حسب سابق/حسب دستور ‘ حسب معمول سب قارئین اور اہل وطن کو عید کی مبارکباد۔لیکن یہ مت بھولئے کہ عید خوشیوں کا دن ہے اور ہمارے ملک میں اور ہمارے پڑوس میں کروڑہا لوگ ایسے ہیں جن کی عید کا دن بھی دکھوں اور حسرتوں میں گزر جاتا ہے بلکہ عید کے دن باقیوں کو خوشی مناتے دیکھ کر ان کے دکھ اور زیادہ ہو جاتے ہیں اور حسرتیں اپنے سائے اور بھی پھیلا لیتی ہیں۔ غربت اس سارے قطعہ اراضی جس کا نام برصغیر ہے‘ کا صدیوں سے مقدر ہے۔ایک بڑے طبقے کی حالت کبھی نہیں سدھری۔وٹس ایپ اور ٹویٹر کے اس دور میں ہر طرح کے طرز زندگی کی سینکڑوں جھلکیاں ہم اپنے موبائل پر دیکھ لیتے ہیں۔جو کبھی سنا کرتے تھے‘اس کی تصویر ہمارے سامنے ڈیجیٹل میڈیا نے لاکھڑی کی ہے۔پچھلے دنوں ہم نے طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والوں کی لڑائیاں بھی اس ڈیجیٹل میڈیا پر دیکھیں۔یہ لڑائیاں فائیو سٹار ہوٹلز میں ہوئیں۔بہت سے لوگوں نے پہلی بار دیکھا ہو گا کہ فائیو سٹار ہوٹل اندر سے کیسے ہوتے ہیں۔بھلا ہو اشرافیہ کی اس لڑائی کا اور اسی سوشل میڈیا کی بدولت ہم مزدور اور محنت کش طبقے کے حالات بھی دیکھتے ہیں جو لینن اور مارکس کے دور سے بھی زیادہ تلخ اوقات کا مظہر ہیں۔مارکس اور لینن جس براعظم میں پیدا ہوئے‘وہاں غربت ختم ہو گئی‘ ہمارے ملک میں بڑھ گئی۔ ٭٭٭٭٭ 1970ء کی دہائی میں میڈیا کا ایک حصہ غریب کی بات کرتا اور اس کے حالات دکھاتا تھا۔عرف عام میں اسے بائیں بازو کا پریس قرار دیا جاتا تھا۔بڑا حصہ میڈیا کا اسلام پسند کہلاتا تھا جس کے خیال میں غریب کے حالات دکھانا ایسا بڑا گناہ تھا جس کی معافی نہیں۔چنانچہ وہ سب اچھا ہے کی تصویردکھاتا تھا۔غریب اور محروم طبقوں کے لئے اس پریس میں کوئی جگہ نہیں تھی۔ اب خیر سے بایاں بازو تاریخ کے کوڑے دان میں دفن ہو چکا ہے۔مرکزی دھارے کا سارا میڈیا اشرافیہ کے لئے وقف ہے۔بیچ بیچ میں لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کے مصداق ٹی وی چینلز پر کچھ غریبوں کے حالات بھی دکھا دیے جاتے ہیں۔اسے تبرک سمجھیے۔وہ جو مصرعہ ہے فیض کا کہ لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر اس کے بانی الفاظ یہ ہیں کہ ’’کیا کیجیے‘‘ مطلب مجبوری ہے اور اشرافیہ کے ترجمان میڈیا کی بھی یہ مجبوری ہے‘اس لئے کہ اس کی بھی ’’ریٹنگ‘‘ آتی ہے۔نہ آئے تو پھر کہاں کی مجبوری‘پھر نظر کو کسی اور طرف لوٹنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔جو بھی حکمران آتا ہے‘ غریبوں کی بات ضرور کرتا ہے لیکن جب مراعات کی بوری کا منہ کھلتا ہے تو انہی کے لئے جو پہلے ہی مراعات یافتہ ہوتے ہیں۔ابھی تھوڑی دیر پہلے عمران خان نے پریس کانفرنس کی ہے اور کہا ہے کہ فرح گوگی پر الزامات غلط ہیں۔