘ شکر ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے والد گرامی اور وزیر اعظم صاحب کے بڑے بھائی کے اندر عوام کا درد جاگا تو سہی اور پھر اُنہوں نے اِس موقع پر چھوٹے کسانوں کی بات بھی کی کہ حکومت ہر حال میں کسانوں کو ریلیف دے اُنہیں سستی بجلی اور ٹیوب ویلوں کے لیے سولر پینل بھی دئیے جائیں جب تک حکمران کسانوں اور غریبوں کو سستی بجلی نہیں دیں گے ۔ اُس وقت تک ہمارا ملک ترقی نہیں کر سکتا چونکہ یہ ملک غریب سفید پوش طبقہ سے ہی چل رہا ہے یہ لوگ ہر حال میں ٹیکس دے رہے ہیں حکومت نے ضروریات زندگی کی تمام چیزوں پر ٹیکس عائد کیا ہوا ہے ماچس کی ڈبیہ سے لے کر ہر چیز پر ٹیکس ہی ٹیکس ہے ہمارے ملک کی بد قسمتی ہی سمجھ لیں کہ یہاں پر روز اول سے حکومتی لوگ ایسی پالیساں بناتے ہیں کہ جس سے غریب مزید غریب تر ہوتا ہے اور امیر مزید امیر تر ہوتا ہے مافیاز نے ہر دور میں اِس ملک کو لوٹا ہے اور اب موجودہ حکومت بھی مافیاز کے ہاتھوں بے بس نظر آتی ہے یہ لوگ بڑے حکومتی لوگوں کو بھاری کمیشن دے کر ضروریات زندگی کی چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ کر دیتے ہیں اور خود پہلے اُن چیزوں سے اپنے گوداموں کو لوڈ کر چکے ہوتے ہیں یہ سیمنٹ ، چینی ،آئل اور گھی مافیا اِن بڑے لوگوں کے بڑے خرچے بھی کرتے ہیں اور پھر اربوں روپے عوام سے وصول کرکے محب وطن بھی بنتے ہیں۔ اصل حکومت اِس سیمنٹ ، شوگر مافیااور صنعت کاروں کی ہوئی ہے جن پر آج تک کسی نے ہاتھ نہیں ڈالنا اور چالان صرف غریب دکانداروں کا ہوتا ہے ۔ ٭٭٭٭٭