کیا بتائے کہ وہ کیا بھول گیا اک پرندا جو صدا بھول گیا عجز ایسا تھا میرے دشمن میں میں وہیں اپنی انا بھول گیا اور اسی روانی میں کچھ یوں ہوا ’’اس کو آنا تھا نہ آیا وہ بھی، میں بھی، رکھ کے دروازہ کھلا بھول گیا‘‘۔ قدریں بدلیں تو میں ایسا بدلا۔ سب وفا اور جفا بھول گیا۔ اور ایک بات صرف اور ’’کہ وہ تشدد تھا الٰہی تو بہ میں تو مجرم کی خطا بھول گیا‘‘۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ آغاز ہی میں کچھ ایسا لکھا جائے کہ آپ لطف محسوس کریں وگرنہ حالات تو بہت برے ہیں کہ ہر طرف گرانی کی حکمرانی ہے یا پانی کی۔ ہر طرف یہی کہا جارہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے اجتماعی اقدامات ضروری ہیں اور وزیراعظم صاحب تجارت اور معیشت میں شراکت داری چاہتے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ پاکستان تاریخ کے مشکل ترین وقت سے گزر رہا ہے۔ قدرتی آفات اپنی جگہ مگر مقامی آفات بھی کوئی اس سے کم نہیں۔ ملک کو ان حالات کی طرف کون کھینچ کرلے گیا کہ آپ کے پاس آفات سے نمٹنے کے لیے کچھ بھی موجود نہ ہو۔ وہ جو ڈیزاسٹر والا محکمہ تھا وہ بھی شاید خودی تباہ ہو چکا۔ سیاسی باتیں چھوڑ دیتے ہیں صرف اتنا تو بتا دیں کہ اگر آپ کے دل میں کوئی ذرا سی بھی محبت وطن کے لیے تھی تو کوئی اس کی نشانی ہمیں بھی بتا دیں۔ قہر درویش بر جان درویش کے مصداق محب وطن خود ہی جلتے رہتے ہیں مگر حرام ہے کہ ہمارے رہنمائوں پر کچھ ذرا سا بھی اثر ہوا ہو کہ وہ نام کرنے کے لیے ہی کچھ مدد کا اعلان کردیتے۔ میرا مطلب اپنی نیک کمائی سے جو یقینا حلال طریقے سے کمائی ہو: ایک سچ ہی تو رکاوٹ ہے تیرے رستے میں قہقہ بار ہے خود تیری خرافات پہ جھوٹ میری تمہید کچھ لمبی ہو گئی۔ آپ یقین کیجئے مجھے تو آج غصے کے موضوع پر کچھ لکھنا تھا۔ وہی غصہ جو آج کل صرف عوام کے حصے میں آیا ہوا ہے اور وہ بے چارے اسی غصے میں جل بھن گئے ہیں۔ سیاستدانوں اور رہنمائوں کی مکاریاں‘ جھوٹ اور فریب جن کی ساری توجہ لوٹ مار پر اور عوام کو بے وقوف بنانے کی طرف ہے۔ وہاں تو شرم و حیا کا گزر ہی نہیں بس اقتدار مل جائے ،مزے ہی مزے ہیں اگر اوپر والوں کے سجدہ ریز بھی ہو گئے تو کیا مہنگا ہے۔ ڈاکٹر ناصر قریشی نے ایک مختصر سی حدیث سنائی۔ ایک صحابی نے حضورؐ پر نور سے پوچھا کہ کوئی نصیحت فرمائیے۔آپ نے فرمایا ’’لاتغضب‘‘ یعنی غصہ نہ کر۔ ان صحابی نے پھر پوچھا تو وہی جواب ملا۔ تیسری مرتبہ پوچھا تو حضورؐ نے وہی کہا ’’لاتغضب‘‘ آپ اس پر سوچتے جائیے تو اس لفظ کی پرتیں کھلتی جائیں گی۔ اکثر مسائل یہی سے جنم لیتے ہیں۔ اپنے غصے پر کنٹرول سچ مچ کوئی آسان نہیں۔ انسان غصے میں کیا کچھ کہہ جاتا ہے اور غصہ اترنے کے بعد ندامت ہوتی ہے مگر زبان سے جو زخم کسی کو لگتا ہے وہ جلدی مندمل نہیں ہوتا۔ وہی کہ زخم وہ دل پہ لگے ہیں کہ دکھانے کے نہیں۔ ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ دنیا میں سب سے بڑی نعمت برداشت ہے۔ اس کے لیے بڑا ظرف چاہیے۔ غصہ کرنے کا نقصان بھی سب سے پہلے خود کو ہوتا ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ غصہ کرنے والا احمق ہے کہ دوسروں کی غلطیوں کی سزا خود کو دیتا ہے۔ ہو سکتا ہے یہ بلڈ پریشر بھی ہو مگر غصہ کرنے سے اگر بلڈ پریشر نہیں تب بھی ہو جائے گا۔ ویسے غصہ صرف محبوب کی ناک پر ہی اچھا لگتا ہے۔ وہی جو کسی نے کہا تھا: ان کو آتا ہے پیار میں غصہ ہمیں غصے میں پیار آتا ہے اس معاملے کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ ان دنوں سیاست میں بھی غصہ ہی چل رہا ہے ۔ ایسے ہی داغ کا محبوب یاد آگیا: تلخی سہی کلام میں لیکن نہ اس قدر کی جس سے بات اس نے شکایت ضرور کی اپنی خواہش کی تکمیل کا نہ ہونا ایک عام بات ہے مگر یہ کوئی آسمانی حکم تو نہیں۔ دوسری بات یہ کہ وی ایملی برونٹے کی نظم کے خیال کی طرح کہ اس نے غور کیا کہ وہ تمام خامیاں جن کی وجہ سے وہ دنیا سے نالاں ہے اس کے اپنے اندر بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔ آپ بس اپنا غصہ کم کریں اور حکمت و تدبر کے ساتھ آگے بڑھیں۔ خود ایک مثال بن کر دکھائیں۔ غصہ کرنے سے ذہن آپ کا ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ اپر فیکلٹی کام کرنا چھوڑ دیتی ہے۔ یہ غلط نہیں کہ غصہ سراسر شیطاان کا عمل ہے۔ وہ غصہ کرنے والے کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے۔ پھر آتے ہیں حضورؐ کے فرمان کی طرف کہ آپؐ نے یہ بھی سکھایا کہ غصہ کو کنٹرول کیسے کرتا ہے۔ مفہوم کچھ یوں ہے کہ اگر کوئی کھڑا ہے تو بیٹھ جائے۔ اگر بیٹھا ہے تو لیٹ جائے۔ اس میں کمال حکمت ہے کہ انسان تھوڑا سا سکون کی حالت میں چلا جاتا ہے کہ یہ کیفیت تبدیل کرنے کی طرف قدم ہے۔ پھر یہ لمحات کہ چونکہ یہ شیطانی کام ہے شیطان آگ سے بنا ہے تو بندہ وضو ع کرنے اور کہیں پانی پینے کے بارے میں بھی پڑھا تھا۔ کہا گیا کہ تم میں طاقتور وہ ہے جو غصے پر کنٹرول حاصل کرلے۔ ہمارے ہاں بھی یہ تدبیر کی جاتی ہے۔ ایک ڈاکٹر نے خاتون سے کہا تھا کہ جب غصہ آئے تو یہ پیپر اپنے دانتوں میں دبا کر رکھ لیں۔ خاتون نے کہا کہ ان کے میاں جب غصے میں ہوتے ہیں تو میری بات کہاں سنتے ہیں وہ کہاں چاہیں گے کہ یہ پیپر دانتوں کے درمیان رکھیں۔ ڈاکٹر نے کہا محترمہ یہ نسخہ آپ کے لیے ہے۔ غصہ کی ایک وجہ آدمی کا اپنی سوچ کو مثبت نہ رکھنا بھی ہے۔ منفی سوچ انسان کو شر کی جانب لے جاتی ہے جس سے اس کے اندر غصہ پیدا ہوتا ہے۔ ہر چیز میں مثبت پہلو تلاش کرنے کی عادت ڈالنے سے بھی غصہ میں کمی آ سکتی ہے۔ افضل گوہر رائو کا ایک شعر: کیا خبر کل یہی توقیر سلامت رکھے میری وحشت میری زنجیر سلامت رکھے