وہ پراپرٹی کا کاروبار کرتی ہیں اور گزشتہ دور میں اس سیکٹر نے بہت منافع کمایا۔دیکھیے‘ ہر دور میں منافع کمانے والے سیکٹر بھی منافع کماتے ہیں‘ گھاٹے کی ساری رسد غریبوں کے ہاں چلی جاتی ہے۔ ٭٭٭٭٭ بچپن میں پڑھی تحریریں کبھی نہیں بھولتیں‘ ان کا نقش بھی بہت گہرا ہوتا ہے‘ ہر عید کو وہ واقعہ لازماً یاد آتا ہے جو پہلی ‘دوسری جماعت میں پڑھا تھا۔ایک یتیم بچے کو گلی میں روتا ہوا دیکھا تو رحمت اللعالمینؐ نے کس طرح اس کی دلجوئی کی۔بہت مشہور واقعہ ہے‘ بتانے کی ضرورت ہی نہیں۔قرآن پاک اور اسوہ حسنہ کی تعلیم ہی یہ ہے کہ غریب مسکین محروم اور یتیم سے محبت سلوک کرو۔لیکن کل ہی کسی وٹس ایپ گروپ میں ایک بے نام بے پتے کی ویڈیو شیئر ہوئی۔ایک چار پانچ سال کی بچی کو اس کا ظالم غالباً سوتیلا باپ بڑی بے رحمی سے مار رہا ہے‘گلے میں پھندا ڈال کر اس کا سانس دبانے کی کوشش کر رہا ہے۔بچی اس بری طرح ‘دردناک طریقہ سے رو رہی تھی کہ کلیجہ منہ میں آ گیا۔ اور یہ کوئی پہلی ویڈیو نہیں تھی۔جب سے وٹس ایپ اور اس سے پہلے یوٹیوب کا سلسلہ شروع ہوا ہے‘ایسی ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ویڈیوز دیکھ چکا ہوں۔ کمزور پر ظلم عالمگیر بیماری ہے لیکن ہمارے ہاں سب سے زیادہ۔اعداد و شمار کے لئے اکثر دنیا بھر کی سائٹس کھنگالتا رہتا ہوں‘بچوں اور عورتوں پر مظالم کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہمارے ملک میں ہے۔ایسا کیوں ہے‘میں اس پر سوچ بچار کا اہل نہیں‘یہ سید خورشید ندیم جیسے دانشوروں کا کام ہے جن کی عمرانیات اور عمرانی سماجی نفسیاتی اور معاشرتی رجحان پر گہری نظر ہے۔وہ غور کریں اور قوم کو بتائیں کہ ہمارے ہاں یہ تعصب سے زیادہ کیوں ہے۔ حالیہ دور میں ایک اچھی بات سامنے آئی ہے اگرچہ اس کی شرح بہت کم ہے۔وہ یہ کہ گھریلو تشدد کے واقعات کی پڑوسی گھرانے رپورٹ کرنے لگے ہیں لیکن یہ بہت ہی ناکافی شرح ہے۔ظلم کو مذہبی تقدس کی چادر اوڑھا دی گئی ہے۔کوئی غیرت کے نام پر قتل کے خلاف لکھ کر تو دیکھے۔ 20اپریل کو لاہور میں دو ملازم بچیاں قتل کر دی گئیں۔غالب مارکیٹ میں تیرہ سالہ بچی کو جو آٹھ ہزار روپے ماہوار پر ملازم تھی‘ اس کے مالک نے تشدد کر کے مار ڈالا۔تیرہ سالہ مسکان کو احمد شکیل بھٹی نامی شخص نے مارا۔نشتر کالونی میں ایسی ہی کمسن ملازم بچی کومل کو پھندا لگا کر مار دیا گیا۔ان کی بدنصیب زندگی پر مجھے کچھ نہیں کہنا‘صرف یہ بتانا ہے کہ لاہور کے ایک بڑے اخبار میں قتل کی ان دو وارداتوں کی خبر آخری صفحے پر لگی 5سطروں میں شائع ہوئی۔ملاحظہ ہو: لاہور‘ نامہ نگار‘ غالب مارکیٹ اور نشتر کالونی میں 13سالہ بچی سمیت دو ملازمائیں پراسرار طریقے سے ہلاک ہوئیں۔پولیس نے لاش مردہ خانے بھیج دیں‘‘ خبر ختم۔عید مبارک!