اہل پاکستان کو آج ماہ صیام کا استقبال کر رہے ہیں۔رمضان المبارک مسلمان معاشروں کی مشترکہ روحانی و ثقافتی اقدار کا احیا کرتا ہے۔یہ صاحب ثروت طبقات کو محروم طبقات کے مسائل کا احساس عطا کرتا ہے۔حالیہ ماہ صیام اس لحاظ سے منفرد ہے کہ بے تحاشا بڑھتی مہنگائی، سیاسی بے چینی اور باہمی اختلافات نے پاکستانی معاشرے کو بری طرح متاثر کر رکھا ہے۔اس صورتحال میں رمضان المبارک کی عطا کردہ تحمل، برداشت ،دیانت داری ،حسن سلوک اور دوسروں کی تکالیف کا احساس جیسے تحفے تیزی سے بگڑتے معاشرے کو اصلاح کا موقع دے سکتے ہیں۔ رمضان المبارک کا مسلم اقوام اور معاشرے پر بڑے پیمانے پر ایک اہم سماجی اثر پڑتا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب مسلمان اکٹھے ہوتے اور بھائی چارے کے رشتوں کو مضبوط کرتے ہیں۔ یہ دینے اور خیراتی کاموں کا بھی وقت ہے۔بہت سے مسلمان رمضان بھر میں اپنے روزے کے اوقات ضرورت مند لوگوں کی مدد کے لیے وقف کرتے ہیں۔ یہ ضرورت مندوں کو کھانا فراہم کرنے سے لے کر بیماروں کی عیادتکرنے اور اجتماعات کے دوران مدد فراہم کرنے تک کسی بھی چیز کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔تاہم ماہ صیام ایک دوسرے کی مدد کے لیے ایک کمیونٹی کے طور پر اکٹھے ہونے کی اہمیت پر بھی زور دیتا ہے۔دوست اکثر افطار کے لیے مسجد میں جمع ہوتے ہیں، جس سے اتحاد اور جوابدہی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔رمضان دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے روحانی مجاہدے، دعا اور خیراتی کاموں کا وقت ہے۔ اس کے ثقافتی اور سماجی اثرات نہ صرف مسلم کمیونٹی پر بلکہ بڑے پیمانے پر پورے معاشرے پر بھی نمایاں ہیں۔ رمضان سماجی ہم آہنگی، بھائی چاریکے جذبے اور بین المذاہب تعلقات کو فروغ دیتا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب مسلمان افطار کرنے ،کھانا بانٹنے اور غریبوں اور ضرورت مندوں کو دینے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔پاکستان میں بہت سے فلاحی ادارے اور تنظیمیں کام کر رہی ہیں ،اس مقدس ماہ میں وہ فنڈز اکٹھا کرتی ہیں۔ رمضان کے ثقافتی اثرات نے عربی زبان اور ثقافت کے تحفظ اور ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ رمضان کا سماجی اثر اس بات کا ثبوت ہے کہ مذہب معاشرے میں مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔ ایک مسلم معاشرے میں کاروباری طبقہ اپنا منافع کم کر دیتا ہے تاکہ تمام لوگ رمضان المبارک میں سہولت کے ساتھ روزے و عبادات بجا لا سکیں۔افسوسناک امر یہ کہ وطن عزیز میں ایسا نہیں ہوتا۔رمضان المبارک سے قبل مہنگائی کا طوفان آگیا ہے جس کے باعث اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں۔نگرانی و انسدادی نظامکی عدم موجودگی کی وجہ سے تاجروں نے حکومت کی قیمتوں کی فہرست نظر انداز کر دی ہے۔وفاقی دارالحکومت اسلام آباد،اور چاروں صوبائی دارالحکومتوں سمیت مختلف شہروں میں پھلوں اور سبزیوں کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوگئی ہیں۔ اسلام آباد کے اتوار بازار میں پیاز 330 روپے فی کلو، آلو 74 روپے، ٹماٹر 160 روپے۔ ادرک 540 روپے، ادرک 680 روپے، کریلا 280، بھنڈی 320 روپے، انگور 420، سیب 340 روپے، انار 400 روپے میں مل رہا ہیکراچی کی مارکیٹوں میں لہسن 1000 روپے، ادرک 600 روپے، ہری مرچ 500 فی کلو گرام اور مرغی کا گوشت700 روپے فی کلو مل رہا ہے۔ کوئٹہ میں آلو اور پیاز کی قیمتوں میں فی کلو 20 اضافہ ہوا ہے، آلو 70 روپے کلو اور پیاز 240 فی کلوگرام فروخت کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے مہنگائی سے متاثر عوام کے لئے رمضان پیکج ساڑھے سات ارب روپے سے بڑھا کر ساڑھے بارہ ارب روپے کر دیا ہے،ابتدائی طور پر بارہ سو موبائل پوائنٹس ،تین سو مستقل ریلیف مراکز قائم کئے جا رہے ہیں جہاں کم قیمت پر اشیا خوردو نوش فراہم کی جائیں گی۔حکومت کا یہ اقدام قابل قدر ہے لیکن اس کی پہلی ذمہ داری ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں پر قابو پانا ہے۔اسی انتظامی کارروائی سے حکومت کی کارکردگی کا تعین ہو سکے گا۔ پاکستان حالیہ برسوں میں معاشی بدحالی کا شکار رہا ہے۔بدعنوانی، بدانتظامی، کوروناکی وبا، توانائی کا بحران اور قدرتی آفات نے معیشت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔بہت سے پاکستانیوں نے اپنی حقیقی اجرت میں تیزی سے کمی دیکھی ہے۔ غریب طبقات اشیائے ضروریہ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں، جن میں سے بہت سے بنیادی اشیائے خوردونوش خریدنے اور بجلی کے بل ادا کرنے سے بھی قاصر ہیں۔پاکستان نے پچھلے سال بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ 3 بلین ڈالر کا اسٹینڈ بائی معاہدہ کیا تاکہ غیر ملکی قرضوں سے نمٹنے اور ادائیگیوں کے توازن کے بڑھتے ہوئے فرق کو پر کیا جاسکے۔اگرچہ اس معاہدے نے انتہائی ضروری ریلیف فراہم کیا، نئی حکومتکو اب اس کی توسیع پر بات چیت کرنا ہو گی۔یہ پاکستان کی معاشی تاریخ کا ایک بہت مشکل وقت ہے۔ منتخب حکومت کو آئی ایم ایف کے نئے قرضے کے لیے کوالیفائی کرنے کے لیے غیر مقبول فیصلیپر مجبور کیا جائے گا۔ ان فیصلوں سے مستقبل قریب میں عوامی بے چینی کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔اس صورتحال میں رمضان المبارک کے دوران امدادی پیکج کی فراہمی آسان کام نہیں ہو گا۔ حکومت کئی شعبوں میں گورننس بہتر بنا کر عام آدمی کی زندگی بنا کسی اضافی خرچ کے آسان بنا سکتی ہے۔رمضان المبارک کے دوران سماجی بہبود کی تنظیموں، سیاسی جماعتوں اور مذہبی گروپوں کو مل کر پاکستان میں مثبت ماحول کے لئے کام کرنا چاہیئے۔پاکستان رمضان المبارک کے ایام میں قائم ہوا اسے مضبوط کرنے اور اس کے لوگوں کو متحد رکھنے کے لئے اگر رمضان المبارک میں تمام طبقات پر خلوص کردار ادا کر سکیں تو اس سے بہتر اور کیا ہوگا۔