بنو اسرائیل کی آسمانی کتب میں ایک تالمود ہے۔ تالمود کا لفظ عبرانی الاصل ہے۔اس کے معنی پڑھنا ہیں یعنی جیسے ہمارے لیے قران پاک پڑھنے کے لیے قرات کا خوبصورت لفظ ہے۔ یہی عربی میں لمذ ہے جس سے تلمیذ یعنی شاگرد مشتق ہے۔شاعر کو بھی تلمیذالرحمٰن کہا جاتا ہے۔ کبھی بادشاہ کو ظل ِالٰہی کہا اور مانا جاتا تھا ِ پاکستانی حکمران کس کے شاگرد رشید ہیں نہیں معلوم۔یہ از خود استاد ہیں پورے استاد۔ کیا خورد کیا کلاں سب ایک سے ہیں بلکہ ایک سے بڑھ کر ایک۔بجلی کے بلوں کا شور مچا تو نیا حکمران کہنے لگا عام آدمی کی حالت مجھ سے دیکھی نہیں جاتی جب ضرورت ہو میرے کمرے کا ائر کنڈیشنر بند کر دیا کریں۔ان سے پہلے ان کے بھی استاد تھے۔ آئے دن جو آئی پی پیز کا شور مچا ہوتا ہے یہ 2057 تک جاری رہے گا کہ ان سے آخری معاہدہ اسی سن میں ختم ہو گا بشرطیکہ ساتھ ساتھ (یعنی نالونال ) اور معاہدہ جات نہ کیے جائیں۔کہا جاتا ہے اللہ کو تو نہیں البتہ اس کی نشانیوں سے اس کو دیکھا اور پہچانا جا سکتا ہے بعینیہ نشانیوں سے یہی لگتا ہے کہ ایسے معاہدے ابھی اور ہونے ہیں اور ضرور ہونے ہیں۔سنا ہے ان میں یافت بہت ہے۔ہینگ لگے نہ پھٹکڑی رنگ آئے چوکھا۔ اس وقت ٹوٹل بجلی کی پیداوار چوالیس ہزار میگا واٹ ہے۔جس میں نصف سے زیادہ بجلی تھرمل ذراائع سے پیدا ہوتی ہے۔پانی سے محض گیارہ فیصد۔ اچھے زمانے تھے نہ آئی پی پیز تھے اور نہ لوڈ شیڈنگ۔ان کا ظہور کیا ہوا لوڈ شیڈنگ بھی جاری ہے اور ہم سوں کی آہ و زاری بھی۔آئی پی پیز کی کل تعداد دو سو سے زائد ہے۔ ان میں اپنے ملکی بھائی زیادہ ہیں اور بدیسی حاکم کم۔چار سال قبل ایک حکومتی کمیٹی نے بتایا تھا کہ ان آئی پی پیز نے ایک ہزار ارب سے زیادہ کا ناجائز منافع کمایا ہے۔بھلے انہوں نے ناجائز کمایا ہو ان کو ایک ہزار ارب ادا کرنے والوں نے تو جائز کمایا تھا جن سے بجلی کے بلوں کی ادائیگی کی تھی۔جائز کمانے والوں کے ساتھ یہی ہوتا آیا ہے۔اس ہزار ارب کے زائد منافع کمانے والوں میں سی پیک کے تحت کوئلے سے چلنے والے دو کارخانے بھی تھے۔ اس سلسلے کا آغاز پچھلی صدی میں ہوا تھا تب 1994 تھا اور ہم نوجوان تو نہیں جوان ضرور تھے۔تب لوڈ شیڈنگ کا نام ضرور سنا تھا تجربہ ہر گز نہیں ہوا تھا۔اب تجربہ بھی ہو رہا ہے اور مشاہدہ بھی۔یہ کہنا کہ بدیسی آئی پی پیز نے ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے یک طرفہ سچائی ہے۔ یہ ہمارے اپنے بہن بھائی اور اپنے دیس کے لوگ ہیں۔مگر پیسہ کی اپنی سلطنت ہوتی ہے ہماری تمہاری سلطنت سے الگ۔ اینگرو سے لے کر ایف ایف سی انرجی تک ہڑپہ انرجی سے لے کر نارووال انرجی تک ایک طویل فہرست ہے۔ ٹوٹل پیداوار اور استعمال میں آنے والی بجلی کے درمیان ایک لمبا چوڑا فرق ہے اسے Capicity Payments کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اس الا بلا کا ترجمہ کرنا چاہا تو ہمارے ہاتھ پاؤں ہی پھول گئے۔اس اصطلاح کا ترجمہ وہی ہونا تھا جو ہمارے ماہران ِ تعلیم نے سائنسی تعلیمی اصطلاحات کا کیا تھا۔یعنی انگریزی میں سمجھ آ جانے والا اور اردو میں ناقابل یقین حد تک مضحکہ خیز۔البتہ اس کا مفہوم بہت سادہ مگر ہوش اڑانے والا ہے۔ دھن اور کام کے پکے لوگوں سے کسی غلطی کا امکان نہیں ہو سکتا انہوں نے ٹھونک بجا کر اور سمجھ سمجھا کر یہ فیصلے یعنی معاہدے کیے ہیں۔ہمارے اقبال ساجد کی کہے کو کون سنے جو نہ تینوں میں نہ تیروں میں ٹوٹیں گی جب طنابیں رہ جائیں گے سکڑ کے کھنچ کے بڑے ہوئے ہیں یہ آدمی ربڑ کے یہ آدمی لوہے کے ہیں سر تا پا لوہے میں غرق ہیں۔لوہے میں سراپا غرق ہونے والے کو غلام ِ کاتلام کہا جاتا ہے۔اگر لوہے میں غرق نہ ہوتے تو بلا تخصیص کیوں ایسے معاہدے کرتے جاتے۔یہ سلسلہ جو پچھلی صدی سے جاری ہے اس میں ایک سو معاہدے نواز شریف کے دور میں ہوئے اور اس میراتھن میں اول قرار پائے۔عمران خان رنر اپ رہے اور انتیس معاہدے کیے۔جاتے۔ اس سال ان آئی پی پی پیز کو ایک کھرب تیس ارب ادا کرنا ہوں گے۔یہ معاہدے طویل مدتی ہیں جو جلد ختم نہیں ہوں گے۔ حب پاور کمپنی کے ساتھ 22 سالہ معاہدہ 25 اگست 2025 کوختم ہوجائیگا۔ یہ معاہدہ 26 اگست 2003 کو کیا گیا تھا۔دو معاہدے 36 سال بعد 2059 میں ختم ہوں گے۔الا ماشااللہ 11 معاہدے 2034 میں 9 معاہدے 2035 میں، 23 معاہدے 2039 میں،11 معاہدے 2040 میں، 11 معاہدے ہی 2043 میں، 16 معاہدے 2044 میں ،23 معاہدے 2045 میں، گیارہ 2046 میں، بارہ 2047 میں، پندرہ 2048 میں ، 9 معاہدے2049 میں، مزید 9 معاہدے 2050میں، ایک معاہدہ 30 سال بعد 2053 میں اور ایک 34 سال بعد 2057 میں ختم ہو گا۔ اس قدر تفصیل فراہم کرنے پر ہم خود ہلکان ہو رہے ہیں۔ جس بنو اسرائیل کی کتاب تالمود سے بات آغاز کی تھی ان کے بارے میں کیا عرض کریں۔دو ہزار سولہ سے دبئی اور حیفہ اسرائیلی بندر گاہ تک ریلوے لائن بچھائی جا رہی ہے۔بحیرہ ِ روم سے خلیج ِ فارس تک آنے کے لیے مسافروں بلکہ سیاحوں کے لیے انتظامات ہو چکے۔تالمود میں ایک عشرۃ التوبہ کا بھی ذکر ہے جو نئے سال روش ہشانا سے شروع ہو کر یوم ِکپور پر ختم ہوتا ہے۔یہ وہی یوم ِکپور ہے جس کی وجہ عرب بھائیوں نے تہتر میں اپنے کزنز پر چڑھائی کی تھی اور ہمیشہ کے لیے تائب ہو گئے تھے۔ عشرۃ التوبہ تو اسرائیل والے مناتے ہیں مگر اب عرب بھائی مناتے ہیں۔ہمارے حکمران ابھی توبہ کے موڈ میں نہیں ہیں۔ہوتے تو آئی پی پی کے معاہدے یوں کبھی نہ کرتے۔ 2057 تو بہت دور تھا مگر جاتے جاتے شہباز شریف بھی ایسے چھ معاہدے کر گئے کہ شہیدوں میں نام یونہی تو لکھوایا جاتا۔